میرا خود الیکٹریکل انجینئر ہونا اور گزشتہ 35 سال سے پاکستان اور بیرونِ ملک بجلی کی منصوبہ بندی سے وابستہ ہونا میرے تمام دوستوں کی جانب سے اس بات کا متقاضی تھا کہ میں بجلی بحران کے اسباب اور ممکنہ حل کے بارے میں کچھ کالم آرائی کروں۔ لیکن موضوع کی وسعت اور کالم کی تنگ دامانی آڑے آئی ہوئی تھی اور میں اس موضوع کو ٹال رہا تھا‘ لیکن اب سوچا ہے کہ اس مسئلہ کی مختلف جہتوں پر جدا جدا کالم تحریر کردوں۔ میں نے یکم جون کے گزشتہ کالم میں بجلی بحران کے پیدا کرنے میں عالمی سرمایہ داری نظام اور اس نظام کی انتہائی تابعدار ہماری حکومتوں نے جو کردار ادا کیا ہے اُس کا اجمالی جائزہ پیش کیا تھا اور بتایا تھا کہ 91ء میں سرد جنگ کے خاتمے کے بعد جنم لینے والے نیو ورلڈ آرڈر کی مارکیٹ اکانومی اور پرائیویٹائزیشن نے ہمارے پاور سیکٹر کو کس طرح تباہ و برباد کیا، کیسے بجلی کی طلب اور رسد میں فرق خوفناک حد تک بڑھ گیا اور اُسی نظام کی بدولت گردشی قرضہ ہمارے گلے میں پیر تسمہ پا بن چکا ہے۔ مارکیٹ اکانومی اور پرائیویٹائزیشن کے تحت مہنگے درآمدی تیل پر مبنی چھوٹے پلانٹ تو لگائے گئے لیکن کوئی بڑا منصوبہ جو مقامی وسائل یعنی آبی ذخائر اور تھرکول کے ذخائر پر مبنی ہوتا شروع نہ ہوسکا کیونکہ یہ پبلک سیکٹر نے لگانے تھے اور عالمی سرمایہ داری کے ادارے نیو ورلڈ آرڈر کے تحت پبلک سیکٹر کو اس مقصد کے لئے قرضہ دینے پر آمادہ نہ تھے۔ چنانچہ بھاشا ڈیم کا سنگِ بنیاد پرویز مشرف، شوکت عزیز، آصف زرداری اور یوسف رضا گیلانی نے باری باری رکھا مگر افتتاحی تختی سے آگے اس منصوبہ پر ایک اینٹ بھی نہ لگ سکی کیونکہ کوئی مالیاتی ادارہ پیسہ دینے کو تیار نہ ہوا۔ چین سے لے کر عالمی بنک تک سب نے وعدے کئے مگر کوئی وعدہ وفا نہ ہوا۔ عالمی سرمایہ داری کے چنگل میں جکڑے رہنے سے ہمارا کوئی مسئلہ نہ پہلے حل ہوا ہے نہ آئندہ ہوگا۔ عالمی سرمایہ داری پر انحصار کے بجائے خود پر انحصار کرنے کی ایک مثال حال ہی میں ایک انتہائی غریب ملک ایتھوپیا نے قائم کی ہے۔ شاید ہمارے لئے اس میں کوئی سبق ہو۔ وہاں کی سوشلسٹ حکومت نے ایک ڈیم پر تعمیر کا کام شروع کیا ہے جس سے چھ ہزار میگاواٹ بجلی پیدا ہوگی اور اس کی تکمیل سے بجلی کی مجموعی پیداوار اس ملک کی ضرورت سے زیادہ ہو جائے گی اور یہ اضافی بجلی ہمسایہ ممالک کو درآمد کی جائے گی۔ اس منصوبہ کے لئے 4.8 بلین ڈالر درکار تھے۔ چین نے 1.8 بلین ڈالر کی ٹربائنیں ادھار دینے کا معاہدہ کرلیا۔ بقیہ 3 ملین ڈالر کے لئے عالمی سرمایہ داروں نے قرضہ نہ دیا اور نہ ہی وہاں کی حکومت نے اس کے لئے کسی کے آگے کشکول پھیلایا۔ وہاں کی حکومت نے بانڈ جاری کئے اور اپنے عوام سے سرمایہ کاری کروائی ہے۔ منصوبہ پر زور و شور سے کام جاری ہے جو اگلے پانچ برس میں مکمل ہو کر بجلی کی ترسیل شروع کردے گا۔ کیا پاکستان ایتھوپیا سے زیادہ غریب ہے کہ اپنے عوام سے بانڈ جاری کر کے اور ٹیکس چوروں کو ٹیکس کے جال میں جکڑ کر اپنے وسائل سے میگاپراجیکٹ شروع نہیں کرسکتا؟ خود انحصاری کیلئے تین چیزیں درکار ہوتی ہیں۔ ایک قدرتی وسائل اپنے ہوں، درآمد نہ کرنے پڑیں، دوسرے سرمایہ کاری کیلئے بیرونی اداروں پر کم سے کم انحصار کرتے ہوئے مقامی سرمایہ کاری مہیا ہو اور تیسرے مقامی ہُنر مند افرادی قوت موجود ہو۔ پاکستان کے پاس نہ تو قدرتی وسائل کی کمی ہے اور نہ ہُنر مند افرادی قوت کی۔ سندھ اور جہلم جیسے عظیم دریائوںاور ان کی معاون ندیوں پرپن بجلی کے منصوبوں کی ایسی Sites موجود ہیں جن کی فزیبلٹی سٹڈیز کے مطابق کم ازکم چالیس ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں اور سندھ طاس معاہدہ کے باوجو ہم انہیں اپنے تصرف میں لا سکتے ہیں۔ تھرکول سے بھی 40 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ توانائی کے متبادل ذرائع جن میں ہوا یعنی پون(Wind)) سے بجلی پیدا کرنے کی بڑی وسیع راہداری (Corridor) سندھ کے جنوبی ساحل کٹی بندر سے لے کر گھارو، ٹھٹھہ، جھمپیر اور حیدر آباد تک پھیلی ہوئی ہے جہاں سے کم و بیش 10 ہزار میگاواٹ بجلی حاصل کی جاسکتی ہے، پنجاب میں چکری اور کلرکہار میں بھی پون بجلی کا پوٹینشل موجود ہے۔ دیگر متبادل ذرائع میں شہروں کے ٹھوس فضلہ، شوگر ملوں کے پھوک اور دیہی علاقوں کے بائیو ماس کو بطور ایندھن جلا کر ایک اندازے کے مطابق 2500 میگاواٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ اب تیسرا معاملہ ہے سرمایہ کاری کا۔ ہمارے قومی سرمایہ دار کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ ہمارے صنعتکار آئے دن بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے اربوں کے نقصان کا رونا روتے رہتے ہیں لیکن ان میں سے کبھی کسی نے بجلی کی بھاری مشینری بنانے کا کارخانہ لگانے کی جانب پیش رفت نہیں کی۔ بالخصوص ٹربائن بنانے کی طرف کسی کی توجہ نہیں ہے۔ بڑی نہ سہی لیکن چھوٹی اور درمیانے سائز کی ٹربائن جو چھوٹے اور درمیانے سائز کے متبادل ذرائع کے بجلی گھروں یعنی ونڈ ٹربائن، شہری فضلہ، بگاس، بائیوماس وغیرہ کے پلانٹ میں استعمال کی جائیں۔ عام طور پر ونڈ سے حاصل ہونے والی بجلی کو مہنگا ظاہر کر کے اس کی حوصلہ شکنی کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ لیکن اگر ونڈ ٹربائن ملک میں بننے لگیں تو ونڈ سے پیدا ہونے والی بجلی کی قیمت بہت کم ہو جائے گی۔ ہمسایہ ممالک بھارت اور ایران میں ونڈ ٹربائن بنانے کے کارخانے لگے ہوئے ہیں۔ بھارت کی ونڈ ٹربائن امریکہ میں استعمال ہو رہی ہے۔ چند برس ہوئے مجھے تپال گروپ کے ایک ڈائریکٹر جو سندھ میں گھارو کے پاس پون بجلی کا پلانٹ لگانا چاہتے تھے بطور کنسلٹنٹ بھارت لے گئے تھے اور وہاں سے ٹربائن خریدنا چاہتے تھے۔ سودا تو نہ ہوسکا؛ تاہم پونا کے قریب ونڈ ٹربائن جنریٹر بنانے کا کارخانہ تفصیل سے دیکھا۔ اس میں کوئی ایسی خاص بات نہیں تھی کہ جو پاکستان میں باآسانی نہ بن سکتی ہو۔ ہمارے ہاں برانڈرتھ روڈ لاہور اور گوجرانوالہ، گجرات اور سیالکوٹ کے پنکھے بنانے والے یہ ونڈ ٹربائن جنریٹر باآسانی بناسکتے ہیں۔ اس کا ٹاور بھی کوئی عجوبہ نہیں ہے، ایک پاکستانی کمپنی نے یہ ٹاور بنانے شروع کر دیئے ہیں جو جھمپیر کے قریب حال ہی میں FFC کے پَون بجلی گھر کی 22 ٹربائنوں کے لئے استعمال کئے گئے ہیں۔ ونڈ ٹربائن کے پر (Blades) فائبر گلاس سے بنائے جاتے ہیں اور مقامی طور پر بن سکتے ہیں۔ ہمارے صنعتکار آگے بڑھیں اور ونڈ ٹربائن مقامی طور پر بنانا شروع کریں۔ پون بجلی گھر کا کمال یہ ہے کہ یہ ڈیڑھ سال میں تیار ہو جاتا ہے۔ زیریں سندھ میں قریباً ڈھائی ہزار میگاواٹ کے پون بجلی گھروں کے منصوبے لگانے کے لئے مقامی‘ چینی اور ترکی کمپنیاں میدان میں آچکی ہیںمگر ہمارے سرکاری ادارے انہیں چکر لگوا رہے ہیں۔ اگر ان کے کاغذی معاملات جلد نمٹا دیئے جائیں اور ونڈ ٹربائن مقامی صنعت مہیا کردے تو یہ سستی پون بجلی کم عرصہ میں دستیاب ہوسکتی ہے۔ یہی معاملہ شمسی توانائی کا ہے ۔ یہ اس لئے مہنگی ہے کہ سولر سیل(Solar Cell) کی شیٹیں باہر سے منگا کر یہاں صرف سولر پینل بنائے جاتے ہیں۔ اگر سولر سیل ہمارے ہاں مقامی طور پر بنائے جائیں جس کیلئے خام سیلیکون بلوچستان میں وافر مقدار میں موجود ہے تو شمسی توانائی سے سستی بجلی پیدا کرنے کے گھریلو یونٹوں سے لے کر بڑے سے بڑے پلانٹ تعمیر کئے جا سکتے ہیں۔ مقامی صنعتکاروں کو شوگر ملوں اور کپڑے کی ملوں سے آگے بڑھنا چاہیے اور بجلی پیدا کرنے کی مشینری تیار کرنی چاہیے اور چھوٹے اور درمیانے سائز کے متبادل توانائی کے بجلی گھر وں کی تعمیر میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔ تاہم بڑے میگا پراجیکٹ یعنی بڑے آبی ذخائر اور تھر کول اور ایٹمی پلانٹ سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے حکومت ہی کا کام ہے جنہیں صوبائی اور مرکزی حکومت اپنی اپنی بساط کے مطابق انجام دے سکتی ہے۔ بشرطیکہ اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کا عزم اور حوصلہ ہو۔