پردے کے پیچھے

پاناما کی تحقیقات کا ڈرامہ، لمحہ لمحہ بدلتے کردار، اصلی چہروں پر نقلی چہرے سجائے فن کار نما سیاست دان، اصل کھیل پردے کے پیچھے جاری ہے۔ وہ کھیل جس کے کئی ہدایت کار ہیں اورہرکوئی اپنے انداز سے، اپنے مفاد کے لیے، اپنے اسکرپٹ کے مطابق اپنے سیاسی فن کاروں سے فن کاریاں کروا رہا ہے۔ 
اصولی طور پر اِس کھیل کا مرکزی کردار کپتان کو ہونا چاہیے تھا۔ اِس کھیل کوآگے لے جانا، ہر موڑ پر اسے دلچسپ بنانا اور پھر منطقی انجام کی طرف بڑھانا، یہ سب کپتان نے کرنا تھا، لیکن دوسروں کی کمال ہوشیاری اورکپتان کے اپنے مشکوک کھلاڑی کی فنکاری سے کھیل کا مرکزی کردار پیچھے دھکیل دیا گیا اورثانوی کردارغالب آگئے۔ کھیل بے جان اورپھیکا ہو گیا۔ عوام جو ناظرین ہیں، کھیل میں دلچسپی کھونے لگے اور اب یہ کھیل پِٹ جائے گا۔ ہاں اگر سب سے جاندار اسکرپٹ لکھنے والوں اور سب سے ماہر ہدایت کاروں نے کوئی اور فیصلہ کر لیا تو الگ بات ہے۔
عمران خان نے خود کوکامیاب کپتان، لیکن ناکام سیاست دان ثابت کر دیا۔ جتنی ذہانت سے اس نے کرکٹ میں فیصلے کیے، اس سے آدھے بھی اگر وہ سیاست میں کر پاتا تو آج صورت حال یکسر مختلف ہوتی۔ کپتان کے سِوا کسی اورکو پاناما لیکس کی تحقیقات میں کوئی دلچسپی نہیں، یہ بات خود کپتان سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔ پھر بھی غیر ضروری طورپر، نام نہاد اپوزیشن پر اندھا اعتماد اُس نے کیا اورپورا کھیل پیپلزپارٹی کے ہاتھ میں آگیا۔ اب وہ اپنی مرضی سے ڈوریاں ہلا رہی ہے اوران ڈوریوں پرکٹھ پتلی کی 
طرح ناچنے کے سِوا تحریک انصاف کے پاس کوئی چارہ نہیں۔ وہ منظر کپتان کوبرسوں بُھلائے نہیں بھولے گا، جب وہ پارلیمنٹ میں خورشید شاہ کے پیچھے، تیسرے درجے کے سیاستدان کی طرح، بے بس کھڑا تھا۔۔۔۔ وہ خورشید شاہ جن کے بارے میں کپتان کے فرمودات آج بھی ذہنوں میں تازہ ہیں۔ ایسا عجیب کرب کپتان کے چہرے سے چھلک رہا تھا کہ شاید ہی اِس سے پہلے کسی نے اُسے اتنی ذہنی اذیت میں دیکھا ہو۔
پاناما لیکس کی تحقیقا ت کے لیے تحریک انصاف کی تحریک سے کھلواڑ شروع ہو چکا۔ ابھی تو شروعات ہیں ، آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔ عدالتی کمیشن کے قواعد ضوابط طے کرنے کے لیے کمیٹی بن چکی۔ بظاہراِس کمیٹی میں چھ ارکان حکومت کے اورچھ ہی اپوزیشن کے ہیں، لیکن جاننے والے جانتے ہیںکہ دراصل اس کمیٹی میں ساڑھے نو ارکان حکومت کے، ایک ایک جماعت اسلامی اورق لیگ کا اورصرف آدھا رکن تحریک انصاف کا ہے، وہ رکن جو آج کل وکٹ کے دونوں طرف کھیل رہا ہے۔ نام نہاد اپوزیشن کے تین ارکان کا تعلق پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم اور اے این پی سے ہے۔کیسی ستم ظریفی ہے کہ اب یہ جماعتیں احتساب کے قواعد وضوابط طے کریںگی؟ وہ پیپلزپارٹی جس کے کارناموں کی گونج نیب، عدالتوں، ایف آئی اے اور سوئس بینکوںکے درودیوار میں سنائی دیتی ہے؛ کرپشن میں لُتھڑی وہ اے این پی جس کے وزیراعلی کو بے مثال کارستانیوں پر ایزی لوڈ کے خطاب سے نوازا گیا اور وہ ایم کیو ایم جس کا دامن بھتہ خوری، تاوان، منی لانڈرنگ، قربانی کی کھالیں ہتھیانے اور فطرے کی رقم ہضم کرنے سمیت ان گنت بدعنوانیوں سے آلودہ ہے۔ اس سے بڑا مذاق قوم سے کیا ہو سکتا ہے؟
کپتان کے ساتھ ہاتھ ہو چُکا اور اُسے اِس بات کا احساس بھی ہے۔ قومی اسمبلی میں وزیراعظم کے سامنے اُن سے سوال جواب کرنے کو وہ بے تاب نظر آتا تھا، لیکن یہ سُنہری موقع اُس نے گنوا دیا، اپوزیشن اور اپنے ہی ایک کھلاڑی کے ہاتھوں یرغمال بن کر۔کپتان ہمیشہ سے ایسا ہی ہے، وہ غلطیاں زیادہ کرتا ہے، سیکھتا کم ہے،کُڑھتا زیاد ہ ہے، غورکم کرتا ہے۔ معاملہ سات سوالوں کا تھا، خورشید شاہ نے اپنی پٹاری سے ستر سوال نکال لیے اورکپتان کے نادان کھلاڑی اس پر بغلیں بجانے لگے۔ ان کی عقل پر دنیا بھر کے سیاست دان مل کر بھی ماتم کریں تو کم ہے۔ ان کی ذہانت اور بصیرت 
کا معیار دیکھ کر بڑوں بڑوں کی افلاطونیت شرما گئی ہوگی۔ اب سات کے بجائے ستر سوالوں کے جواب ڈھونڈنے کے لیے ٹی اوآرز بنیں گے۔ اِن کی تیاری میں کتنا وقت لگے گا؟ اور ضابطہ کار طے ہونے کے بعد ان سوالات کے جوابات تلاش کرنے کے لیے کتناعرصہ درکار ہوگا؟ یعنی بات وہی چیف جسٹس والی ہو گئی، انہوں نے لمبے چوڑے حکومتی ٹی اوآرزمسترد کیے کہ تحقیقات میں کئی برس لگ جائیں گے۔ ویسے ہی وسیع وعریض ٹی اوآرز اب اپوزیشن بنائے گی۔ نہ نومن تیل ہو گا، نہ رادھا ناچے گی۔
کہنے والے کہتے ہیں کہ سیاسی گرما گرمی کے جواب میں وزیراعظم کا عوامی جلسے کرنا درست فیصلہ ہے۔ حکومت مخالف سیاسی تحریکوں کو انتقامی کارروائیوں، گرفتاریوںاور تشدد سے کچلنے کے بجائے عوام اور اپنے کارکنوں سے رجوع کرنا ہی جمہوریت ہے۔ کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ وزیراعظم کی مولانا فضل الرحمان سے اچانک قربت، فائدے کے بجائے نقصان دہ ہوسکتی ہے۔ موقع پرستی، شفافیت اور سیاسی مفادات کے حوالے سے مولاناصاحب کاریکارڈ قابل رشک نہیں، اُن کی وزیراعظم سے جادوئی سنگت، شکوک وشہبات بڑھا سکتی ہے۔ وہ وزیراعظم پرصدقے واری کیوں جا رہے ہیں؟ یہ کوئی الجبرے کا سوال نہیں۔
پاناما لیکس کی صورت میں حکومت کی حلیف اورحریف جماعتوں کا پرائز بانڈ نکل آیا ہے، جسے کیش کرانے کو وہ بے تاب ہیں ۔ پردے کے پیچھے محض سیاسی سودا بازی کا کھیل جاری ہے، ہرکوئی اپنے دائوپیچ لڑا رہا ہے کہ جتنا سمیٹ سکتا ہے سمیٹ لے۔
کچھ روز پہلے تک پسپا ہوتی حکومت اب ا س کھیل میںحاوی ہوتی نظر آرہی ہے۔ اس کھیل میں کوئی ڈرامائی موڑ آنے کا فی الحال امکان نہیں۔ فی الحال صورت حال قدرے قابو میں ہے، بس وزیراعظم کو چوری کھانے والے میاں مٹھووں سے بچنا ہے، انہی نادان مشیروں نے پہلے ریٹائرڈ ججوں کا کمیشن بنانے کا مشورہ دیا اورپھر ایسے ٹی اوآرزچیف جسٹس کو بجھوا دیے جن کا مستر د ہونا سوفیصد یقینی تھا۔ اخلاقی طور پر بھی حکومت پسپا ہوئی اورسیاسی طورپر بھی۔ ایسے ہی مشیر ڈٹ جانے کا مشورہ دیتے ہیں اورڈٹ جانے کے بعد پیچھے مُڑ کر دیکھو تو اپنا سایہ بھی ساتھ چھوڑ چکا ہوتا ہے۔ پچھلے دھرنے میں ڈٹ جانے کا سیاسی جواز بھی تھا اور اخلاقی بھی، لیکن اب کِس بات پر ڈٹ جائیں؟ صرف شفاف تحقیقات سے ہی وزیراعظم کی ساکھ پر لگے داغ دھل سکتے ہیں۔ کھیل ابھی مکمل طور پرختم نہیں ہوا کیونکہ پردے کے پیچھے کمال مہارت سے کھیل کھیلنے والے اور بھی ہیں جو فی الحال خود تو براہ راست اس کھیل میں حصہ نہیں لے رہے، لیکن اس کھیل کو بڑے غور سے دیکھ ضرور رہے ہیں۔ جس دن انہوں نے کھیلنے کا فیصلہ کر لیا، سارا کھیل پلک جھپکنے میں ختم ہو جائے گا۔ پھر نیا کھیل شروع ہو سکتاہے جو برسوں جاری رہے گا، ایسا کھیل جس میں سیاستدانوں کاکوئی کردار نہیں ہوگا۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں