اُجالوں جیسی چمکتی وہ شام، یادگارِ پاکستان کے سائے میں، نیا پاکستان بنانے کا عزم، کپتان کی قیادت میں، عشروں پر پھیلی طویل سیاہ راتوں کے بعد، اِک آس کا دیا کپتان نے جلایا، جسے کسی اور نے نہیں، خود اُسی نے بجھا ڈالا۔ اکتوبر 2011ء کی اُس شام کو، تقریباً پانچ برس بیت گئے، بس اِک دائرہ ہے، جس کے گرد کپتان کا سفر ہے۔ ایک انچ وہ آگے نہیں بڑھ پایا۔ کچھ پانے کے بجائے بہت کچھ اُس نے کھو دیا۔ نظریہ بھی، نظریاتی کارکن بھی، کہ جہاز والا حبیب، مگر پارٹی کا ایماندار جج رقیب ٹھہرا۔ اصلی باغی کو داغی بنا دیا گیا، اور جو ہمیشہ سے داغی رہا، وہ باغی قرار پایا۔ ایک دو نہیں، درجنوں ایسے تمغے ہیں، جو تحریک انصاف کے سینے پر سجے ہیں۔ کپتان کا سب سے بڑا حریف کوئی اور نہیں، کپتان خود ثابت ہوا۔، کسی اور نے نہیں، کپتان نے ہی خود کو ہرا دیا۔ کیسی بدقسمتی ہے کہ کوئی مسیحا اب قوم کے پاس ہے نہ فیصلہ کن لمحات میں رہنمائی کرنے والا۔
کپتان کی سیاست پر ناقدین کے لاکھ اعتراضات، لیکن پھر بھی، اُس کی جتنی باتوں سے اختلافات، اُتنی ہی باتوں سے عام آدمی کو اتفاق بھی ہے۔ بڑی جماعتوں کے درمیان مُک مُکا، کپتان اس پر اپنا جی بہت جلاتا ہے۔ پہلے یہ اُس کا الزام تھا، اور بعد میں اس کی تصدیق ہوئی، کسی اور کی جانب سے نہیں، خود وزیر داخلہ کی طرف سے، وہ وزیر داخلہ جو ذاتی معاملات میں دیانتدار ہیں‘ اور ذمہ دار بھی۔ پاکستانی سیاست کا معیار دیکھیے کہ چوہدری نثار علی خان جیسے شخص کو بھی سمجھوتا کرنا پڑا، سیاسی مفادکے لیے، ملکی مفاد پر سمجھوتا۔ پیپلز پارٹی کی کرپشن کی فائلوں کی فائلیں اُن کے پاس ہیں، یہ بات کئی بار وہ دُہرا چکے، پھر لُٹیروں پر ہاتھ وہ کیوں نہیں ڈالتے، کہ لوٹی ہوئی دولت اُن کی ذاتی نہیں مُلک کی تھی؟ کیا کرپشن کی یہ فائلیں، محض سیاسی بلیک میلنگ کے لیے رکھی ہیں۔ ایسے موقعوں کے لیے کہ جب پاناما لیکس جیسا کوئی ہنگامہ ہو، اور اپوزیشن کو دھمکانا ہو، کہ کوئی سیاسی محاذ آرائی اگر اُس نے کی، تو اُس کا پول کھول دیا جائے گا؟ وزیر داخلہ کی آخری دو پریس کانفرنسوں سے تو یہی تاثر ملا، جب انہوں نے خورشید شاہ کی نیب میں موجود فائلوں کا ذکر کیا، اور اعتزاز احسن کا بھانڈا پھوڑنے کا بھی۔ پوچھنے والے پوچھتے ہیں، کہ اب تک کس نے آپ کو کارروائی سے روکے رکھا؟ خادم اعلیٰ کی وہ جوشیلی تقریر، اب بھی سوشل میڈیا کی زینت ہے، کہ لٹیروں کا پیٹ پھاڑ کر لُوٹی دولت نکال لیں گے۔ کب؟ تین برس تو بیت چکے۔ آپ نے یہ کام نہ کیا، تو کسی اور نے شروع کر دیا، پہلے کراچی میں، اور اب پنجاب میں بھی۔ احتساب اور آپریشن نہ کرکے، جو جگہ آپ نے خالی چھوڑی، وہ انہوں نے پُر کر دی، جو خالی جگہ پُر کرنے کے ماہر ہیں۔ اُنہیں پذیرائی ملی، اور آپ کو مُک مُکا کے طعنے۔
پاناما لیکس کا معاملہ، بظاہر حکومت کے اعصاب پر سوار ہے۔ دلائل سے نہیں، چیخ چنگھاڑ کر وہ اس کا دفاع کرنا چاہتی ہے، لیکن کیوں؟ اب تک تحقیقات ہوئی‘ نہ ہی وزیر اعظم یا ان کے صاحبزادے قصوروار ٹھہرائے گئے۔ پھر یہ جھنجھلاہٹ کیسی؟ اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے بجائے جوابی الزامات، دوسروں کا کچا چٹھا کھولنے کی دھمکیاں؟ یہ کہاں کی منطق ہے؟ ایسے نادان دوست، مشکلات کم نہیں، بڑھا دیا کرتے ہیں۔ رہی اپوزیشن، تو سوال اُٹھانا ہمیشہ اُس کا حق ہوتا ہے۔
پاناما لیکس سے جڑے راز جاننے کو کپتان بے چین ہے، اور یہ بے چینی بے وجہ نہیں، کہ اُسے اپنی سیاست زندہ کرنے کا نادر موقع ملا ہے، اور یہ بھی سو فیصد درست، کہ اصلی اپوزیشن صرف وہی ہے، باقی سب کا حال پوری قوم جانتی ہے۔ احتجاج نہیں، صرف سیاسی سودا بازی وہ کرنا چاہتے ہیں۔ ایک اور دھرنے کی منصوبہ بندی کپتان کر چکا، لیکن اسے سنجیدہ لینے کو فی الحال سنجیدہ حلقے تیار ہیں نہ عوام۔ وجہ واضح ہے، بے وقت، بلا جواز اور بے سود پہلا دھرنا۔ منظم دھاندلی کا نعرہ اس نے لگایا تھا، لیکن اسے پذیرائی نہ مل سکی، تبھی تو محض چند ہزار افراد ہی وہ اکٹھے کر سکا، اور وہ بھی ابتدائی ایام
کے بعد سکڑ کر چند سو ہو گئے، اور پھر چند درجن۔ کینیڈا کے ایک علامہ صاحب کی سرپرستی میں، تھرڈ امپائر کو ساتھ ملا کر، نوزائیدہ حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش نے، کپتان کی ساکھ بری طرح مجروح کی۔ ماضی کی غلطیاں، پرچھائیاں بن جایا کرتی ہیں، اور سدا پیچھا کرتی ہیں انسان کا، حال میں بھی اور مستقبل میں بھی۔ لاکھ جتن اب کپتان کر رہا ہے، کہ سیاسی جماعتیں اور عوام اُس کا ساتھ دیں۔ بجا کہ ماضی جتنا نہ سہی، لیکن اب بھی وہ مقبول بہت ہے۔ پھر بھی، اُس کے ساتھ دھرنے جیسی مہم جوئی کے لیے کم ہی لوگ تیار ہوں گے۔ اندرونی اختلافات بھی پارٹی کو یکسو نہ ہونے دیں گے۔ بڑے بڑے جلسوں سے وہ کچھ دبائو تو بڑھا سکتا ہے لیکن فیصلہ کن دھرنا شاید ممکن نہیں۔ ہاں اگر حتمی فیصلہ کرنے والے کوئی فیصلہ کر لیں، تو الگ بات ہے، اِس کا امکان اگرچہ بہت کم ہے۔ وطن اور وطن والوں کی سلامتی پر حملہ آور گروہوں کے خلاف جنگ وہ لڑ رہے ہیں، اقتصادی راہداری کے تحفظ کا عزم وہ کئی بار دہرا چکے۔ بطور ادارہ وہ اس منصوبے کو ملکی ترقی اور خوشحالی کا ضامن سمجھتے ہیں۔ بے مثال عوامی پذیرائی انہیں گزشتہ ایک برس میں ملی، ایسے میں سیاسی عدم استحکام اُن کی ترجیح کسی صورت نہیں ہو سکتا۔
دھرنوں کے لیے اگرچہ ماحول سازگار نہیں، لیکن کپتان کی مقبولیت اور ضدی پن کا غلط اندازہ لگانا، حکومت کی فاش غلطی ہو سکتی ہے۔ جو کچھ کپتان اب مانگ رہا ہے، اُس کے لیے دھرنے کی نوبت ہی کیوں آنے دی جائے۔ اگر وہ اور دیگر جماعتیں، حاضر سروس چیف جسٹس اور مالیاتی ماہرین پر مشتمل تحقیقاتی کمیشن چاہتے ہیں‘ تو حکومت کے پاس اعتراض کا اخلاقی جواز کیا ہے؟ یہ اور بات ہے کہ خود سپریم کورٹ یہ ذمہ داری اُٹھانے سے معذرت کر لے۔
سیاسی استحکام یا عدم استحکام کے لیے، جتنے پتّے کپتان کے ہاتھ میں ہیں، اُتنے ہی وزیر اعظم کے پاس بھی ہیں۔ جیسے تحقیقات مکمل کیے بغیر، وزیر اعظم کوگناہگار نہیں ٹھہرایا جا سکتا، ویسے ہی صرف کپتان پر غیر ذمہ داری کی تہمت نہیں لگائی جا سکتی۔ کیا ضروری ہے کہ پہلے ایک دھرنا ہو، پھر سیاسی مار دھاڑ، اور پھر کوئی ضامن بیچ بچائو کرائے، اور پھر حکومت وہی کمیشن بنانے کا اعلان کرے، جس کا مُطالبہ کیا جا رہا ہے۔ حالات بگڑنے سے پہلے، کسی اور کو نہیں، خود وزیر اعظم کو آگے بڑھنا ہے، کیونکہ یہ اُن کی اخلاقی ساکھ کا معاملہ ہے۔ پچھلے دھرنے میں اُنہیں اخلاقی برتری حاصل تھی۔ کیا وہ چاہیں گے کہ اِس بار معاملہ اُلٹ ہو جائے؟ 24 اپریل تک اُنہیں فیصلہ کرنا ہے۔ کپتان کے کسی اعلان سے پہلے، سیاسی محاذ آرائی اور اخلاقی پسپائی سے بچنے کے لیے۔ جمہوریت میں اپوزیشن کو نہیں، حکومت کو ہی دل بڑا کرنا پڑتا ہے۔ ملک کے مالی معاملات میں مکمل شفافیت، ہر عام آدمی کی آواز ہے، کیا وزیر اعظم عام آدمی کی تسلی کے لیے، ویسا ہی کمیشن بنائیں گے، جیسا وہ چاہتا ہے۔ وہی عام آدمی جس نے اُنہیں پچھلا الیکشن جتوایا، اور وہی عام آدمی جو اُنہیں اگلا الیکشن ہروا بھی سکتا ہے۔