موہن دیورا راجستھان میں پیدا ہوئے ۔ سن چونسٹھ میں امریکہ چلے گئے تاکہ وہاں کیمیکل انجینئر بن سکیں۔ وہاں انہوں نے انجینئرنگ کی، ایم بی اے کیا، ایک نیوکلیئر پاور پلانٹ میں لگ گئے ۔ اچھے بھلے افسر تھے ، مزے میں دن گزرتے تھے کہ انہوں نے ساتھ ساتھ پرائیویٹ پروگرام آرگنائز کرنا شروع کر دئیے ۔ کچھ ایسا سین ہوا کہ انہوں نے ہندوستان سے لتا جی کو بلوا کر پورے امریکہ میں بہت سے کانسرٹس کرنے کی ٹھانی۔ یہ بہت ہی زیادہ مشکل کام تھا۔ ایک تو لتا اس زمانے کے بلکہ آج کل کے حساب سے بھی انتہائی زیادہ پروفیشنل سنگر تھیں اور دوسرے تب رابطوں میں بہت زیادہ مشکل کا سامنا ہوتا تھا۔ یہ انیس سو پچھتر کے آس پاس کا ذکر ہے جب ان کے دماغ میں یہ سودا سمایا کہ اگر کوئی کام کرنا ہے تو یہی کرنا ہے ۔ دن رات ایک کر دئیے ، اس کی سفارش اس کی سفارش، آخر مکیش صاحب کے ذریعے کہلوایا تو کچھ بات بنتی نظر آئی۔ موہن صاحب ہندوستان آ گئے ۔ اب لتا جی سے رابطے کا مسئلہ تھا۔ فون ان دنوں عام نہیں تھا تو انہوں نے اپنے ایک دوست کا نمبر ان کو لکھوا دیا کہ اس پر رابطہ کر لیجیے اور جب مناسب ہو تو ملاقات کا وقت طے کر لیجیے ۔ موہن دیورا کی ایک کتاب اسی برس آئی ہے ، آن سٹیج وِد لتا، اس میں وہ لکھتے ہیں کہ سارا سارا دن اسی دوست کے یہاں وہ دفتر میں بیٹھے رہتے تھے کہ اب لتا کا فون آئے گا کہ تب آئے گا لیکن پورے ایک ہفتے انتظار کے بعد وہ مبارک فون آیا جس میں ان کا پہلا اپائنٹمینٹ طے ہوا تھا اور پھر ان لوگوں نے آنے والے کئی برسوں میں سو سے زیادہ شوز کیے ۔
اگر موہن دیورا کے پاس موبائل ہوتا تو یہ سب تکلیف ہوتی؟ ظاہر ہے نہ ہوتی، لیکن ایسے کیس صدیوں میں ایک آدھ ہوتے تھے گزاراچل ہی جاتا تھا۔ ایک آدھ ہفتے انتظار کر کے بندہ گزار لیتا ہے کہاں یہ روز کا گلے پڑا ڈھول بجایا جائے۔ اب تو یہ ہے کہ بھئی سانس لینے کی فرصت ملے نہ ملے جیب سے موبائل نکال کر ضرور دیکھنا ہے ۔ اور اس دیکھنے کی ایک عظیم قیمت ہم آپ ادا کرتے ہیں۔ آپ کو یاد ہے آخری مرتبہ موبائل چارجنگ پر لگائے بغیر آپ کب سوئے تھے ؟ شاید کسی کو بھی یاد نہیں ہے ۔ ایک زمانے میں لوگ پیشگوئی کیا کرتے تھے کہ آنے والے دنوں میں پوری دنیا وائرلیس ہو جائے گی۔ اچھی وائرلیس ہوئی ہے ، تاریں ہیں اور اتنی تاریں ہیں کہ اندھیرے میں بندہ اپنے سرہانے پڑی تاروں میں ہی پھنس کے لڑکھڑا جائے ۔ ذرا ایک نظر اپنے اطراف میں ڈالیے ۔ ایک تار موبائل چارج کرنے کی ہو گی، ایک کسی نہ کسی لیپ ٹاپ میں جا کر ختم ہو رہی ہو گی، وہ نہیں ہو گا تو کوئی ٹیبلٹ کمپیوٹر ہو گا، ایک تار سے ایمرجنسی پاور بینک چارج ہو رہا ہو گا، شاید ایک آدھا موبائل وہ پرانی قسم کا بھی لگا ہو جو بٹنوں والا ہوتا تھا لیکن بیٹری تین چار دن نکال جاتی تھی۔ یہ سب کیا ہے ؟ ایک چیز چارجنگ کو لگائی تو دوسری کی بیٹری ختم، دوسری لگائی تو تیسری ختم اور سب کچھ چل رہا ہے تو ٹی وی کا ریموٹ لازمی چکر لگوائے گا کیوں کہ اس کے سیل ختم ہوں گے ۔
اگلے زمانوں میں ہوسٹل کے باسیوں کا سامان چند کتابوں، ایک گدے ، ایک دو تکیے اور چار پانچ چادروں پر مشتمل ہوتا تھا۔ رہنے کے لیے یہ سب کافی سمجھا جاتا تھا، باقی کپڑے جوتے حیثیت کے مطابق جتنے لیے جا سکتے ساتھ موجود ہوتے ۔ بہت ہو گیا تو گرمیوں کا سہارا ایک کولر تھا جو مئی جون میں ابا کے گھر کی یاد دلا دیتا تھا۔ اب جس کے پاس بھی دیکھیں گے سب سے پہلے ایک عدد ایکسٹینشن وائر ہو گی، جس میں کم از کم تین چارجر لگ سکتے ہوں، پھر اس کے ساتھ اور بہت سی تاروں کا ایک گچھا ہو گا جس میں تین چار ہینڈز فری شامل ہوں گی، ایک دو تاریں سپیکروں کو چارج کرنے کی ہوں گی، ایک فالتو چارجر ہو گا کہ اگر کبھی چارجر خراب ہو جائے اور جنگل یا صحرا میں پھنسے ہوں تو فوراً دوسرا چارجر لگایا جا سکے اور یہ سب ہوتے ہوئے بھی وہ پاور بینک تو لازمی ہو گا۔ آج کل کا انسان دو وقت کے فاقے کاٹ لے گا، نئے کپڑوں میں کفایت برتی جا سکتی ہے لیکن موبائل، موبائل پر کوئی کمپرومائز ممکن نہیں ہے ، سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جیسے پرانے زمانے میں بٹیر بازوں کے ہاتھ میں بٹیرے چوبیس گھنٹے موجود رہتے تھے وہی حال اب موبائل سے ہر بھلے آدمی کا ہو گیا ہے ۔
موبائل بنیادی طور پر ہمارے اعصاب پہ سوار ہو چکا ہے ۔ ہر گھڑی دو گھڑی بعد اسے نکال کر دیکھنا عین ویسے ہی عادت بن چکی ہے جیسے بعض لوگ بار بار گھڑی پر ٹائم دیکھتے ہیں۔ پہلے ہر شریف آدمی سوتے ہوئے برابر میں ٹارچ رکھتا تھا، بیچ رات میں اٹھے ، وقت دیکھنا ہوا یا واش روم جانا ہوا تو ٹارچ جلائی اور روشنی کی لکیر کے پیچھے ہو لیے ۔ اب وقت بھی موبائل بتاتا ہے ۔ آنکھیں کھلتے ہی آپ کا ہاتھ موبائل پر جائے گا اور چندھیا دینے والی روشنی میں وقت دیکھیں گے ، وقت تو معلوم ہو گیا لیکن نیند کیسے آئے گی؟ آنکھ جب ایک دم ایسی بھرپور لائٹ پر ایکسپوز ہوتی ہے تو دماغ جاگ جاتا ہے ، تو یہ ہماری بے خوابیاں بنیادی طور پر اس فون کی دین بھی ہیں۔ ایسے ہی وقت دیکھنے کو آپ موبائل کھولتے ہیں اور سامنے واٹس ایپ یا میسنجر پر کوئی پیغام جھلملا رہا ہوتا ہے ، اب اس پر بھی کلک کرنا لازمی ہے ۔ یار کیوں لازمی ہے ؟ بھئی جسے ارجنٹ کام ہو گا وہ آپ کو فون کر دے گا ورنہ یہ سب صبح بھی دیکھا جا سکتا ہے بلکہ اگلی صبح بھی دیکھا جا سکتا ہے ۔ زندگی میں فون کا اگر کوئی کام ہے تو وہ زیادہ سے زیادہ اس کا بجنا ہے ، کال آنا ہے ، باقی
سب نیند حرام کرنے کے بہانے ہیں۔ زندگی کی تمام ارجنٹ یا خدا معاف کرے بری خبریں ہمیشہ فون پر ہی آتی ہیں ان کے لیے میسج کا بزر کبھی نہیں بجتا!
ایک تجربہ ہو جائے ۔ فون سائلنٹ کریں اور دو تین گھنٹے کسی بھی دوسرے کام میں لگانے کی کوشش کیجیے ۔ بہت مسئلہ ہے تو کسی بھائی بہن کو فون لاک کر کے دے دیجیے ، وہ کالز سن لے ، کچھ فوری نوعیت کا ہو تو بتا دے ۔ یہ ایسی نشہ آور روٹین بن جائے گی کہ بعد میں دل خود ہی چاہے گا کہ یار اس کمبخت کو کنوئیں میں پھینک دو اور سکون کر لو بس۔ بزرگوں کے کچھ معمولات لگتے بہت عجیب تھے لیکن سوچا جائے تو وہ زندگی کا توازن قائم رکھنے میں بہت مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ مثلاً صبح صبح اٹھ کر موبائل کے بجائے اخبار پورا کا پورا چاٹ ڈالا، کوئی دس پندرہ منٹ ہی واک کر لی، تھوڑے بہت پودے گھر میں لگا کر ان کی سیوا کرنا شروع ہو گئے ، کسی بچے کو پیدل لے جا کر سکول چھوڑ دیا، پڑوسیوں کا سودا لے آئے ، کوئی بے مقصد بور سی کتاب پڑھ لی، تھوڑے گانے سن لیے یا کچھ بھی ایسا کر لیا جس میں آپ کو لگے کہ ٹائم ضائع ہو گا۔
یہ جو ٹائم ضائع کرنا ہے ، اصل میں یہی زندگی ہے ، موبائل سے چپکے رہنے کے بجائے اس سے جتنی دوری ہو، زندگی اتنے پاس ہو گی۔ روز دو تین گھنٹے ضائع کرنے کی کوشش کیجے ، خدا بے خوابیوں میں اور دیگر مسائل میں بہتری کرے گا، افاقہ نہ ہو تو ایک بار دوبارہ سے بٹنوں والے موبائل فون استعمال کرنا شروع کر دیجیے ، کافی حد تک زندگی آپ کی اپنی ہو جائے گی۔