کون سی، کِتھے گیا؟

پھن پھیلائے پھنکارتا، دہشت پھیلاتا دھیرے دھیرے رینگتا، پورے ماحول کو آسیب زدہ کرتا، ارد گرد سے بے نیاز، بے خوف، بلا دھڑک وہ آگے بڑھتا۔ چرند پرند پر وہ ہیبت طاری کر دیتا۔ کوئی پناہ کی تلاش میں بھاگ کھڑا ہوتا، اور کوئی ہڑبڑا کر اِدھر اُدھر اڑان بھرتا۔ وہ پدی نما کمزوراور نحیف سا پرندہ بھی، جسے میرے گائوں کے لوگ ٹٹیری بولتے ہیں، سب سے پہلے وہی اپنا سانس کھینچ لیتا، گھونسلے کے تنکوں میں خود کو چھپا لیتا، اپنی دھڑکن کی آواز تک وہ نکلنے نہ دیتا، وحشت سے آنکھیں موند لیتا۔ اور پھر جیسے ہی پھنکارتا سانپ پلٹ جاتا، ٹٹیری ہی سب سے پہلے اپنے گھونسلے سے نمودار ہوتا، اپنی کراری آواز سے آسمان سر پر اٹھا لیتا۔ خود کو سب سے بہادر ثابت کرنے کے لیے اِدھر، اُدھر پھدکتا، چھلانگیں لگاتا، ایسے اونچے راگ الاپتا جیسے دوسروں کو بزدلی کے طعنے دے رہا ہو اور سانپ کو کُھلاچیلنج، اور اس کی آواز کا تیزی سے مخصوص اتار چڑھائو ایسا ساز بجاتا جیسے پنجابی میں للکار رہا ہو '' کون سی، کِتھے گیا؟ کون سی کتھے گیا؟ کون سی کتھے گیا؟‘‘ یعنی کون تھا، کدھر گیا۔
جانے والا اب جا چکا کہ اسے کون روک سکتا تھا، اور پاکستانی سیاست کے درجنوں ٹٹیری اپنے گھونسلوں سے نکل آئے ہیں، راگ الاپتے اب وہ تھکتے نہیں کہ کون سی، کتھے گیا۔ وہ بھی جنہوں نے صاحب بہادر کو پہلی بار خود رخصت کیا تھا، پوری دھوم دھام سے، ڈھول باجوں کے ساتھ، ایوان صدر میں گارڈ آف آنر دے کر، اور وہ بھی اُس وقت، جب وہ نایاب لہو تک خشک نہیں ہوا تھا، جو پنڈی کی سڑکوں پر بہایا گیا، کسی اور کا نہیں، اُن کی اپنی محبوب قائد کا۔ صرف اس لیے کہ پانچ برس اقتدار پر کوئی آنچ نہ آئے، سیاسی منافقت کی کوئی حد ہوا کرتی ہے؟ جمہوریت اور آئین کی سربلندی سے آپ کا کیا لینا دینا کہ جن کی یہ میراث تھی، وہ گڑھی خدا بخش میں منوں مٹی تلے سوئے ہیں۔ آپ کے لیے تو لوٹ کھسوٹ ہی جمہوریت ٹھہری۔
اسلام آباد کے نواح بنی گالہ میں ایک کپتان بھی ہیں، جو اصلی اور ''اصولی‘‘ جمہوریت کی تسبیح پڑھتے ہیں، صبح شام۔ ہر وقت اپنا دل جلاتے ہیں اور اپنے چاہنے والوں کا بھی۔ ایک صحافی نے صاحب بہادر کی رخصتی پر سوال کیا، تو انجان بن کر چونک اٹھے، فرمایا، اچھا وہ رخصت ہو گئے؟ ادھورا سا جواب دیا، دامن جھاڑا اور بجلی کی تیزی سے چلتے بنے کہ کہیں کوئی ایسا سوال نہ ہو جائے، جس کا جواب دینا مشکل ہو جائے اور کوئی مشکل آن پڑے۔ ڈھائی سال صاحب بہادر پر مقدمات چلتے رہے، آپ کو سانپ سونگھا رہا، اور اب وزیر اعظم پر شاعرانہ طنز فرمایا کہ ناداں گر گئے سجدے میں، جب وقت قیام آیا۔ آپ کی جماعت مقبول ترین نہ سہی، آپ خود تو مقبول ترین رہنما ہیں، کبھی منتخب ایوان میں یا جلسہ عام میں، ایک بار بھی آپ نے حکومت پر دبائو ڈالا کہ صاحب بہادر پر قائم مقدمات کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے؟ عوام سادہ ضرور ہیں مگر بیوقوف نہیں۔ آپ کے پُراسرار دھرنے تو پہلے ہی وزیر اعظم کو چاروں شانے چِت کر چکے، پالیسیاں بنانے کا نہیں، صرف سڑکیں اور پُل بنانے کا اختیار اب اُن کے پاس ہے۔
حکمراں جماعت کے ٹٹیری بھی سانپ گزر جانے کے بعد لکیر پیٹ رہے ہیں۔ شوشہ چھوڑا کہ صاحب بہادر وطن واپس نہ آئے تو انٹرپول کے ذریعے لائیں گے، سچ رانا صاحب؟ ایسا نہ ہو کہ صاحب بہادر کو انٹرپول سے لاتے لاتے آپ کو ہی باہر جانا پڑ جائے۔
صاحب بہادر کی رخصتی سے جمہوریت کی کمر ٹوٹ گئی، صبح شام کچھ دانشور اور سیاست دان یہ گردان دہرا رہے ہیں۔ جمہوریت کی کمر تو نہیں ٹوٹی؛ البتہ وہ حکومت کی کمر تڑوانے کی خواہش ضرور رکھتے تھے۔ کیا ہم اتنے ہی انجان ہیں؟ اس نرم و نازک جمہوریت نے بھی صاحب بہادر کو اچھا خاصا چکرا کے رکھا، عدالتوں کے زیادہ چکر 
انہیں نہیں لگوائے جا سکے لیکن دو سال مقدمے تو انہیں بھگتانے پڑے، صبح شام ان کے وکیلوں کی دوڑیں تو لگتی رہیں، عدالتوں میں سچے جھوٹے بہانے تو انہیں تراشنا پڑے، کچی پکی میڈیکل رپورٹیں تو انہیں بنوانا ہی پڑیں۔ بچنے بچانے کے لیے خود بھی کئی بار ہسپتال میں آرام فرمانا پڑا، آخر چپ چاپ دبے پائوں انہیں نکلنا پڑا۔ ساتھ ہی وہ بھرم بھی نکل گیا کہ میں کسی سے ڈرتا ورتا نہیں۔ اس سے پہلے بھی کبھی تاریخ میں ایسا ہوا؟ میاں صاحب کو اتنی داد تو ملنا ہی چاہیے کہ دھرنوں کے بعد، جلتے پروں کے باوجود انہوں نے ہمت دکھائی۔ جو پیغام جانا چاہیے تھا وہ چلا گیا۔ فی الحال اتنا بھی بہت ہے۔ منزل جلد پانے کی خواہش میں بھٹک جانا بھی عقلمندی نہیں۔ ویسے بھی صاحب بہادر کے کئی سابق پیارے میاں صاحب کے دُلارے بن چکے۔ وہ جو رقیب تھے اب حبیب ہیں۔ کوئی وزیر، کوئی مشیر۔ پھر کیسا اور کہاں کا اصولی مؤقف؟
صاحب کی رخصتی پر جمہوریت کی کمزوری کے طعنے دینے والے بہت ہیں۔ بجا، لیکن سوال کرنے والے سوال کرتے ہیں، آپ نے جمہوریت کو توانا کرنے کے لیے کیا تیر مارا؟ لوٹ مار سے بھی جمہوریت پھلتی پھولتی ہے؟ مفاہمت کے نام پر خود بھی لُوٹو اور حلیفوں سے بھی لُٹوائو۔ مفت کا مال جو ٹھہرا۔ آپ کی جمہوریت خیبر پختونخوا میں ایزی لوڈ سے شروع ہوئی، وفاق میں رینٹل ہوئی اور سندھ میں ریکارڈ ساز لوٹ کھسوٹ پر ختم۔ کیا کہیں یہ پڑھا اور سنا نہیں تھا آپ نے کہ جمہوریت تب پروان چڑھتی ہے، جب اس کے ثمرات عوام تک پہنچتے ہیں، کیسے گل کھلائے آپ نے؟ کہ ہماری جمہوریت پانچ برس میں پانچ ماہ کی قوت بھی حاصل نہ کر پائی۔ اگر آپ کے ان کارناموں کی تعداد آدھی بھی ہوتی تو صاحب بہادر کو شاید دو کے بجائے چار سال مقدمات بھگتنا پڑتے۔ تھوڑی سی اور ٹھنڈک پڑ جاتی، ان کے کلیجوں میں، جو نیک نیتی سے آئین کی سربلندی کا پرچار کرتے ہیں۔ 
وزیر اعظم کو ایک بات پوری طرح سمجھ لینی چاہیے، اور شاید وہ سمجھ بھی رہے ہیں کہ صاحب بہادر کی کارستانیوں کی ذمہ دار پوری فوج نہیں۔ وہ ایک بوجھ تھے اور بوجھ اپنوں کو ہی اٹھانا پڑتا ہے۔ صاحب بہادر کو کوسنے کی آڑ میں کچھ فوج کے خلاف بھی زہر اگل رہے ہیں، ایسے وقت جب وہ ملک و قوم کی بقا کے لیے پیچیدہ ترین جنگ لڑ رہی ہے۔ سجے سنورے، ٹھنڈے گرم سٹوڈیوز اور ایوانوں میں تقریریں جھاڑنا آسان، میدان جنگ میں دشمن کو للکارنا بڑا مشکل ہوتا ہے۔ کتنا ہی لہو وہ اپنا بہا چکے، اُن کی پشت پر کھڑا ہونا ضروری ہے، سب سے زیادہ ضروری، وزیر اعظم کے لیے۔ صاحب بہادر کی رخصتی کے بعد کئی سیاسی ٹٹیری وزیر اعظم کو ورغلائیں گے، طیش دلائیں گے، لیکن ان سیاسی ٹٹیریوں سے بچنا ہے کہ آئین کی پاسداری نہیں، سیاست چمکانا ان کا مقصد ہے۔ ایسا نہ ہو کہ میاں صاحب کسی اندھے کنویں میں کود جائیں اور پھر پوچھتے پھریں کہ انہیں دھکا کس نے دیا تھا۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ پندرہ برس، صرف پندرہ برس اگر جمہوریت چل گئی، لوٹ کھسوٹ سے نہیں، جمہوری طور طریقوں سے، تو پھر کہیں سے کوئی بھی صاحب بہادر، مسیحا کا روپ دھار کر نازل نہیں ہو سکے گا۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں