پیارے میاں جی،
میں تہہ دل سے معافی مانگتی ہوں کہ آپ پچھلے پانچ چھ برس سے مسلسل میری توجہ، پیار، میرے وقت سے محروم چلے آ رہے ہیں۔ آپ مجھ سے جو کچھ بھی چاہتے ہیں، میں وہ سب آپ کو نہیں دے پاتی۔ یقین کیجیے آپ آج بھی میری ترجیحات میں پہلے نمبر پہ ہیں لیکن جب میں دن بھر کے کاموں کی لسٹ بناتی ہوں تو آپ کہیں نیچے کھسک جاتے ہیں۔ اس کی واحد وجہ روزانہ کی نہ ختم ہونے والی مصروفیت ہے!
میں جانتی ہوں آپ کی بھی کچھ ضرورتیں ہیں، خواب ہیں اور ان سب کو پورا کرنے کے لیے آپ کو میری ضرورت ہے۔ لیکن میں کیا کروں۔ مجھے علم ہے کہ آپ میرے ہر وقت تھکے رہنے سے، چڑچڑے ہونے سے، سردرد کی شکایت سے اکتا چکے ہوں گے، کبھی کبھی جب آپ واپس آتے ہیں تو مجھے خراٹے لیتے ہوئے بھی دیکھتے ہوں گے، لیکن میں مجبور ہوں۔ کاش مجھ میں اتنی طاقت موجود ہوتی جو پانچ چھ برس پہلے ہوتی تھے۔ یا اس وقت کم از کم اتنی ہمت ہی موجود ہو جو ابھی آج صبح تھی، جب میں نے سارا گھر دھویا، برتن صاف کیے اور پھر کپڑوں کی پوری پنڈ دھو کر تاروں پر سوکھنے کے لیے ڈالی۔ یقیناً یہ آپ کو معلوم نہیں ہوا ہو گا، لیکن یہ روز کے کام ہیں، جب آپ صبح سو رہے ہوتے ہیں، میں ان چکروں میں پھنسی ہوتی ہوں۔
کبھی کبھی تو آپ کو ہمارا رشتہ بالکل کاروباری سا لگتا ہو گا، اور ہے، یہ ہو چکا ہے، ہفتوں تک ہمارا یہی حال رہتا ہے۔ آپ اپنی جگہ تھکے ہوتے ہیں، میں اپنی جگہ بے حال ہوتی ہوں۔ اور میں جانتی ہوں مجھے ہی کوئی نہ کوئی حل نکالنا ہے کیونکہ ہم دونوں جب بھی اکٹھے بیٹھتے ہیں، باتیں کرتے ہیں، اس سے بہتر وقت مجھے دنیا میں کوئی اور نہیں لگتا۔ صرف آپ ہوتے ہیں، صرف میں ہوتی ہوں... لیکن اب ہم دونوں صرف ہم دونوں بھی تو نہیں رہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ میرا دماغ، میرا جسم، میری پوری زندگی، میری تمام ترجیحات یہ سب کچھ میری ممتا کا شکار ہو چکا ہے۔ میں بس ایک ماں بن کر رہ گئی ہوں۔ ان ننھے منے بچوں کی ماں جو بالکل آپ کے جیسے دکھتے ہیں۔ یہاں تک کہ جب وہ سو جاتے ہیں اور ہم دونوں ٹی وی دیکھ رہے ہوتے ہیں، تب بھی میں ان کے بارے میں سوچ رہی ہوتی ہوں۔ ہاں یہ پاگل پن ہے لیکن ماں شاید ایسی ہی ہوتی ہے، میں کیا کروں؟
میں کل کے بارے میں سوچ رہی ہوتی ہوں۔ آپ کا سوچتی ہوں تو یہ خیال آتا ہے کہ آپ کل دفتر جاتے ہوئے کیا پہنیں گے، کیا آپ کی سب چیزیں اپنی جگہ پر موجود ہیں؟ میں گھر کے بجٹ کا سوچ رہی ہوتی ہوں، یہ سوچ رہی ہوتی ہوں کہ کل کے لیے سبزی، دودھ وغیرہ موجود ہے یا اس کا کچھ بندوبست کرنا پڑے گا۔ دودھ، ڈبل روٹی فریج میں ہیں یا منگوانا پڑیں گے۔ آپ کو روز دہی لانے کا کہنا مجھے بھی اچھا نہیں لگتا لیکن صبح کو تازہ دہی ملتا ہی نہیں تو کیا کروں۔ بس یہی سب سوچیں میرے دماغ میں اچھلتی کودتی پھرتی ہیں۔ میرا جسم، دماغ، جذبات سبھی کچھ ایک روایتی ماں جیسے ہو چکے ہیں، میں بس ایک دیسی عورت بن کر رہ گئی ہوں۔ ویسی ہی جیسی میری ماں تھی، یا اس کی ماں، یا اس کی ماں یا اس کی ماں۔
میں یہ ہرگز نہیں چاہتی کہ آپ ان سب باتوں سے کچھ ایسا سوچ لیں کہ آپ میری زندگی میں اہم نہیں رہے، ایسا بالکل نہیں ہے۔ آپ کے بغیر زندگی گزارنا، ایک قدم بھی اٹھانا ممکن نہیں ہو گا، نہ ہی خدانخواستہ میں ایسا سوچ سکتی ہوں۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ آپ اپنا خیال خود رکھ سکتے ہیں، میرے بچے ابھی چھوٹے ہیں، وہ ہر چیز کے لیے مجھے آواز دیتے ہیں تو آپ خود بخود اگنور ہو جاتے ہیں، اور بچے تو آپ کو بھی پسند ہیں ناں؟ بات بس یہی ہے۔ اسی لیے جب آپ دفتر سے واپس آتے ہیں تو اکثر ایک چڑچڑی اور بدمزاج سی بیوی دیکھنے کو ملتی ہے۔ یقین کیجیے وہ بیوی اصل میں ایسی نہیں ہوتی، وہ دن بھر اپنے مزاج کا بہترین حصہ، اپنی ہنسی، اپنی زندہ دلی، اپنی بھاگ دوڑ، سبھی کچھ اپنے بچوں کی نذر کر چکی ہوتی ہے لیکن پھر بھی آپ کے آنے سے پہلے لپ اسٹک لگانا نہیں بھولتی، وہ بس تھکی ہوتی ہے۔
آپ کی صحت، آپ کے تمام ضروری کام، بچوں کا نزلہ زکام، چھوٹی کی الرجی، منے کا وہ دانوں والا مسئلہ یہ سب چیزیں ہمیشہ مجھے پریشان رکھتی ہیں۔ جب میں کہتی ہوں کہ میں سو نہیں سکی تو میں کچھ اور نہیں کر رہی ہوتی بس انہیں سب چیزوں میں دن رات نکل جاتے ہیں اور میری اپنی صحت آپ کو خراب لگنے لگتی ہے۔ ہاں کبھی کبھی میں بیمار بھی پڑتی ہوں لیکن وہ سب میں آپ کو نہیں بتاتی، آپ پہلے ہی پریشان ہوتے ہیں، خود ہی ایک دو دن میں ٹھیک ہو جاتی ہوں۔ ابھی منے کی دواؤں پر پچھلے ہفتے اتنے پیسے لگے، آپ کا وقت لگا، بار بار اسے ہسپتال لے کر گئے، ایسے میں اپنے لیے ڈاکٹر کا کہنا مجھے اچھا بھی نہیں لگتا، کتنا بھاگیں گے آپ بھی، بس یہ بات ہے۔
اور ابھی جب میں یہ سب کچھ لکھ رہی ہوں تو مجھے یاد آ رہا ہے کہ پانی والی ٹینکی بھی اس ہفتے صاف کروانی ہے، پودوں کو ابھی تک پانی نہیں دیا گیا، وہ دیکھنا ہے، واشنگ مشین کا ڈرائر خراب ہے اور ساون چل رہا ہے، اس کے لیے بھی مستری بلانا ہے، پھر میٹنگ پر جانے کے لیے آپ سب کے سوٹس بھی نکال کر دھوپ لگوانی ہے۔ اب یہ سب بھی میری اس لسٹ میں شامل ہو جائے گا جو کبھی ختم نہیں ہوتی۔ اس میں آپ کا قصور ہرگز نہیں ہے نہ ہی یہ سب آپ کے کام ہیں۔ لیکن میرے تو ہیں، مجھے کرنے بھی ہیں۔ آپ ہم لوگوں کے لیے بہت محنت کرتے ہیں۔ دن رات ایک کرکے کماتے ہیں۔ یہ سب آپ ہمارے لیے ہی ہوتا ہے، اپنی فیملی کے لیے۔ پھر آپ ہم سب کا اتنا خیال بھی رکھتے ہیں۔ بچوں کو، مجھے گھمانے بھی لے کر جاتے ہیں۔ ان سے جتنی محبت جتنا پیار آپ کرتے ہیں اتنا تو ہمارے ابا بھی شاید ہم سے نہ کرتے ہوں۔ آپ ان کے منہ سے نکلی ہر فرمائش پوری کرتے ہیں۔ اسی لیے تو آپ کے دفتر جاتے ہوئے وہ روزانہ روتے ہیں، ضد کرتے ہیں۔ سچی بات کہوں میں کچھ جیلس بھی ہوتی ہوں کہ چند گھنٹے آپ کے ساتھ گزارنے والے بچے ہمیشہ آپ کی راہ دیکھ رہے ہوتے ہیں اور میں جو دن بھر لگی رہتی ہوں میرے لیے اتنی محبت شاید ان کے دل میں نہیں، لیکن پھر مجھے اچھا لگتا ہے کہ ان کے رول ماڈل آپ ہیں۔ ایک مثالی باپ، ایک عمدہ انسان!
میں وہ عورت نہیں رہی جس سے کچھ عرصہ پہلے آپ نے شادی کی تھی۔ میں ایک ماں، ایک بیوی، ایک دوست اور ایک گھر کی مالکن میں بدل چکی ہوں۔ میں اب گھر میں ہونے والی دعوتوں کا سوچتی ہوں، سودے سلف کا خیال رہتا ہے، میں ایسی باورچن ہوں جو پیزا اور برگر کے ساتھ ساتھ پائے اور مغز بھی اچھا بنا لیتی ہے، میں ایک بری انٹیریر ڈیزائنر ہوں، میں چوبیس گھنٹے کی نرس ہوں، میں بچوں کو ہر وقت ہنسانے والی ایک آیا ہوں، تو بس میں یہ سب بن چکی ہوں۔
لیکن میں اس سب کو بدلنا نہیں چاہتی، مجھے کسی اور طرح کی زندگی بھی نہیں چاہئے۔ میں آپ سے محبت کرتی ہوں اور اس زندگی سے جو ہم دونوں نے مل کر اپنے اس گھر میں تخلیق کی ہے۔ بس یہی ہے کہ میں اب بڑے بڑے ناخنوں والی، لمبے گھنے کالے بالوں والی، سموکی میک اپ کرنے والی، اونچی ہیلیں اور جدید فیشن کے سوٹ پہننے والی وہ لڑکی نہیں رہی جسے آپ بیاہ کر لائے تھے، اب میں ایک مصروف ماں ہوں۔ اور بس زندگی یہی ہے۔ مجھے اس سب سے محبت ہے۔ مجھے آپ سے محبت ہے، مجھے اپنے بچوں سے محبت ہے۔
آپ کی بیوی
(ماخوذ... لارا برکس، نیوجرسی)