اس زمانے میں بچے درختوں پہ اگا کرتے تھے۔ قبیلے کا سربراہ ڈھول والے کو حکم دیتا کہ چاند کی فلانی تاریخ سب لوگوں کے لیے مقدس ہے تو اعلان کرتے رہو‘ اس وقت تک کہ سب لوگ اسے اچھی طرح ذہن نشین کر لیں اور بڑے میدان میں جمع ہونا نہ بھولیں۔ پھر جب وہ لوگ چاند کی بتائی گئی تاریخ پہ اکٹھے ہو جاتے تو انہیں الگ الگ ٹکڑیوں میں بانٹ دیا جاتا۔ ان میں تفریق صرف چہرے کے بالوں سے ہوتی تھی۔ جس کے چہرے پہ بال ہوتے وہ داہنی طرف کھڑا کر دیا جاتا اور جو بغیر بالوں کے چہرے ہوتے وہ بائیں طرف سرک جاتے۔ تب سربراہ اس قبیلے کا، ان کے بیچ آن کے بیٹھ جاتا اور آہستہ آواز میں اپنا جاپ شروع کر دیتا۔ اس کی آواز ایک مخصوص لے میں اونچی ہونے لگتی۔ جب اونچی ہوتے ہوتے وہ آواز کانوں کو چیرتی محسوس ہوتی بس عین اسی وقت دائیں اور بائیں طرف کی قطار سے ایک ایک ذی روح آگے بڑھتا اور ایک دوسرے کو چھوئے بغیر وہ دونوں اکٹھے کھڑے ہو جاتے۔ اس طرح دونوں قطاروں میں سے جب ساری عورتیں اور مرد نکل کر جوڑے بنا لیتے اور ایک قطار میں ایک دوسرے کے پیچھے کھڑے ہو جاتے تو وہ سربراہ اپنے سر مدھم کرتا جاتا، یہاں تک کہ اس کا جاپ مکمل ہو چکا ہوتا۔
اب وہ آگے بڑھتا اور پہلے جوڑے کے ہاتھ میں دو نازک سے پھول تھما دیتا۔ یہ دو پھول قطار کے پہلے جوڑے سے لے کے آخری جوڑے تک سفر کرتے۔ اس رسم کا اصول یہ تھا کہ دونوں پھول باری باری آگے والا جوڑا قطار میں موجود خود سے پیچھے والے جوڑے کو تھماتا جائے گا اور قطار کے آخری سرے تک یہ دونوں پھول صحیح سلامت، بغیر مڑے تڑے پہنچیں گے۔ اگر ہاتھ در ہاتھ کا یہ سفر کرتے ہوئے کسی پھول کی ایک پتی بھی ٹوٹ جاتی تو جس جوڑے کے ہاتھوں یہ سانحہ ہوا ہوتا وہ، اور اس کے پیچھے والے تمام جوڑے بدبخت قرار پاتے۔ وہ ایک سال کے لیے درختوں سے بچے توڑنے کے لیے نااہل قرار پاتے۔ وجہ اس کی یہ روایت ہے کہ جو کم نصیب جوڑا دو پھولوں کو نہیں سنبھال سکا وہ نازک سے ایک بچے کو کیسے سنبھالے گا۔ اور بدنصیبی کی یہ چھاؤں اس کے پیچھے موجود سارے جوڑوں پہ اپنا اثر کر چکی ہوتی۔
پھر یہ کیا جاتا کہ پھول بچا لے جانے والے تمام جوڑے الگ ہو جاتے۔ انہیں ازدواج قرار دیا جاتا اور سربراہ کی نیک دعاؤں کے ساتھ وہ اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہو جاتے۔ وہ الگ الگ کمروں میں رہا کرتے۔ دن بھر کھیتی باڑی کرنے کے بعد سورج ڈھلنے سے تھوڑا پہلے واپسی ان کے لیے لازم ہوتی اور اپنے اپنے علیحدہ کمروں میں بند ہو کے وہ سو جاتے۔ پھر چاند کی چودھویں تاریخ آتی تو انہیں حکم ہوتا کہ بچے والے درخت کے گرد سورج ڈھلنے کے بعد سب نے اکٹھے ہو جانا ہے۔ وہ سب بڑے شوق سے اس درخت کے آس پاس جمع ہو جاتے۔ تھوڑی دیر میں ان کا سربراہ بھی پہنچ جاتا۔ اس رات سربراہ کالے بھالو کی کھال میں آتا تھا۔ وہ اس کا تقریباتی لباس تھا۔ شام کی سیاہی گاڑھی ہوتے ہی سربراہ اونچی آواز میں اپنی مناجات شروع کر دیتا۔ اس بار تمام جوڑے تالیاں بجا بجا کے اس کا ساتھ دیتے۔ آدھی رات تک جب گا گا کر سب کے گلے دکھ جاتے اور تالیاں بجا بجا کے سب کے ہاتھ سرخ ہو چکے ہوتے تو پھر سربراہ بچوں والے درخت کے سامنے جا کھڑا ہوتا۔ وہ تمام جوڑوں کو حکم دیتا کہ ایک ایک کر کے اس کے نیچے سے گزرو۔ ایک بڑا سا گول دائرہ بنا کے باری باری وہ سب اس درخت کے نیچے سے ہو کے گزرتے جاتے۔ دائرہ درخت سے اتنا پرے ہوتا کہ ایک وقت میں ایک ہی جوڑا درخت کے نیچے سے گزر پاتا۔ وہ لوگ گھومتے رہتے گھومتے رہتے یہاں تک کہ درخت سے ایک پتا گرتا اور جس جوڑے کے سروں پہ وہ پتا آن گرتا، سربراہ چیخ کے اعلان کر دیتا کہ آج درخت سے جو بھی بچہ توڑا جائے گا وہ اس جوڑے کا ہو گا۔
تب سربراہ اس جوڑے کے کندھوں پہ سے چڑھ کے اس گھنے درخت کے اندر کہیں کھو جاتا۔ باقی سب جوڑے نیچے کھڑے ہاؤ ہو کر رہے ہوتے اور کچھ دیر بعد والدین بننے کا شرف حاصل کرنے والا خوش نصیب جوڑا ایک دوسرے سے دور کھڑا اپنی اپنی سوچوں میں گم ہوتا۔ وہ ایک دوسرے کو دیکھتے ضرور لیکن دور کہیں سوچ رہے ہوتے کہ آئندہ زندگی میں ہم نے کیا کرنا ہے۔ ایک آدھ گھنٹے بعد جب سربراہ درخت پہ سے نیچے اترتا تو اس کے ہاتھ میں ایک دو یا تین بچے ہوتے اور وہ سب کے سب اس قسمت والے جوڑے کے حوالے کر دئیے جاتے۔ یوں ناچتے گاتے سب اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہو جاتے۔
کیا خیال ہے؟ کہانی چلے گی نا؟ نہ پیار ہے، نہ محبت ہے، نہ کہیں ساتھ رہنے کا ذکر آیا، نہ کوئی لو افئیر ہوا، نہ سنسنی جگائی گئی، نہ دو دھڑکتے دلوں کا ذکر ہوا، نہ کیمرے نے دو اڑتے ہوئے کبوتر دکھائے، نہ دھندلے شیشوں والا کوئی سین ہوا، کچھ بھی نہیں، سیدھے سبھاؤ شادی ہو گئی، بچے مالک نے درختوں سے اتار دئیے، آگے وہ جوڑا جانے اور اس کا کام!
روز اخبار میں لو میرج پہ قتل ہونے والے کسی جوڑے کی خبر لگتی ہے، روز میں سوچتا ہوں کہ ایسی لو سٹوری کیسے لکھی جائے جس میں قابل گرفت کوئی چیز نہ ہو۔ اگر ہم اس کہانی کو سچ مان لیں تو ہمیں یقین ہو جائے کہ ہمارے بزرگوں کے زمانے میں بھی کوئی ریپروڈکٹیو سسٹم نہیں ہوتا تھا۔ وہ بھی اسی طرح درختوں سے اتارے گئے اور پاک صاف محبت سے ان کے ظاہر و باطن معمور تھے۔ انہیں دنیاوی آلائشوں سے کوئی مطلب نہیں تھا اور یہ تمام مکروہات از قسم لو میرج وغیرہ ابھی ہمارے زمانے میں شروع ہونے والے برے کام ہیں۔
پھر مجھے دنیا بھر کی اساطیر اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں۔ کیا یونان، کیا ایران قدیم، کیا عرب، کیا ولندیزی، کیا ہندوستان ہر جگہ یہی معاملات چل رہے تھے۔ اس وقت بھی ایسے ہی پیار محبت کے اظہار کیے جاتے تھے، ایسی ہی بندشیں ہوتی تھیں، آخر کسی طرح دونوں پارٹیاں مل جاتی تھیں اور الگ ہوتیں تو پھر رج کے شاعری ہوا کرتی تھی جس میں طرح طرح کے لغو اشعار ہوتے تھے۔ تو کیا وہ لو میرج دنیا میں پہلی بار ہوئی جس پہ غیرت میں آ کے باپ یا بھائی نے بیٹی بھون دی یا اس گھرانے میں غیرت کے اصول قتل کی شاہراہ سے ہو کے سند پاتے ہیں؟
پسند کی شادی پتھر کے زمانے میں بھی ہوتی تھی، آج بھی ہوتی ہے، کل بھی ہو گی۔ یہ فضولیات پڑھنے والا سینے پہ ہاتھ رکھے اور سچے دل سے بتائے کہ آج تک، کبھی بھی، زندگی میں بھلے ایک ہی دفعہ، کوئی چہرہ پسند نہیں آیا؟ یہ الگ بات کہ بات بنی نہ بنی، پسند آیا یا نہیں؟ فرض کیجیے بات بن جاتی تو شادی کرتے یا نہ کرتے؟ کون ہے جسے دعویٰ ہو کہ وہ اس لطیف جذبے سے خالی ہے؟ جب نہیں ہے تو یار تھوڑی انڈرسٹینڈنگ لاؤ۔ شادی تو کرنی ہے، بیٹی کی بہن کی، آج نہیں تو کل کرنی ہے۔ اتنی رکاوٹیں مت ڈالو کہ اسے خود سے بندوبست کرنا پڑے۔ اور پھر اگر ہو گیا تو یہ کون سا جذبہ ہے جو پتھر کے زمانے میں بھی نہیں تھا اور آج منہ زور طریقے سے ابھر آیا ہے کہ جس کی پیاس صرف انسانی خون سے بجھتی ہے؟ اگر یہ جذبہ جسم کی ملکیت سے وابستہ ہے تو کیا ضروری ہے جسے آپ چاہیں وہ ہی اس کا مالک ہو؟ کیا جس کی روح اس کے اندر موجود ہے اسے رتی برابر بھی اختیار نہیں کہ وہ اپنی مرضی سے یہ فیصلہ کر سکے؟ اور پھر بھی اگر یہی کرنا ہے تو بابا پیدا ہوتے ہی مار دو، پال پوس کے اتنا رسک کیوں لیتے ہو؟ ہاتھ کے ہاتھ فیصلہ کرو ورنہ یہ خبریں بیس پچیس برس بعد بھی آتی رہیں گی اور کروڑوں کی آبادی میں سے چند بدبخت اسی طرح بزدلوں کی جون میں درختوں کے پیچھے سے اپنا احتجاج ریکارڈ کرواتے رہیں گے۔