کوئی نیک کام کرنے کا موڈ ہے؟

گوروں کی لوک داستانوں میں جھانکیں تو ایک کردار ملتا ہے جو امیروں سے چھین کر مال و دولت غریبوں میں تقسیم کر دیتا تھا۔ دن رات وہ لوگ اسی کام میں لگے رہتے اور بعد میں سارا مال اسباب بانٹ شانٹ کے ہاتھ جھاڑتے اور نئے مشن پر نکل جاتے۔ چودھویں صدی سے آج تک رابن ہڈ بچوں اور کچھ کچھ بڑوں کا بھی پسندیدہ کردار رہا ہے لیکن اس میں ایک مسئلہ تھا۔ وہ بہرحال قانون توڑتا تھا، لوگوں کو لوٹتا تھا، تو عام آدمی جب تھوڑا بڑا ہو جائے اور پڑھ لکھ بھی جائے تو اس طریقے سے متاثر ہونا ذرا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس کا متبادل ایک کریکٹر ہمارے پاس حاتم طائی کا ہے۔ 
زاہد کاظمی کا پہلا تعارف یہ ہے کہ وہ کتابوں کے حاتم طائی ہیں۔ انتظار حسین، وزیر آغا، مستنصر حسین تارڑ، ظفر اقبال، وجاہت مسعود، عقیل عباس جعفری، فرخ سہیل گوئندی، در دلکشا والے منظور الٰہی اور پتہ نہیں کہاں کہاں کس کس لکھاری اور پڑھنے والے کے پاس پہنچ جاتے ہیں (یہ لسٹ واقعی بہت زیادہ طویل ہے)۔ جو کتابیں ان لوگوں نے پڑھ رکھی ہوں اور وہ دینا چاہتے ہوں، ان کی بوریاں اور کارٹن باندھتے ہیں، دس بارہ ڈبے ہو جائیں تو لدوا کر اپنے ٹھکانے پر لے جاتے ہیں۔ ادھر کوئی تیس پینتیس ہزار کتابیں اکٹھی کی ہوئی ہیں اور علاقے میں بسنے والوں کے لیے کھلی آفر ہے کہ جو چاہتا ہے آئے اور پڑھے، تو یوں ایک زبردست لائبریری بنا کے سب کو پڑھنے پہ لگائے ہوئے ہیں۔ گزارے لائق زمینداری سے جو پیسہ آتا ہے وہ بھی اسی کام میں جھونکا جاتا ہے۔ جو بندہ انہیں جانتا ہو اور فون کر کے صرف اشارہ کر دے کہ یار وہ فلاں موضوع پر کتاب چاہئے یا فلاں کتاب اب ملتی نہیں ہے وہ چاہئے یا کچھ بھی چاہئے ، تو ایسے الرٹ ہو جائیں گے جیسے سائرن بج گیا ہے۔ ایک آدھ ہفتے میں کتاب یا فوٹو کاپی سائل تک پہنچ جائے گی چاہے جیب سے خریدی گئی ہو یا لائبریری سے نکلی ہو۔ کتابوں کو پھیلانا اور پھر سمیٹ لینا ان کی زندگی کا مقصد ہے۔ آج کل ان کا ایک مشن یہ بھی ہے کہ وہ مختلف لوگوں سے ان کی زندگی کے حالات لکھوانے پہ لگے ہوئے ہیں۔ شروع سے ان کو بائیو گرافیز پڑھنے کا شوق تھا، میرے خیال میں اب ان کی پسندیدہ فہرست ختم ہو گئی ہے یا کوئی سوانح باقی نہیں بچی تو وہ آپ اپنا جہان پیدا کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔
فی سبیل اللہ علم پھیلانے کے لیے ایک اور کام یہ کیا کہ ہری پور میں رہنے والے زاہد کاظمی پچھلے دو سال سے ایک سکول بھی چلا رہے ہیں۔ اس سکول کی فیس ایک روپیہ ہے اور وہاں داخل ہونے والے بچوں کو یونیفارم (گرمی، سردی کے لیے دو دو وردیاں) کتابیں، بستہ، آنے جانے کی سہولت اور کھانا پینا اس فیس کے عوض مہیا کیا جاتا ہے۔ ایک روپیہ فیس رکھنے کی واحد وجہ شاید یہی ہے کہ بچوں اور ان کے والدین کی عزت نفس متاثر نہ ہو۔ خانپور روڈ سے چند کلومیٹر آگے باب العلم نام کا یہ ادارہ موجود ہے۔ سو سے زیادہ طالب علم اس وقت وہاں داخل ہو چکے ہیں اور ان سب کو بتائی گئی تمام سہولیات میسر ہیں۔ جس گھر میں ایسی غربت ہو کہ دو جمع دو کا مطلب چار روٹیاں ہو وہاں کے رہنے والوں کے لیے یہ سوچنا اور ممکن کر دکھانا ایک مشکل کام تھا۔
امیر کا بچہ ہو یا غریب کا ہو، سبھی کے دماغ میں ایک پروٹوکول ہوتا ہے کہ سکول جائیں گے تو چمکتا دمکتا یونیفارم ہو گا، نئی کتابیں ہوں گی، مہربان استاد ہوں گے، تو بس یہ وردی اور پراپر بستے کا سارا سین اسی لیے کری ایٹ کیا گیا کہ غریب کا بچہ جسے سٹریٹ چلڈرن کہا جاتا ہے وہ ایک سٹینڈرڈ کے مطابق تعلیم حاصل کر سکے اور اسے لگے کہ ہاں بھئی ادارے کا کچھ ڈیکورم ہے، میں کچھ اہم کرنے جا رہا ہوں۔ بھئی عام آدمی بھی ٹائی لگا کے صاحب بن جاتا ہے، بچے تو پھر بچے ہی ہوتے ہیں۔ شروع میں بچوں کو وہاں ان کی مادری زبان میں تعلیم دی جاتی ہے اور آہستہ آہستہ اردو پہ شفٹ کر دیتے ہیں۔
سرکاری سکول موجود ہونے کے باوجود اگر اس علاقے میں والدین تلے ہیں کہ بچوں کو اسی جگہ بھیجنا ہے تو اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ ان پر کوئی ذمہ داری نہیں ہے، ماں کی گود جیسا پیار اور کھانا تک دینے والا سکول کسے برا لگتا ہے؟ اب جگہ پچاس کی ہے تو سو لوگ اپلائی کر رہے ہیں، ستر کو سمیٹ لیا تو ڈیڑھ سو درخواستیں آ گئیں، سو بچے داخل کر لیے تو چار سو ایپلی کیشن فارم پینڈنگ ہیں۔ یہ ایسا مرحلہ ہے جہاں سکول سے باہر والوں کو آواز دینا پڑتی ہے۔ آئے، آواز دینے کے بعد بہت سے لوگ آئے، کارواں بنا، کسی نے جوتوں کا خرچہ اٹھایا، کسی نے یونیفارمیں دلوائیں، کوئی کتابوں کی رقم کا وعدہ کر گیا۔ پہلا قدم اٹھانا ہمیشہ کی طرح مشکل تھا، وہ اٹھ گیا تو اب خیر سے سکول پاؤں پاؤں چلنے لگ گیا ہے۔ اس بار زاہد کاظمی آئے تو بتا رہے تھے کہ یہ تعلیمی سال بھی خدا کے فضل سے پورا ہونے والا ہے۔ بچے شوق سے سکول آتے ہیں، ماں باپ کی آنکھوں میں امید کے دیے جلنے لگے ہیں، وہ ان کے چھوٹے بہن بھائیوں کو بھی ادھر بھیجنا چاہ رہے ہیں، نیت کا پھل مل گیا ہے اور قبول عام کی سند آنی شروع ہو گئی ہے۔ 
بچے سانجھے ہوتے ہیں۔ جہاں اپنی اولاد کے لیے ہم لوگ آدھی تنخواہ سکول فیس اور ٹیوشن میں جھونکتے ہیں، تین چار سو کا ہیپی میل کھلاتے ہیں، ہزاروں روپے کے پیمپر اور دودھ کے ڈبے تیل کر دیتے ہیں، وہاں اس سے بہت کم خرچہ ان بچوں پر آتا ہے ۔ پڑھ لکھ لیں گے تو کم از کم روز شام کو ان کے گھروں میں روٹی مل جائے گی، کوئی زیادہ لائق ہوا اور قسمت نے ساتھ دیا تو بڑا افسر بن کے اماں ابا کی آنکھوں میں امید کے دیے بھی جلائے گا۔ کیا پتہ کوئی ڈاکٹر بن کے آپ کی ہی خدمت کر رہا ہو۔ بڑی پاسیبلیٹیز ہیں، ہزاروں ممکنات ہیں، تعلیم آگہی اور شعور کا جو دروازہ کھولتی ہے اسے بند کرنا بہرحال کسی کے لیے ممکن نہیں ہوتا، سوال بس دروازہ کھلوانے کا ہے۔ علم کا دروازہ کھل تو گیا، نرسری، پریپ، ون، ٹو تک شروع بھی ہو گیا لیکن یہ کام چلے گا کیسے، بڑھے گا کیسے، پھیلے گا کیسے؟ یہ اب سوچنے والی بات ہے۔ 
ایک بچے کا سالانہ خرچ 30,000 روپے ہے جس میں اس کے استادوں کی تنخواہ، کتابیں، یونیفارم، بیگ، ٹرانسپورٹ اور کھانا وغیرہ سب کچھ شامل ہیں۔ تو یہ ایک روپے والا جو آئیڈیا ہے اسے کامیاب بنایا جا سکتا ہے اگر کچھ لوگوں کا ساتھ مہیا ہو، جتنا کچھ ذاتی طور پہ وہ کر سکتے ہیں، کر رہے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ بچے ان لوگوں کے ہیں جن کی ماہانہ آمدنی دس ہزار سے کم ہے۔ یہ صدقہ جاریہ ہے۔ ساری تفصیل بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ کسی نہ کسی کو پہلا قطرہ بننا پڑتا ہے‘ تبھی موسلادھار بارش برستی ہے۔ 
پس نوشت؛ یار اگر کچھ بھی مدد نہیں کرنی اور نیک کام کرنے کا موڈ بھی ہے تو کم از کم اس مضمون کو آگے واٹس ایپ یا فیس بک پہ پھیلا دیجیے۔ بچوں کی پڑھائی سے متعلق مضمون آگے پھیلانا بھی صدقہ جاریہ ٹائپ کام ہو گا۔ بے شک کاپی پیسٹ کر کے آگے بڑھا دیں، کچھ تو کریں! 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں