دُہرا کھیل

تھپڑوں سے منہ لال ، مار کھا کھا کر نڈھال، پِھر بھی وہی تکرار، اب کے مار کے دِکھا، ہمیشہ کی طرح،مُلا منصورپر ڈرون حملے کے بعد بھی ، ہمارایہی ردعمل ہے۔ہم نے سیکھا، نہ کِسی نے سکھایا ، کہ ایسی صورت حال میں صرف زبان نہیں، ہاتھ بھی چلانا پڑتے ہیں۔بجا کہ مارنے والا انتہائی طاقتور، اورہم کمزورہیں، لیکن پھر بھی دس تھپڑوں کے جواب میں، ایک تھپڑ بھی آپ رسید کر دیں ، تومارنے والا، اگلی بارآپ کو تھپڑ مارنے سے پہلے دس بار توسوچے گا۔جب کوئی بڑا ملک جارحیت کرے، اور جوابی حملے کی سکت نہ ہو، تب بھی دفاع، خودمختاری اور قومی وقار کے نام پربراہ راست نہ سہی، دائیں بائیںاورآگے پیچھے سے ، جوابی تھپڑوں سے چھکے چھڑائے جا سکتے ہیں ،لیکن اس کے لیے عقل وحکمت چاہیے، اورحِکمت کا ہم سے کیا لینا دینا؟ہماری زبانیں جتنی لمبی ہیں، عقلیںاتنی ہی چھوٹی ہیں، دنیا میں باتوں کے سب سے زیادہ شیر، کہیں اورنہیں، پاکستان میں پائے جاتے ہیں۔
وزیرداخلہ حیران پریشان ہیں، کہ ملا منصور دیس دیس ، نگر نگر گھومتا رہا، لیکن اسے پاکستان میں ہی نشانہ کیوں بنایا گیا۔ذراسا اگرغورفرمائیں، تو اِس کا جواب سوال کے اندر ہی چُھپاہے۔ ایرانی سرزمین پر اگریہ حملہ ہوتا، تو زبانی کلامی مذمتوں کے بجائے، کہیں نہ کہیں سے، کسی نہ کسی طرح،عملی طورپر حساب چُکادیا جاتا،اوریہ بات امریکہ سے بہتر کوئی نہیں جانتا، جو ہر چال، سوچ سمجھ کر چلتا ہے۔دسمبر2011ء کا وہ واقعہ امریکہ کو کہاں بھولا ہو گا، جب اس کا ایک ڈرون ایران کی فضائی حدود میں جا گھسا، اور اسے باآسانی پلک جھپکتے نیچے اتار لیا گیا۔پہلے پہل امریکہ انکاری رہا کہ یہ اس کا ڈرون تھا، پھر چار و ناچار سرکاری سطح پر اعتراف کر لیاکہ وہ ڈرون امریکی ہی تھا۔ ایران نے اس کے جواب میں امریکی فضائوں میں اپنے جہاز گھسانے کی حماقت تو نہیں کی ، لیکن گھما پھرا کرامریکی اعصاب پر، ایسے کاری کچوکے ضرور لگائے کہ وہ دوبارہ ایسا کرنے سے پہلے ہزار بار سوچے ۔ ایران صرف پانچ روز کے اندر، اس معاملے کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں لے گیا، اوراسے بلااشتعال کھلی جارحیت قراردے دیا۔ اس کے تین دن بعد، امریکہ نے ایران سے مودبانہ درخواست کی کہ اس کا ڈرون واپس کر دیا جائے ۔بِلا تاخیر اگلے ہی روز اس درخواست کا باضابطہ جواب ایرانی وزیردفاع نے یوں دیا ''ایرانی قوم سے معافی مانگنے کے بجائے ، امریکہ کی جانب سے ڈرون واپس کرنے کی درخواست شرمناک ہے، ہم اس درخواست کو مسترد کرتے ہیں‘‘۔ایران نے معاملہ یہاں ختم نہیں کیا اور علی الاعلان کہا کہ وہ اس جدیدترین ڈرون کی ٹیکنالوجی کی نقل کر کے اپنے ڈرونزبنائے گا، جس پر امریکہ بہت تلملایا ۔امریکی عزت نفس کو مزید مجروح کرنے کے لیے، ایران نے اپنی ایک بڑی کمپنی سے یہ اعلان کروا دیا کہ اگر صدراوباما کو اس ڈرون سے بہت عشق ہے تو وہ گلابی رنگ کا ایک کھلونا ڈرون بنا کر، انہیں یادگاری تحفے کے طورپر بجھوا ئے گی ۔مئی2014ء میں ، ایران نے امریکی ٹیکنالوجی کی طرز پر اپنا ڈرون بنانے اوراسی سال نومبر میں اس کی کامیاب آزمائشی پرواز کا باضابطہ اعلان کیا۔ صرف یہی نہیں، امریکہ کو ذہنی اذیت دینے کے لیے، ایران نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ اس ٹیکنالوجی کی معلومات لینے کے لیے روس اورچین اس کے ساتھ رابطے میں ہیں، جس پر امریکہ کی سول اورفوجی انتظامیہ کی نیندیں حرام ہوگئیں ۔یہ سب کچھ ، اُس ملک نے کیا ، جس کی معاشی طاقت، عسکری قوت اور ٹیکنالوجی کامعیار، پاکستان سے کئی درجے کم ہے ۔اگر وزیرداخلہ، اس واقعہ کی تفصیل ایک بارپڑھ لیں، تو انہیں اس سوال کاجواب ضرور مل جائے گا کہ ملا منصور کو پاکستان میں ہی نشانہ کیوں بنایا گیا۔
ملا منصورپر حملے کے بعد، وہی گھساپٹا راگ ، ایک بارپھر ہم الاپ رہے ہیں، کہ اس واقعہ سے پاک امریکہ تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں، واقعی ؟ جیسے پہلے توپاکستان اورامریکہ کے تعلقات اُن لنگوٹیوں جیسے تھے، جو ایک دوسرے پر مرمٹنے کو تیار رہتے ہیں ۔آقا اورغلام کے تعلقات بھی متاثر ہوا کرتے ہیں ؟ آقا کی پالیسی یہ ہے کہ دہشت گرد چاہے دنیا بھر میں گھومتے پھریں، علاج کروائیں، جائیدادیں بنائیں، لیکن انہیں نشانہ پاکستان کی سرزمین پر ہی بنایا جائے گا۔وہ پاکستان جس کے ہر حکمران نے آقا کی جی بھر کر خدمت کی ۔پرویز مشرف نے تو حد ہی کر ڈالی اورآقا کی خوشنودی کے لیے پوری قوم کو جنگ میں دھکیل دیا، وہ پرائی جنگ جو ساٹھ ہزار معصوم پاکستانیوں کو نگل گئی ، اور اب ہماری جنگ بن چکی ہے، ایسی جنگ جوہمیں ہرصورت لڑنی اورجیتنی ہے ۔ایک بارآقا نے اپنے شہری ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کی قیمت، لگ بھگ اٹھارہ کروڑ روپے لگائی تھی، اگر ہم غلاموں کی جان کی قیمت تین گنا کم بھی ہو تو چھ کروڑ روپے کے حساب سے ساٹھ ہزار پاکستانیوں کی زندگی کی قیمت کتنی ہو نی چاہیے؟اور دہشت گردی سے جو ایک سو دس ارب ڈالر کا مالی نقصان ہوا وہ الگ، بدلے میں آقا سے امداد کتنی ملی ؟ کوئی حساب کتاب لگائے گا؟پھر بھی ، ہر دم ، ہر وقت ،ہم آقا کے احسان مند ہیں۔
دوسری جانب یہ دہشت گرد بھی عجیب ہیں، پوری دنیا میں چھپتے چھپاتے ہیں لیکن پاکستان میں آتے ہی مارے جاتے ہیں،اپنی جان گنواتے ہیں، اورہمارے پول بھی کھلواتے ہیں ۔کیسی بے بسی ہے، ہم دہشت گردوں کوپاکستانی حدود میں آنے سے روک سکتے ہیں، نہ امریکی ڈرونز کو۔پوچھنے والے پوچھتے ہیں، کہ جب ڈرونز بلوچستان کی حدود میں داخل ہوئے، تو ہمارافضائی نگرانی کا نظام کہاں تھا ؟ایک مرتبہ ایک پاکستانی عہد۔ے دار نے کہا تھا کہ ہم ڈرونز کو مکھیوں کی طرح مار سکتے ہیں، لیکن فی الحال توہم صرف مکھیاں ہی مار رہے ہیں، کیونکہ ہم آقا کے ساتھ ایسے رشتے میں بندھ چکے ہیں، جس نے ہمارے ہاتھ باندھ رکھے ہیں ۔ فضائی نگرانی کا نظام توایک طرف،ہمارے زمینی نظام کاپول بھی کھل گیا، یہ تو بھلا ہو آقا کا کہ اس نے واردات کے سات گھنٹے بعد ہمیں مطلع کر دیا، ورنہ شایدسات دن بھی ہمیں پتا نہ چلتا ،اورہم اسے سی این جی سلنڈرکادھماکا سمجھ کر ،ٹی وی پردوتازہ ترین ٹِکر اوردوسطری خبر چلاتے اور بھول جاتے ۔
دُہرا کھیل ختم کیے بغیر، دہشت گردی ختم نہیں ہوسکتی، یہ بات پاکستان، افغانستان اورامریکہ تینوں جانتے ہیں، لیکن تینوں ایک دوسرے پر دہراکھیل کھیلنے کے الزامات لگاتے ہیں۔جاننے والے جانتے ہیں، کہ پچھلے دو برس میں پاکستان نے دہرے کھیل کم ، دوسرے فریقوں نے زیادہ کھیلے۔اپنے ہی نہیں، پرائے بھی مانتے ہیں کہ پاک فوج نے دہشت گردوں کے خلاف جو کچھ کیا، افغانستان میں تیس سے زائد ملکوں کی فوج مل کر بھی نہ کرپائی۔اتنی کوششوں اورقربانیوں کے باوجود، ڈومور کا مطالبہ پاکستان کو ہی سننا پڑتا ہے۔ شاید ان دہشت گردوں کی وجہ سے، جو پاکستان سے برآمد ہو جاتے ہیں،اورپھر یہ الزام لگتا ہے کہ انہوں نے پاکستان میں پناہ لی نہیں ، انہیں پناہ دی گئی ۔ امریکہ اورافغانستان اگرچہ اپنی کارستانیوں پرغورکم ہی کرتے ہیں۔سرحدپار،پاکستان میں تووہ ٹھیک ٹھیک نشانے لگاتے ہیں ، لیکن افغانستان میں بیٹھے پاکستان دشمن دہشت گرد وں کو سرآنکھوں پر بٹھاتے ہیں ۔ دہشت گرد ہمیشہ صرف دہشت گرد ہوتا ہے، وہ کبھی ہمارایا تمہارا دہشت گرد نہیں ہوسکتا،اوراس کا تجربہ پاکستان اورامریکہ دونوں کرچکے۔پھر بھی دہرا کھیل جاری ہے ، اوریہ دہرا کھیل دُہری بربادی لائے گا، پاکستان اورافغانستان کے لیے ۔امریکہ کا کیاجاتا ہے، اپنا مفاد نکالنے کے بعد ، جیسے وہ عراق اورلیبیا سے نکل گیا، اِس خطے سے بھی نکل جائے گا، اور جلنے مرنے کے لئے صرف پاکستانی اورافغانی رہ جائیں گے۔ 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں