قلم پوچھتا ہے میں کیا لکھوں؟ لہو سے رنگے سوال لکھوں؟ بارود سے جھلسے جواب لکھوں؟ صبح شام گرتی لاشوں کا حساب لکھوں؟ پتھرائی آنکھوں میں درج وحشتوں کے باب لکھوں؟ وطن والوں نے جو جھیلے وہ عذاب لکھوں؟ ٹوٹ کر جو بکھر گئے وہ خواب لکھوں؟ لکھنے والوں کا قلم پوچھتا ہے، میں کیا لکھوں؟
موت کی وادی میں جانے سے پہلے، آخری پینتالیس سیکنڈز میں، گزرے پینتالیس برس کے منظر، صابری کی آنکھوں میں گھومتے ہوں گے۔ محبتیں بانٹنے کے منظر، حمدیں اور نعتیں پڑھنے کے منظر، اللہ کے بندوں کو، اللہ کے دین کی طرف بلانے کے منظر، عشق رسول ؐ میں، رونے اور رلانے کے منظر۔ خود سے وہ سوال کرتا ہو گا، اللہ کی دھرتی پر، اللہ کے کسی نام لیوا کو، اللہ کے نام پر، کوئی کیسے مار سکتا ہے؟ وہ اللہ اور رسولؐ، جن کے عظیم دین نے، ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا۔ صابری کی آخری سانسیں ڈوبنے، اور پلکوں کے گرنے سے ذرا پہلے، منظر پر کچھ تصویریں ابھرتی ہوں گی، اُس کی لاڈلی بیٹیوں، پریسا اورحورین کی تصویریں، اور ان تصویروں سے جڑے انمول لمحے، انمول کہانیاں اور انمول یادیں، ایک ساتھ ہنسنے ہنسانے کی یادیں، جھوٹ موٹ روٹھنے اور منانے کی یادیں، ان کے ساتھ کھیلنے اور کھلانے کی یادیں۔ پھر لمحہ بھر کو تصویریں بدلتی ہوں گی اور منظر بھی، کم سن بیٹوں کی آوازیں، اُس کی سماعتوں میں گونجتی ہوں گی، وہ بیٹے جن کے ساتھ اُس روز جلد گھر واپس آنے کا وعدہ تھا، جنہیں عید کے کپڑے دلانے کا وعدہ تھا، لمحہ لمحہ وقت گزرتا ہو گا، تو درد بھی بڑھتا ہو گا، پھر ساری آوازیں ڈوب جاتی ہوں گی اور صابری کی سانسیں بھی۔
صابری کا سب سے چھوٹا بیٹا محب، ماں سے پوچھتا ہے کہ بابا کہاں چلے گئے، وہ واپس کیوں نہیں آتے، دروازے پر ہر دستک اسے چونکا دیتی ہے کہ شاید بابا لوٹ آئے ہوں۔ پھر آنسوئوں کی جھڑی ہوتی ہے، آہیں اور سسکیاں۔ محب اور اس کے بہن بھائی، سحری اور افطاری کی نشریات میں، اپنے بابا کو ڈھونڈتے ہیں، اُن کی یاد میں زار و قطار روتے ہیں، درد جب حد سے گزرنے لگتا ہے، اور دل جب غم سے پھٹنے لگتا ہے، تو مل کر اپنے بابا کے لبوں سے نکلے الفاظ ہی دہرانے لگتے ہیں ''کوئی اپنا نہیں، غم کے مارے ہیں ہم ، آپ کے در پہ فریاد لائے ہیں ہم‘‘۔
صبر کرنے والا صابری چلا گیا، اور اپنے پیچھے کئی سوال چھوڑ گیا، وہ سوال جو برسوں سے، اپنے جواب ڈھونڈ رہے ہیں۔ ایک کے بعد ایک، کتنے سانحے ہماری قوم پر گزر گئے، مسجدوں میں نمازیوں پر بارود برسایا گیا، شہر شہر دھماکوں میں لاشے گرائے گئے، گلیاں کوچے، بستیاں، بازار خون سے رنگین ہوئے، سکولوں میں معصوم بچے لہو میں نہلائے گئے، یونیورسٹیوں میں نوجوانوں کے سینے چھلنی ہوئے، چُن چُن کر جید عُلما شہید کیے گئے، بڑے بڑے شاعر، فن کار، گلوکار، رضاکار، دانشور، صحافی، ادیب اور طبیب تاریک راہوں میں مارے گئے۔ ہر رنگ، نسل، علاقے، صوبے، مذہب، مسلک اور فرقے کے لوگ لہو لہو ہوئے، لیکن کوئی واقعہ، کوئی سانحہ، ہمیں قوم کے طور پر متحد نہ کر سکا۔ لاشیں اٹھا اٹھا کر ہم تھک چکے لیکن نت نئی بحثیں کرتے نہیں تھکتے، وہ بحثیں جو ہمیں تقسیم در تقسیم کر رہی ہیں۔
دل دہلا دینے والے، انسانیت کو شرما دینے والے، بڑے بڑے سانحات کے بعد بھی، اتفاق کے بجائے نفاق کا منفرد اعزاز ہماری قوم کو ہی حاصل ہے۔ امریکا میں نائن الیون حملے ہوئے، تو پوری قوم یک زبان اور یک جان ہو گئی۔ پندرہ برس بیت گئے، دوبارہ انہوں نے نائن الیون نہیں ہونے دیا۔ صرف امریکی حکومت اور سکیورٹی اداروں کا نہیں، امریکی قوم کا بھی یہ کمال ہے، وہ قوم جس کا نعرہ ہے کہ ایک امریکی پر حملہ پورے امریکہ پر حملہ ہے۔ پیرس میں حملے ہوئے، تو فرانس کے گوروں، کالوں، غریبوں، امیروں، مقامیوں، غیرمقامیوں، کیتھولک اور پروٹسٹنٹ عیسائیوں میں تفریق مٹ گئی۔ پاکستان سے تین گنا کم آبادی والے ملک میں، تیس لاکھ سے زائد افراد نے ''امن و اتحاد‘‘ کے نام سے ریلی نکالی، فرانسیسی تاریخ کا یہ سب سے بڑا اجتماع ثابت ہوا۔ ایسا اتحاد انہوں نے دکھایا کہ پوری دنیا کو بھی اپنے ساتھ ملا لیا، اسی اجتماع میں چالیس سے زائد غیرملکی سربراہان اور رہنما بھی شریک ہوئے۔ بیلجیئم کی کہانی بھی مختلف نہیں، جب برسلز میں حالیہ حملوں کے بعد، شہروں سے لے کر دیہات تک، پورا ملک اتفاق اور اتحاد کی مثال بن گیا۔
کتنی قیامتیں ہم پر ٹوٹ چکیں، ساٹھ ہزار جنازے ہم اُٹھا چکے، اتنے سانحے ہمارے ساتھ ہوئے کہ لفظ سانحے کی تعریف ہی بدل چکی، اب ہر سانحہ ہمارے لیے محض ایک واقعہ ہے، وہ واقعہ جو دو چار گھنٹے، یا زیادہ سے زیادہ دو چار روزہ ی، ہماری یادداشت کا حصہ رہتا ہے۔ پھر لاشعوری طور پر، ہم نئے سانحے کا انتظار کرنے لگتے ہیں۔ کبھی کوئی سبق ہم نے سیکھا؟ تقسیم کرنے والے، ہر سانحے کے بعد، ہمیں مزید تقسیم کر دیتے ہیں۔ بعض ایسے ہیں جو ظلم کے جواز تراشتے ہیں، ظلم کو ظلم کہنے کے بجائے، اگر مگر کی کہانیاں گھڑتے ہیں۔ ہماری ہی قوم میں، کچھ ایسے بھی ہیں، جو سانحات بیچتے ہیں اور جذبات بھی، دکھ بیچتے ہیں اور درد بھی، لاشیں بیچتے ہیں اور جنازے بھی، صرف اپنی سیاست چمکانے کے لیے، جیسے امجد صابری کے دلخراش قتل پر چمکائی گئی، سطحی سیاست، لوگوں کو سطح در سطح تقسیم کرنے کے لیے۔
بستی کے کسی گھر میں آگ لگے تو برابر والا گھراس کی تپش سے نہیں بچ سکتا ، لپکتے شعلے، ایک ایک کر کے گھروں کے گھر، اور بستیوں کی بستیاں، اور ان بستیوں میں بستے انسانوں کو جلا کر راکھ کر ڈالتے ہیں۔ خیبر سے کراچی تک، ہماری بستیاں اور ہم جل رہے ہیں۔ کون ہے جس نے یہ آگ لگائی ہے، اور کون اسے دہکا رہا ہے؟ کیا ہم نہیں جانتے یا جاننا ہی نہیں چاہتے، یہ اپنے ہیں یا اپنوں کے بھیس میں سفاک دشمن؟ یا دشمنوں کے زرخرید آلہ کار؟ کیا ہم اب بھی شک و شبے میں مبتلا ہیں؟ کون ہے جو ہمیں اور ہمارے بچوں کو، خاک و خون میں نہلا رہا ہے؟ دشمن سے تو رحم کی توقع نہیں، کیا ہمیں خود بھی اپنے آپ پر رحم نہیں آتا، کیا ہم نہیں جانتے کہ تقسیم ہوتے ہوتے، تنہا ایک ایک کرکے ہم مٹ جائیں گے، اور مٹا دیے جائیں گے۔
قلم پوچھتا ہے: میں کیا لکھوں، ننھے معصوم شہیدوں کی داستان لکھوں؟ جن مائوں کی گودیں اجڑ گئیں، ان کے ارمان لکھوں؟ آنسوئوں میں بھیگے سوال لکھوں، جواں بیٹے کا لاشہ اٹھاتے باپ کا ملال لکھوں، یا بے حِسوں کی بے حِسی کا احوال لکھوں، قلم پوچھتا ہے میں کیا لکھوں؟