پاکستان کے خلاف مکروہ کھیل

نیا کھیل، پرانے کھلاڑی، چالاک چالباز، مکروہ چالیں، وہ چالیں جو دشمن ہی نہیں، نام نہاد دوست بھی چل رہے ہیں، پاکستان کو مکمل تباہی سے دوچار کرنے کے لیے، کیا ہم ان چالوں کو سمجھ رہے ہیں؟ یا ہم میں ان چالوں کو سمجھنے کی صلاحیت ہے؟ یا سب کچھ جانتے بوجھتے بھی انجان بنے ہوئے ہیں؟ شطرنج نہیں، ہم سٹیج کے کھلاڑی ہیں، جگت بازی ہمارا قومی کھیل ہے اور یہ کھیل کھیلنے والوں میں وہ وزیر بھی شامل ہیں، جنہیں جگتیں لگانے کا نہیں، دفاعی پالیسیاں بنانے کا ماہر ہونا چاہیے۔
گزشتہ چند ہفتے کے واقعات، کڑی سے کڑی ملائی جائے تو اصل تصویر ابھرنے لگتی ہے۔ امریکہ کا پاکستان کو ایف سولہ طیاروں کی فراہمی سے انکار، ملا منصور پر ایران کے بجائے پاکستان میں ڈرون حملہ، گوادر کے مقابلے میں ایرانی بندرگاہ چاہ بہار میں بھارت کی پچاس ارب روپے کی سرمایہ کاری، نریندر مودی کو امریکی کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کا اعزاز بخشنا، بھارت کو نیوکلیئر سپلائرز گروپ کا رکن بنوانے کے لیے امریکہ کی سرتوڑ کوششیں، پاکستان میں چینی ماہرین پر حملوں کی نئی لہر اور طورخم سرحد پر افغانستان کی جارحیت۔ منصوبہ واضح ہے، پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنا، پاک چین اقتصادی راہداری کو سبوتاژ کرنا، امریکہ کی بالادستی قائم رکھنے کے لیے، بھارت کو چین کے سامنے کھڑا کرنا، اور بھارت کو رام کرنے کے لیے پاکستان کو قربانی کا بکرا بنانا، یہ مشترکہ مفادات کا گھنائونا کھیل ہے، اور اسے سمجھنے کے لیے افلاطونی ذہانت درکار نہیں۔
پاک چین اقتصادی راہداری کی مخالفت، بھارت کئی بار کر چکا، اور امریکہ کو بھی یہ منصوبہ کھٹکتا ہے۔ اس منصوبے سے، خطے میں چین کا اثر و رسوخ بڑھے گا اور اس کی اقتصادی طاقت بھی، اور یہ امریکہ کے 
لیے قابل قبول ہے نہ بھارت کے لیے۔ راہداری منصوبہ پاکستان کی معاشی تقدیر بدل سکتا ہے، یہ بات بھارت بھی جانتا ہے، اسی لیے وہ بہت تلملا رہا ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں، اس منصوبے کو ناکام بنانے کی منصوبہ بندی ہو چکی، پاکستان میں عدم استحکام پھیلا کر۔ چین بھی صورت حال بھانپ چکا، پاکستان میں اس کے اربوں ڈالر، اور اقتصادی سپرپاور بننے کی منصوبے دائو پر لگے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں حالیہ ڈرون حملے کے خلاف، چین کا غیرمعمولی بیان، غیرمعمولی حالات اور غیرمعمولی صورت حال کا پتا دیتا ہے۔
چاہ بہار بندرگاہ پر بھارت کی بھاری سرمایہ کاری بھی، بہت سوں کے لیے پُراسرار ہے۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ تجارتی اور معاشی لحاظ سے، یہ گھاٹے کا سودا ہے، اسی لیے برسہا برس سے بھارت، اس منصوبے پر عملدرآمد سے ہچکچاتا رہا۔ چاہ بہار پر سرمایہ کاری کا بنیادی مقصد، تجارتی نہیں، دفاعی اور سٹر یٹجک اڈا قائم کرنا ہے، ایران میں ایسا اڈا، جہاں سے بھارت براہ راست افغانستان پر اثر انداز ہو سکے، اور افغانستان کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان پر بھی۔ اسی اڈے سے چینی بحریہ کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کا منصوبہ بھی ہے ۔ 
بھارتی وزیر اعظم کا حالیہ دورہ امریکہ بھی چونکا دینے والا تھا۔ وہ نریندر مودی جن کے ہاتھ گجرات فسادات میں مسلمانوں کے لہو سے رنگے ہیں، جن پر وزیر اعظم بننے سے پہلے، امریکہ میں داخلے پر پابندی تھی، انہی کو کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کی دعوت دی گئی۔ ان کے خطاب پر ، ارکانِ کانگریس کھڑے ہو کر تالیاں بجاتے رہے، اور تو اور اُس وقت بھی، جب مودی صاحب مذہبی آزادی، اظہار رائے اور مساوات پر یقین رکھنے کا بھاشن دے رہے تھے۔ سادہ لوح حیران ہیں کہ یہ کیسا دوغلا پن ہے؟ دوغلا پن نہیں، یہی سفارت کاری ہے، اور سفارت کاری ہمیشہ مفادات کا کھیل ہوا کرتی ہے، اخلاقیات کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔ امریکہ نے پاکستان کے شدید تحفظات کے باوجود، نیوکلیئر سپلائرز گروپ کی رکنیت کے لیے بھارت کی غیر مشروط حمایت کا اعلان کیا، بھارت کے ساتھ مل کر چھ ایٹمی ری ایکٹرزکی تعمیر کا معاہدہ ہوا‘ اور بھارت کو ''میزائل ٹیکنالوجی کنٹرول رجیم ...‘‘ کا رکن بھی بنوا دیا۔ اس گروپ میں شمولیت کے بعد، بھارت جدید ٹیکنالوجی سے لیس میزائل اور امریکی ڈرونز خریدنے کا اہل بھی ہو گیا ہے۔
بھارتی استعمار کی عیاریوں کو امریکیوں سے بہتر کوئی نہیں جانتا، پھر بھی امریکہ بھارت پر مہربان ہے۔ 1971ء میں جب بھارت نے، خلافِ توقع، خلاف وعدہ اور خلاف ضابطہ اپنی فوج مشرقی 
پاکستان میں اتاری تو امریکی حکومت حیران پریشان رہ گئی۔ سابق امریکی صدر نِکسن نے ایک سرکاری میٹنگ میں بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے لیے ڈھیٹ، دغاباز کتیا کا لفظ استعمال کیا۔ اسی میٹنگ میں امریکی نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر ہنری کسنجر نے بھارتی استعمار کی سوچ کو، تخریب کار حرام زادوں کی سوچ قرار دیا تھا۔ یہ سب تاریخ کا حصہ ہے، اور اس سے جڑی مصدقہ دستاویزات منظرعام پر آ چکیں۔ زمانہ بدلا تو امریکہ نے بھی آنکھیں بدل لیں۔ وقت کا سکہ اب بھارت کے ہاتھ میں ہے، کیونکہ امریکہ کے مفادات، بھارت سے جڑ چکے۔ پاکستان نے امریکہ کے لیے دو جنگیں لڑیں، پہلی سوویت یونین کے خلاف‘ اور دوسری دہشت گردوں کے خلاف، وہ دہشت گرد جنہوں نے پاکستان پر نہیں، امریکہ پر حملہ کیا تھا۔ اس حملے کی منصوبہ بندی پاکستان میں ہوئی، نہ ہمارے ریاستی یا غیرریاستی عناصر اس میں ملوث تھے۔ اس کے باوجود ہم امریکی جنگ میں کود گئے۔ ہمارے ساٹھ ہزار شہری شہید ہوئے اور معیشت تباہ ہو کر رہ گئی۔ ان دونوں جنگوں نے پاکستان میں بارود کے ایسے بیج بوئے کہ ہم برسوں سے جھلسی لاشیں اٹھا رہے ہیں۔ ہم آج بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں کیونکہ اب یہ ہماری جنگ بن چکی۔ اتنی قربانیوں کا صلہ کیا ملا؟ یہ کہ امریکہ اپنی بالادستی کے لیے بھارت کے ساتھ پاکستان کا سودا کر رہا ہے۔ پوچھنے والے پوچھتے ہیں، دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں بھارت نے رتی برابر بھی کوئی کردار ادا کیا؟ کتنے فوجی دہشت گردوں سے لڑنے کے لیے بھارت نے افغانستان بھیجے؟ کسی زمینی، ہوائی یا سمندری راستے سے امریکہ کی مدد کی؟ کبھی حساس معلومات کا تبادلہ کیا؟ نہیں، کبھی نہیں۔ اس کی تصدیق نئی دلی میں امریکی سفارت خانے کے ایک مراسلے میں بھی کی گئی، وہ مراسلہ جس میں بتایا گیا کہ بھارت دہشت گردی کے خلاف تعاون کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔ 
پاکستان کو درپیش اصل چیلنج کیا ہے؟ بھارتی و امریکی استعمار اور ان کے پٹھوئوں کی چالیں؟ نہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں صورت حال کا ادراک ہی نہیں۔ عالمی بساط پر، دشمن اور دشمنوں کے دوست مل کر، چالیں چلا ہی کرتے ہیں ۔ آپ نے ان چالوں کو سمجھنا اور بروقت جوابی چال چلنا ہوتی ہے۔ اب تک زبانی کلامی بیانات کے سوا، عملی طور پر ہم نے کچھ کیا؟ کوئی قومی حکمت عملی ہم نے بنائی‘ نہ ہی بنانے کا ارادہ نظر آتا ہے۔ کیا ہماری خارجہ پالیسی کا کوئی وجود ہے؟ دوست ممالک اور قدرتی حلیفوں کو ہم نے اعتماد میں لیا؟ امریکہ اور بھارت کے حریف ملکوں کو ہم نے ٹٹولا؟ کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر کسی سودا بازی کی کوشش کی؟ دانشوروں کا قومی سطح پر کوئی تھِنک ٹینک ہم نے بنایا؟ کیا ہماری سول اورعسکری قیادت، واقعی ایک صفحے پر ہے؟ ہمارے دفتر خارجہ کا بنیادی ستون سرتاج عزیز، ستاسی برس کی عمر میں، ذہنی اور جسمانی طور پر کتنے مستعد ہو سکتے ہیں؟ دفتر خارجہ میں ویسے بھی دو بڑوں کے درمیان بالادستی کی جنگ جاری ہے۔ صرف غیر نہیں، ہم خود بھی اپنے بہت بڑے دشمن ہیں۔ پاک چین اقتصادی راہداری سے، ہماری بقا اورسلامتی جڑی ہے، پھر بھی ہم اسے سیاست کے لیے استعمال کرنے سے باز آتے ہیں، نہ متنازع بنانے سے۔ دشمنوں کی چالوں سے نمٹنا تو دور کی بات، ہمیں اپنی چالوں سے ہی فرصت نہیں، وہ چالیں جو ہم، ایک دوسرے کے خلاف چلتے رہتے ہیں اور بالواسطہ ملک کے خلاف بھی۔ 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں