راولپنڈی سے سخت پیغام، پیغام میں لپٹی وارننگ، تھرڈ امپائر کی راہ تکتی ایک جماعت، اخلاقی ساکھ پر داغ، اور نادان دوستوں کی دشمنی نما دوستی، ایک نہیں، بیک وقت کئی چیلنجز کا سامنا وزیر اعظم کو ہے۔ دوسروں نے کم، وزیر اعظم نے خود، زیادہ محاذ اپنے خلاف کھول لیے۔ اپنے نادان دوستوں کی مہربانی سے۔
ہر بار جاگنے سے پہلے، قسمت سو جاتی ہے، وزیر اعظم کی۔ وہ خود دیر کر دیتے ہیں، یا اُن سے دیر کروا دی جاتی ہے؟ یہ ایک بھید ہے۔ پاناما لیکس پر آزاد اور طاقتور کمیشن، جو شفاف تحقیقات یقینی بنا سکے، کسی اور کی نہیں، خود وزیر اعظم کی ترجیح ہونی چاہیے تھی، پہلے دن سے، جب پاناما لیکس کا ہنگامہ شروع ہوا تھا۔ اپوزیشن نے الزام کسی اور پر نہیں، براہ راست وزیر اعظم اور ان کے اہل خانہ پر لگایا، دامن پر لگے اس داغ کو دھونے کی جلدی، سب سے زیادہ خود وزیر اعظم کو ہونی چاہیے تھی۔ یہ نوبت ہی کیوں آنے دی گئی، کہ کپتان آزاد عدالتی کمیشن کا مطالبہ کرے۔ بروقت عوام کی نبض پر اُس نے ہاتھ رکھا، اور اب حکومتی کارندے سیاست چمکانے کا اِلزام اُسے دیتے ہیں، سیاست وہ کیوں نہ چمکائے؟ کہ اپوزیشن ہے وہ، حقیقی اپوزیشن۔ کسی سازش کے ذریعے حکومت گرانے کا نہیں، لیکن آواز اُٹھانے، اور احتجاج کا پورا حق ہے اُسے۔
کپتان کی دھرنے کی دھمکی، اور پیغام دینے والوں کے پیغام کے بعد، بالآخر چیف جسٹس کو کمیشن کے لیے خط لکھ دیا گیا، پہلے ہی یہ کام کر لیا ہوتا، کپتان کو کریڈٹ ملنے سے پہلے۔ کوئی دانا مشیر وزیر اعظم کو میسر نہیں، ہاںنااہل خوشامدی بہت ہیں، جن کا فن ہی خوشامد ہے، اور یہی اُن کی روزی روٹی کا ذریعہ۔ بہرحال دیر آید، اور کسی حد تک درست آید۔ کمیشن کا مطالبہ تو پورا ہوا، لیکن ٹرمز آف ریفرنس؟ کام کرنے کے قواعد و ضوابط؟ کیا یہ اچھا نہ ہوتا کہ اس پر بھی اپوزیشن کو اعتماد میں لیا جاتا، اُس کی پوری تسلی کے لیے۔ قواعد کے مطابق، کمیشن کو صرف پاناما لیکس کا نہیں، بینکوں کے قرضوں کی لوٹ کھسوٹ کا کھوج بھی لگانا ہے، جو کم سے کم پچیس برس جاری رہی، ایک دو نہیں، سیکڑوں نے مل کر لُوٹا، جس کا جتنا دائو لگ سکا۔ سیکڑوں چوروں، اور پچیس برس کی چوری کا کھوج لگانے کے لیے، پچیس ماہ تو کم سے کم درکار ہیں۔ اور بھی کئی ایسے سراغ، کمیشن کو لگانے ہیں، کہ دنیا بھر کے جیمز بانڈز بھی اگرکمیشن کو مل جائیں، تب بھی کم سے کم، اِس صدی میں تو کوئی فیصلہ نہیں ہو پائے گا۔
وزیر اعظم نے دل کی بھڑاس بہت نکالی، قوم سے خطاب میں، شکوے کیے اور شکایتیں، سوال پوچھے اور جواب مانگے۔ کچھ محض جذباتی رو میں، اور چند دلیل کے ساتھ۔ بجا کہ وہ منتخب وزیر اعظم تھے، جب ان کا تختہ الٹا گیا، غیر آئینی طریقے سے۔ یہ بھی درست کہ اُس آمر کا احتساب نہ ہو سکا، جس نے اپنے اقتدار کے لیے ملک وقوم کو بدامنی کی آگ میں جھونک دیا، غیرملکی آقا کی صرف ایک ٹیلی فون کال پر اُس کی خوشنودی کے لیے۔ عدلیہ پر شب خون مارا اور ججوں کو گرفتار بھی کیا۔ ایک طویل فہرست ہے، اُس کے کارناموں کی، جو ہر خاص و عام جانتا ہے، لیکن وزیر اعظم کے خطاب کا موضوع، یہ نہیں، صرف پاناما لیکس اور عدالتی کمیشن ہونا چاہیے تھا۔ کپتان پر، نام لیے بغیر، سازش کا الزام وزیر اعظم نے لگایا اور بازاری زبان استعمال کرنے کا بھی۔ ہاں جاننے والے جانتے ہیں، پچھلے پُراسرار دھرنے کا مقصد کیا تھا، ایک نوزائیدہ جمہوری حکومت کے خلاف سازش، لیکن اب تو معاملہ یکسر مختلف ہے، کہ پاناما لیکس ہرگز کپتان کی کارستانی نہیں۔ کوئی غیر آئینی، یا غیر قانونی مطالبہ اُس نے اِس بار نہیں کیا۔
ماضی میں نہیں، وزیر اعظم کو حال میں جینے کا ہنر سیکھنا ہے۔ محض پچھلا وقت یاد کرنے، اور یاد کرانے کے بجائے، بروقت
فیصلے اُنہیں کرنا ہیں۔ پیپلز پارٹی کی خفیہ حمایت پر انحصار سنگین غلطی ہے، دُہرا کھیل وہ حکومت کے ساتھ کھیل رہی ہے، انگریزی محاورے کے مطابق، اچھے اور برے پولیس والے کا کھیل۔ اعتزاز احسن اور خورشید شاہ کے ذریعے۔ اعتزاز احسن کا کام مارنا ہے، اور خورشید شاہ کا سہلانا۔ محض سیاسی سودے بازی کے لیے، کہ سودے بازی کا کوئی موقع پیپلز پارٹی ہاتھ سے جانے نہیں دیتی، وہ پیپلز پارٹی، جو اب شہید بے نظیر کے نام سے نہیں، کسی اور کے نام سے جانی جاتی ہے۔ سیاست دان کم، اور سیاسی سوداگر زیادہ، اب اس جماعت میں پائے جاتے ہیں۔ پارلیمانی کمیٹی بنانے کی افلاطونی تجویز بھی، پیپلز پارٹی نے دی، اور یہ اُمید بھی اُسی سے کی جا سکتی تھی، تاکہ کمیٹی حکومت کو بلیک میل کرے، مال بٹورے، اور فائدے بھی؟ کُڑھتے کپتان نے سو فیصد درست کہا، کہ پہلے کسی پارلیمانی پارٹی نے کون سا تیر مارا ہے؟
عدالتی کمیشن کا مطالبہ، وزیر اعظم نے پورا کر دیا، لیکن اس کے قواعد و ضوابط سے اپوزیشن، خاص طور پر کپتان کا متفق ہونا، ناممکن ہے۔ سپریم کورٹ خود بھی، ان قواعد و ضوابط کے ساتھ، اتنا بڑا بوجھ اُٹھانے سے معذرت کر سکتی ہے۔ بڑے دل کے ساتھ، وزیر اعظم ایک اور بڑا کام کر سکتے ہیں۔ کمیشن کے قواعد و ضوابط پر اپوزیشن سے دوبارہ مشاورت، اگر اتفاق رائے سے قواعد و ضوابط طے کر لیے جائیں، تو سیاسی محاذ آرائی کا جواز دم توڑ جائے گا۔ پھر بھی کوئی مہم جوئی، اگر کسی نے کی، تو اُسے ہرگز پذیرائی نہیں ملے گی۔ مبینہ دھاندلی پر بنے عدالتی کمیشن نے وزیر اعظم کو سُرخرو کیا، اگر پاناما لیکس میں بھی وزیر اعظم کے ہاتھ صاف ہیں، تو وہ پھر سُرخرو ہو جائیں گے، اِس بات پر انہیں پورا یقین رکھنا چاہیے۔
راولپنڈی سے گزشتہ دنوں جو پیغام دیا گیا، اُسے غور سے پڑھنے، اور سمجھنے کی ضرورت ہے، فی الحال صورت حال قابو میں ہے، فی الحال۔ لیکن حالات بگڑنے یا بگاڑنے میں دیر ہی کتنی لگتی ہے؟ اس کا اندازہ، وزیر اعظم کو پچھلے دھرنے میں ہو گیا ہو گا۔ کہنے والے کہتے ہیں، کہ گزشتہ ایک ہفتے کے حالات و واقعات، اور پنڈی سے جاری کیا گیا اہم بیان، حکومت کے لیے وارننگ ہے۔ ملک کے اہم معاملات کس کے ہاتھ میں ہیں، اور بڑے فیصلے کہاں ہو رہے ہیں، یہ کوئی راز نہیں۔ پاناما لیکس کی شفاف تحقیقات نہ ہوئیں، تو ماضی کے برعکس، اس بار، حکومت کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے لیے، ٹھوس جواز پیدا ہو سکتا ہے۔ محاذ آرائی سے حکومت کو بچنا ہے، اپوزیشن سے اور خاص طور پر اداروں سے، کہ آمروں کے ہاتھوں بار بار لُٹتی، اور سیاستدانوں کی کرپشن سے لتھڑی جمہوریت، ابھی اتنی توانا نہیں، کہ مکمل طور پر بالادست ہو سکے۔