بول مٹی دیا باویا

خود سے سوال کرتا، وہ شخص حیران ہے، کہ آئے روز ایک نئے طوفان کا سامنا اُسے کیوں ہوتا ہے۔ گلے شکوے وہ زیادہ اور اپنی غلطیوں پر غور کم کرتا ہے۔ وہ غلطیاں جو اس کے مخصوص درباری اس سے بار بار کراتے ہیں۔ متنازع چار حلقے کھولنے میں تاخیر، سانحہ ماڈل ٹائون، کراچی میں پی آئی اے کے ہڑتالیوں پر فائرنگ، اور آزاد کشمیر میں انتخابات سے پہلے تشدد۔ وہ اور اس کے مخالفین، سب جانتے ہیں کہ مارنا جلانا اس کی سیاست نہیں، لیکن کوئی تو ہے جس نے یہ سب کرایا۔ باہر نہیں اپنی صفوں میں اسے نادان دوستوں کو تلاش کرنا ہے، جو اکثر دشمنوں سے زیادہ نقصان پہنچاتے ہیں۔ پاناما لیکس کے ہنگام ایسی ہی غلطی اس سے کروائی گئی، قوم سے خطاب کی، اور ایک نمائشی انکوائری کمیشن کی تشکیل کی۔ کاش کہ درباریوں پر اُس کا انحصار کچھ کم ہو، اور اہم فیصلے وہ خود کر سکے، اپنی سوچ اور حکمت کے مطابق، کہ قوم نے تیسری بار اُسے سر آنکھوں پر بٹھایا ہے۔ آٹھ برس جلاوطنی جھیلنے کے صلے میں، بھٹو کے نام نہاد وارثوں کی بے مثال لوٹ مار کے طفیل، اور مقبول مگر ہر وقت جذبات کی رو میں بہتے کپتان کی ناقص حکمت عملی کے باعث، وزارت عظمیٰ تیسری بار اس کی جھولی میں آن گری۔ بجا کہ دیگر حکمرانوں سے کچھ بہتر وہ ثابت ہوا، لیکن تیسری بار وزیر اعظم بننے کے باوجود، خوشامدی مشیروں نے اسے قومی رہنما نہ بننے دیا۔ کیا درباریوں سے جان چھڑانا اتنا ہی مشکل ہے؟ وہ درباری جو ہر حکمران کے دسترخوان سے رزق چننے کے ماہر ہیں۔
ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں انکوائری کمیشن کو قبولیت نہیں ملے گی، عوام میں نہ اپوزیشن میں۔ یہ بات سمجھنے کے لیے کسی خاص فہم و فراست کی ضرورت نہیں تھی۔ پھر یہ فیصلہ کر کے معاملے کو مشکوک کیوں بنایا گیا؟ اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنے کا فن ن لیگ سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔ آف شور کمپنیاں بنانا کوئی جرم نہیں، قانونی ماہرین کو اچھی طرح معلوم ہے۔ اثاثے چھپانے اور ٹیکس بچانے میں بھی فرق ہے، ٹیکس قانونی طریقوں سے بچانا ہر کسی کا حق ہے، اور یہ حق مہذب اور ترقی یافتہ ملکوں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ معاملہ یہ نہیں کہ وزیر اعظم کے صاحبزادوں کی آف شور کمپنیاں کیوں ہیں، جاننے والے بس یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ان کمپنیوں کے لیے پیسہ کہاں سے آیا، اور یہ جاننا اُن کا حق بھی ہے۔ 
پاناما لیکس کی تحقیقات کسی حاضر یا ریٹائرڈ جج کے بس کی بات نہیں، کہ یہ خالصتاً مالی معاملہ ہے، کپتان بھڑکتا بہت ہے، اور اس کے مطالبات بھی اکثر جذبات سے بھرپور مگر دلیل سے دور ہوتے ہیں۔ اگر چیف جسٹس اور حاضر سروس ججوں پر مشتمل کمیشن بنا بھی دیا جائے، تو کیا وہ اس مالی معاملے کی تحقیقات کر پائیں گے؟ اور کس سے وہ تعاون طلب کریں گے؟ ایف بی آر اور اُن اداروں سے جو حکومت کے تابع ہیں؟ کیا ایسے میں شفاف تحقیقات یقینی بنائی جا سکتی ہے؟ اور ویسے بھی کپتان کے مطالبات کے حوالے سے سپریم کورٹ کا تجربہ خاصا تلخ ہے۔ کپتان کے مطالبے پر عدالتی کمیشن بنانے کا مطلب کیا ہے؟ ایسا فیصلہ جو کپتان اور اُس کی پارٹی کے حق میں ہو۔ ورنہ وُہی شور کہ میں نہیں مانتا۔ مبینہ دھاندلی پر عدالتی کمیشن کے فیصلے کا حشر دنیا دیکھ چکی، عدلیہ پر کھلے عام بے رحم اور سوشل میڈیا کے ذریعے واہیات تنقید، سوشل میڈیا کی وہ ٹیم، جو اسلام آباد میں، ایک امیر کبیر پارٹی رہنما کے گھر سے کنٹرول ہوتی ہے۔ بہرحال، پاناما لیکس پر قربان جائیے کہ کپتان کو ڈی چوک سے ذرا دور پارلے منٹ تک لے ہی گئی، کہ پارلیمان جیسی تیسی بھی ہو، یہاں گونجنے والی آواز، دھرنوں کے شور شرابے سے زیادہ توانا ہوتی ہے۔ 
کپتان کی جذباتیت اپنی جگہ، مگر حکومتی کارندے اتنی بوکھلاہٹ کا شکار کیوں ہیں؟ سوال گندم، جواب چنا۔ شریف صاحبزادوں کی آف شور کمپنیوں کا سوال، اور جواب شوکت خانم ہسپتال کی مبینہ آف شور کارستانیاں۔ ایسی افلاطونیت کی ڈگریاں کہاں بانٹی جاتی ہیں؟ سیدھی بات ہے، اس معاملے کی تحقیقات، بہترین ساکھ رکھنے والی کسی عالمی آڈٹ فرم سے کروائی جائیں، جو ایسے مالی معاملات کی باریکیاں جانتی ہو، اور اس کے انتخاب سے پہلے، اپوزیشن کو اعتماد میں لیا جائے، خاص طور پر کپتان کو، ورنہ پھر دھاندلی کا واویلا ہوتا رہے گا۔ پاناما لیکس نے صرف آف شور کمپنیوں کی معلومات دی ہیں، کوئی الزام براہ راست وزیر اعظم یا ان کے صاحبزادوں پر نہیں لگایا گیا۔ اگر معاملہ شفاف ہے، تو وزیر اعظم کو اس کی تسلی بخش تحقیقات کروانے میں ذرا بھر ہچکچاہٹ نہیں ہونی چاہیے۔ 
وزیر اعظم کے صاحبزادوں کا یہ استدلال درست، کہ کاروبار کرنا ان کا قانونی حق ہے، اور یہ بھی کہ اگر وہ پاکستان میں کاروبار کرتے تو، اس سے بھی زیادہ اُنگلیاں اُن پر اٹھتیں۔ وزیر اعظم کی سیاسی حیثیت کا فائدہ اٹھانے کا الزام اُن پر زیادہ شدت سے لگتا۔ لیکن اس معاملے کے اخلاقی پہلو بھی تو ہیں، جب وزیر اعظم کا اپنا خاندان بیرون ملک کاروبار کرتا ہو، سرمایہ دیس میں نہیں، پردیس میں لگاتا ہو، تو آپ کس منہ سے غیروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی دعوت دیتے ہیں؟ اگر آپ کو اپنے ملک میں سرمایہ لُٹ جانے کا خوف ہے، تو غیروں کو کیسے یقین دلائیں گے کہ اُن کا سرمایہ یہاں محفوظ ہے؟ حیرت ہے کہ پھر بھی غیرملکی سرمایہ کاری کا راگ، صبح شام حکومت الاپتی ہے۔
پاناما لیکس سے اٹھنے والا طوفان بہت کچھ اُڑا لے جا سکتا ہے، وزیر اعظم اور ان کے اہل خانہ کی ساکھ بھی، اور اگلا الیکشن جیتنے کی صلاحیت بھی۔ ایک عدد دھرنے کا اعلان پہلے ہی ہو چکا، کینیڈا کے ایک شہری بھی پاکستان میں لشکر کشی کے لیے بے چین رہتے ہیں، بس کسی اشارے کے وہ منتظر ہوں گے، اگرچہ وہ اشارہ انہیں فی الحال ملنے کا امکان نہیں، فی الحال۔ وزیر اعظم خود کہہ چکے کہ احتجاج کی تازہ لہر کو وہ خوب سمجھتے ہیں۔ اگر وہ سمجھتے ہیں تو فیصلہ کرنے میں تاخیر کیوں؟ کیا ڈیڑھ برس پہلے کے مناظر وہ بھول چکے؟ یہ بھی کہ اسلام آباد پر چڑھ دوڑنے والے دو لشکروں نے اُ ن کے ساتھ کیا کِیا؟ حکومت تو اُن کی بچ گئی لیکن آدھے سے زیادہ حق حکمرانی جاتا رہا۔ احتجاج اور دھرنوں سے نمٹنے کی حکومتی صلاحیت کتنی ہے؟ یہ صرف دو ہفتے پہلے بھی سب دیکھ چکے، جب راولپنڈی سے نکلنے والا ایک جلوس، تمام رکاوٹیں روندتا، میٹرو سٹیشنز جلاتا، پارلیمنٹ کو راکھ کرنے اس کے دروازے پر جا پہنچا، چار و ناچار، حکومت کو فوج بلانا پڑی، جس نے صورت حال سنبھالی۔ کیا وزیر اعظم اس مرتبہ بروقت کوئی فیصلہ کر پائیں گے، ایسا فیصلہ جو انہیں بطور رہنما سرخرو کر سکے، شفاف تحقیقات کا فیصلہ، اور یہ بھی کہ ان کے صاحبزادے اپنا کاروبار پاکستان منتقل کریں گے، فوری طور پر اگر ایسا ممکن نہیں تو مرحلہ وار ہی سہی؟ دھونس اور سیاسی تکبر دکھانے کا یہ وقت نہیں، کہ احتجاج کرنے والوں کے پاس اس بار دلائل ہیں، اور دلائل کا جواب طاقت سے نہیں دلائل سے ہی دیا جا سکتا ہے۔ محاذ آرائی حکومت اور جمہوریت کو اندھے کنویں میں دھکیل سکتی ہے، وزیر اعظم ایسی راہ پر نہ جائیں کہ واپس نہ لوٹ سکیں، ایسا نہ ہو کہ اُنہیں پھر مٹی کا بت بنا دیا جائے، اور اُن کے چاہنے والے روتے رہ جائیں کہ 'بول مٹی دیا باویا، تیرے دُکھاں نے مار مکا لیا‘‘

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں