اِدھر اُدھر گھومتی گھماتی آنکھیں، کسی کھوئی چیز کی تلاش میں، ہر کونے کھدرے میں، پردوں اور دیواروں کے آگے پیچھے، بھٹکتی نظر ہر بار خالی لوٹ آتی، کہ جس کی تلاش تھی، اس کا وجود ہی نہیں۔
میلہ سجا تھا، سات سمندر پار، دارالحکومتوں کے دارالحکومت واشنگٹن شہر میں۔ ایٹمی ہتھیاروں کی حفاظت کی عالمی کانفرنس، پچاس ملکوں کے اِتراتے اِٹھلاتے جبکہ پاکستان کے شرماتے منہ چھپاتے وفود۔ عالی شان ہال میں، درجنوں مُلکوں کے اسٹال سجے تھے، اُن کے بھی، جن کے نام تک سے آدھی دنیا واقف نہیں۔ ہزاروں شُرکا کو وہ پیغام دیتے کہ تباہی‘ بربادی کے لیے نہیں، بلکہ پُرامن مقاصد اور سائنسی منصوبوں کے لیے سول جوہری ٹیکنالوجی وہ چاہتے ہیں۔ کیا پاکستان کا موقف بھی یہی نہیں رہا؟ پھر پاکستان کا اسٹال کہاں غائب ہے؟ ایک پاکستانی سفارتی اہلکار سے میں نے دریافت کیا۔ طنزیہ فرمانے لگے، ہم اپنے اسٹال پر کیا شاہین اور حتف میزائل رکھتے؟ جلتے کُڑھتے میں نے پوچھا: کیا دوسرے ملکوں نے اپنے اسٹالز پر ایٹم بم سجا رکھے ہیں؟ اِتنا احساس کمتری اور شرمندگی کیوں ہے ہمیں؟ زِچ ہو کر ایک جھوٹ انہوں نے داغ دیا، کہ وزیر اعظم کا دورہ منسوخ ہوا تو فنڈز بھی نہ مل سکے، اور شاید اسی لیے اسٹال نہ سج سکا۔ واقعی؟ وزیر اعظم کا دورہ تو آخری روز منسوخ ہوا، کانفرنس کا اعلان تو چار ماہ پہلے ہو چکا تھا اور اسٹالز کی بکنگ ہفتوں پہلے مکمل۔ کیا آپ نے بکنگ کروا رکھی تھی؟ ڈھٹائی سے ہنستے وہ بولے، نہیں۔ اور کتنے فنڈز درکار تھے اسٹال کے لیے؟ صرف پانچ سے سات ہزار ڈالرز، یعنی پانچ سے سات لاکھ روپے، اتنا تو ماہانہ بجلی‘ گیس کا بل ہو گا پاکستانی سفارت خانے کا، یا ایک سفارت کار کی آدھی تنخواہ۔ جھوٹ کے بھی پائوں ہوا کرتے ہیں؟ جھوٹوں کے آئی جی کا خطاب کس کس کو دیا جائے؟ شاید جھوٹ بولنے کا اپنا ریکارڈ ہم ہمیشہ قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ کہانی یہاں ختم نہیں بلکہ شروع ہوتی ہے۔
جوہری کانفرنس کے آغاز سے پہلے خوب واویلا کیا گیا، بھارت نواز قوتوں کی جانب سے، بھارتی سرپرستی میں، پاکستان کے خلاف کہ اس کے ایٹمی ہتھیار غیر محفوظ ہیں۔ پورا پاکستانی سفارت خانہ اور دفتر خارجہ لمبی تان کر سوئے رہے۔ سوائے ایک ذمہ دارشخص کے۔ وہ تو بھلا ہو ایک راست گو گورے سفیر کا، جس نے بھارتی پروپیگنڈا ان کے منہ پر دے مارا، صاف صاف لفظوں میں اس نے بتا دیا، بھارتیوں کو، ان کے ہمنوائوں کو اور عالمی کھلاڑیوں کو بھی، کہ پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کی حفاظت کا انتظام پوری طرح تسلی بخش ہے، اور یہ بھی کہ وہ خود اور دیگر متعلقہ حکام اس نظام کا کئی بار جائزہ لے چکے۔ اُدھر پاکستانی صحافیوں نے ایک چونکا دینے والی رپورٹ ڈھونڈ نکالی، کہ بھارت میں پانچ مرتبہ جوہری مواد چوری ہو چکا، جو شدت پسندوں کے ہاتھ بھی لگ سکتا تھا، کیا یہ معاملہ ایٹمی کانفرنس میں نہیں اٹھانا چاہیے؟ سیکرٹری خارجہ اعزاز چوہدری سے یکے بعد دیگرے کئی صحافیوں نے پوچھا۔ بڑی بے اعتنائی سے ہر بار گول مول جواب انہوں نے دیا، کہ یہ فورم صرف اپنا مقدمہ لڑنے کا ہے، دوسروں کی خامیوں کی نشاندہی کا نہیں۔ کیا پاکستان میں ایک بار، صرف ایک بار بھی ایٹمی مواد چوری ہوا ہوتا، تو بھارت آسمان سر پر نہ اٹھا لیتا؟
حیران و پریشان صحافی سیکرٹری خارجہ کا چہرہ تکتے تھے۔ پھر پوچھا، کانفرنس کی سائیڈ لائنز میں آپ کی عالمی وفود سے اہم ملاقاتیں بھی ہوں گی، کیا بلوچستان میں را کی مداخلت کا معاملہ ان کے سامنے نہیں رکھنا چاہیے؟ اب تو اُن کا اعلیٰ سطح کا جاسوس بھی پکڑا جا چکا، وہ بھی رنگے ہاتھوں۔ پھر وہی جواب، کہ یہ فورم صرف جوہری معاملات پر بحث کے لیے ہے۔ را کی مذمت انہوں نے ضرور فرمائی، لیکن پاکستانی سفارت خانے کی چاردیواری کے اندر، صرف پاکستانی صحافیوں کے سامنے۔ جنگل میں مور ناچا، کس نے دیکھا؟ عالمی کانفرنس میں ایٹمی مواد کی چوری یا را کا معاملہ اٹھانے سے وہ گریزاں رہے، کہ شاید دفتر خارجہ کی یہ ترجیح ہے نہ پالیسی۔ طارق فاطمی‘ جو اسلام آباد سے شہسوار بن کر واشنگٹن اترے تھے، سلیمانی ٹوپی پہن کر سفارت خانے کے ایک کمرے میں غائب ہو گئے۔ میڈیا بریفنگ میں آنے کی زحمت انہوں نے گوارا نہ کی، منہ پُھلائے، موڈ بنائے، پھر وہ چلتے بنے۔ اُدھر وائٹ ہائوس میں وہ ہاتھ لہراتے، بل کھاتے اور خوشی سے پھولے نہ سماتے داخل ہوئے، کاش وہ اپنی اور غیر ملکی وفود کی تصویریں دیکھیں اور غور کریں، کیا مودی صاحب کی زرکیلی، بھڑکیلی، اُلٹی سیدھی سیلفیوں اور تصویروں کا ریکارڈ توڑنا ہے آپ نے؟
کانفرنس شروع ہوئی تو سرکاری ڈنر کے مناظر دیکھ کر پاکستانی صحافی ہکا بکا رہ گئے۔ مودی صاحب امریکی صدر اوباما کے بائیں جانب براجمان تھے، ایک ایسی تقریب میں جہاں پچاس ملکوں کے سربراہ موجود تھے۔ ایسے بنتی ہیں خارجہ پالیسیاں، کہ دنیا کی سپرپاور بھی آپ کے لیے دل اور بانہیں کھولنے پر مجبور ہو جائے۔ پھر وقت خطاب آیا تو مودی صاحب پاکستان پر چڑھ دوڑے، پاکستان کا نام لیے بغیر، فرمایا: ریاستی عناصر بھی ایٹمی مواد کی سمگلنگ اور پھیلائو میں ملوث رہے ہیں۔ ہر طرف پاکستان کے بارے میں سرگوشیاں ہونے لگیں، لیکن آخر یہ ہُوا کیا؟ ہمارے خارجہ حکام نے تو ہمیں کچھ اور ہی بتایا تھا، فرماتے تھے کہ یہ فورم اپنی بات کرنے کا ہے، دوسروں پر انگلیاں اٹھانے کا نہیں۔
مودی صاحب کے نہلے پر پاکستانی وفد دہلا ضرور مارے گا، یہ خوش فہمی ہم پاکستانی صحافیوں کو لاحق ہو گئی۔ ہم نے دہلا کیا مارنا تھا، مودی سرکار نے تو یکے پر یکہ مار کے بساط ہی الٹ دی، اور عین ایٹمی کانفرنس کے روز، نئی دلی سے پٹھان کوٹ کا واقعہ بھی واشنگٹن گھسیٹ لائے، اور مولانا مسعود اظہر کو عالمی دہشت گرد قرار دلوانے کا معاملہ بھی اٹھا دیا۔ بہت خوب۔ مودی صاحب نے ہمارے وفد کا صبر آزمایا، اور آفرین ہے کہ ہم انتہائی صابر اور شاکر واقع ہوئے۔ مجال ہے کہ فاطمی صاحب نے اپنے خطاب میں بھارت یا را کے بارے میں ایک لفظ تک کہا ہو، یا بعد میں کوئی بیان جاری کیا ہو، جیسے بھارتی وفد نے کیا۔ جذباتیت سے نہیں، دلیل سے تو بات کی جا سکتی تھی۔ براہ راست نہیں، دبے لفظوں میں تو اُن کو پیغام دیا جا سکتا تھا، جنہیں پیغام دینا ضروری تھا۔ کچھ تھوڑا بہت وزیر اعظم سے ہی سیکھ لینا تھا، جنہیں دو سال سے سفارت کاری کا میدان بھی خود ہی سنبھالنا پڑ رہا ہے۔
کھٹی میٹھی تقریروں کے بعد کانفرنس ختم ہوئی اور فاطمی صاحب ہاتھ لہراتے ہوئے پھر غائب، میڈیا بریفنگ، سوال نہ جواب۔ پوری کانفرنس میں یہ واحد وفد تھا‘ جو میڈیا بریفنگ کے بغیر ہی چلتا بنا۔ کانفرنس میں بریفنگ سے ڈر لگتا ہے تو اپنے سفارت خانے میں ہی بلا لیجیے، صرف پاکستانی صحافیوں کو، ہم نے ان تک تجویز پہنچائی لیکن موصوف ایسے غائب ہوئے کہ تاحال گُم ہیں۔ پڑھنے والوں سے التماس ہے کہ اس کالم کو تلاش گمشدہ کا اشتہار سمجھا جائے، اور جسے بھی ان کا کوئی اتہ پتہ ملے، خط یا ای میل کے ذریعے مطلع کریں، اطلاع دینے والے کو انعام تو نہیں شاباش ضرور دی جائے گی۔