کٹتے پھٹتے انسان، لہو سے رنگے ملکوں کے ملک، بارود سے جھلسے شہروں کے شہر، خون آلود صبحیں، زخموں سے چور شامیں، آگ ہے کہ جتنی بجھائو، اتنی بھڑکتی ہے، لیکن دنیا بھر میں، یہ آگ لگانے، اور اسے پھیلانے کا اصل ذمہ دار کون ہے؟ کیا یہ جاننے کے لیے، کسی گہری تحقیق کی ضرورت ہے؟
دس برس ہوتے ہیں، باجوڑ ایجنسی میں رات ڈھلتی ہے، سورج نکلنے سے ذرا پہلے، ماحول پر چھایا سکوت اچانک ٹوٹتا ہے، پرندوں کی چہچہاہٹ کے بجائے، نچلی پرواز کرتے ڈرون طیاروں کی مکروہ آواز سماعتوں سے ٹکراتی ہے، شعلے اور چنگاریاں اڑاتے میزائل، بلا کی تیزی سے زمین کی جانب بڑھتے ہیں، پھر پوری وادی، زوردار دھماکوں سے گونج اٹھتی ہے، زمین لرزتی ہے، پہاڑ تک کانپ اٹھتے ہیں، اور ایک مدرسے میں موجود، ستر سے زائد بچوں کے چیتھڑے ہوا میں اچھلتے ہیں۔ پہلے پہل، دہشت گردوں کو مارنے کا دعویٰ، پھر اس جھوٹ کو چھپانے کے لیے، جھوٹ پر جھوٹ، لیکن جھوٹ کے بھی پائوں ہوا کرتے ہیں؟ پھر سچ کھلا، وہ سچ جو خود مغربی تنظیموں اور میڈیا نے کھولا، ایک رپورٹ کے مطابق، مارے جانے والوں میں تیس کی عمریں صرف سات سے چودہ سال جبکہ چالیس کی عمریں پندرہ سے سترہ سال تھیں۔
اسی وادی کے ایک اور گائوں میں، دس ماہ پہلے بھی، امریکی ڈرون، ایمن اظواہری کو نشانہ بنانے آئے، دس میزائل برسائے، تین گھر ملبے کا ڈھیر بنائے، پچیس لاشے گرائے، اور واپس لوٹ گئے۔ پہلے القاعدہ کے دہشت گرد مارنے کا ڈھنڈورا پیٹا گیا، پھر حقائق سامنے آنے پر تسلیم کر لیا کہ مارے جانے والے بے گناہ مقامی افراد تھے۔ ایک دو نہیں، درجنوں کہانیاں ہیں، اُن بے گناہ معصوموں کی جو اس درندگی اور بربریت کا نشانہ بنے۔
نائن الیون کے حملے جس نے کیے برا کیا کہ عام بے گناہ شہری ان میں نشانہ بنے۔ خون جہاں بھی بہے، اس کا رنگ ایک جیسا ہوتا ہے، جسم اور روح پر لگنے والے زخم، اور ان کا درد ایک جیسا ہوتا ہے۔ بجا کہ امریکہ کو گہرا گھائو لگا، لیکن ایسا وحشیانہ رد عمل کہ پوری دنیا کو لہو لہو کر ڈالا۔ انتقام کی آگ میں، دہشت گرد کم معصوم زیادہ مار ڈالے، بلا تفریق، بے گناہوں کی لاشوں کے انبار لگا دیے۔ افغانستان میں گھسا تو چھبیس ہزار عام شہری بھسم ہوئے اور بیس ہزار سے زائد ہمیشہ کے لیے معذور، غیرسرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس سے کہیں زیادہ۔ جنگ کے باعث بالواسطہ مرنے والے ساڑھے تین لاکھ افغان الگ ہیں۔ اسی جنگ کی پرچھائیاں پاکستان پر پڑیں، اور ساٹھ ہزار شہریوں کو نگل گئیں۔ آگ اور خون کا ایسا ہولناک کھیل کھیلنے کے باوجود، امریکی استعمار کی پیاس نہ بجھ سکی۔ 2003ء میں نیا شوشہ چھوڑا گیا، عراق پر لشکر کشی کے لیے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا شوشہ۔ دھونس، دھوکے اور غلط بیانی کے ذریعے، امریکہ، اپنے پٹھو برطانیہ، اور دیگر اتحادیوں کے ساتھ مل کر عراق پر چڑھ دوڑا۔ پہلے چار سال میں ہی ڈیڑھ لاکھ عراقی لقمہ اجل بن گئے۔ اس کے بعد جو ہوا تاریخ کا حصہ ہے۔ عراق سے تباہ کن ہتھیار ملے، نہ ایسے شواہد کہ وہ دنیا کے لیے خطرہ تھا۔ اب امریکی استعمار اس غلطی پر شرمندہ ہے، صرف شرمندہ۔ عراق جنگ کے متعلق، حالیہ برطانوی سرکاری رپورٹ نے بھی سارے پول کھول دیے ہیں۔ وہ تحقیقاتی رپورٹ، جس کے بعد، سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر کو، دنیا کا بدترین دہشت گرد قرار دیا گیا، اُن برطانوی فوجیوں کے اہل خانہ کی جانب سے، جو عراق جنگ میں مارے گئے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے پیاروں نے کسی ظلم کے خاتمے یا نیک مقصد کے لیے جان نہیں دی بلکہ وہ ٹونی بلیئر کے گھٹیا عزائم کے بھینٹ چڑھے، وہ ٹونی بلیئر جس نے اپنی فوج، غیرمنصفانہ، غیرقانونی مہم جوئی کے لیے عراق بھیجی، امریکی خوشنودی کے لیے۔ بجا کہ صدام حسین ایک جابر آمر تھا، اس کے دور میں انسانی حقوق مارے جاتے تھے، لیکن اب انسانی گردنیں ماری جاتی ہیں، آئے روز، سیکڑوں ہزاروں۔ صدام کا عراق بہتر تھا، یا امریکی جارحیت کے بعد والا عراق بہتر ہے؟ وہ عراق جس نے وحشی داعش کو جنم دیا۔
امریکہ میں ارکان کانگریس بدلیں یا صدور، امریکی استعمار کی پالیسیاں ایک جیسی ہی رہی ہیں۔ سابق امریکی صدر بش نے افغانستان اور عراق میں خون کی ہولی کھیلی، اور موجودہ دور میں یہی کھیل، مختلف طریقے سے، دیگر عرب ممالک میں کھیلا گیا۔ وہ عرب ممالک جہاں آمریت کے خلاف انقلاب لانے کی آڑ میں خانہ جنگی کے بیج بوئے گئے۔ کوئی انقلاب آیا؟ سوائے اس کے کہ اب صبح شام لاشیں گرتی ہیں۔ معمر قذافی ظالم تھا، دوسروں کے لیے، اور بہت سے اپنوں کے لیے بھی، لیکن قذافی کا لیبیا کیسا تھا، او ر قذافی کے بعد کا لیبیا کیسا ہے؟ وہ لیبیا، جہاں اب جنگجوئوں کا راج ہے، جہاں قذافی کی ہلاکت کے بعد، قتل کی وارداتوں میں 503 فیصد جبکہ چوریوں اور ڈاکوں کی وارداتوں میں 448 فیصد اضافہ ہوا، اور یہ سرکاری اعداد و شمار ہیں، غیرسرکاری تنظیموں کے اعداد و شمار اس سے کئی گناہ زیادہ ہیں۔ قذافی کے بعد اسی لہولہان لیبیا میں، وزیر اعظم تک کو یرغمال بنایا گیا، اور طرابلس کے بین الااقوامی ایئرپورٹ پر بھی جنگجو قابض رہے۔ اسلحے، گولہ بارود، تباہ کن ہتھیاروں اور حساس دفاعی آلات کی ایسی سمگلنگ ہوئی کہ اقوام متحدہ چیخ اٹھی۔ عرب انقلاب کے بعد، مصر، یمن اور شام کس حال میں ہیں؟ صرف شام میں چار لاکھ افراد مارے جا چکے، ان میں آٹھ ہزار سے زائد بچے بھی شامل ہیں۔ کیا یہ انقلاب ہے؟ کیا یہ خونیں کھیل جمہوریت کے لیے رچایا گیا؟
زیادہ دور کی بات نہیں، سولہ سال پہلے، نائن الیون سے پہلے کی دنیا کیسی تھی؟ اور اب کیسی ہے؟ نائن الیون کے منصوبہ سازوں کے تعاقب میں، ملکوں کے ملک، اور شہروں کے شہر اجاڑ دیے گئے۔ دہشت گردوں نے ہمدردیاں سمیٹیں، اور مشرق سے مغرب تک، انتہاپسندوں کی فصلوں کی فصلیں اُگ آئیں۔ افغانستان میں لگی آگ نے پاکستان کو بھی جھلسا دیا، اور عرب میں لگائی گئی آگ، مصر، یمن، لیبیا اور شام کے بعد سعودی عرب تک پھیل گئی۔ بنگلہ دیش اور ترکی بھی سلگنے لگے، مغرب میں فرانس اور بلجیم بھی شعلوں کی لپیٹ میں آ گئے۔ اب کسی ملک، کسی شہر کو امان نہیں۔ پوری دنیا، ایک ایسے دشمن سے لڑ رہی ہے، جو پوری دنیا میں موجود ہے، لیکن اس کی کوئی واضح شکل ہے نہ پہچان۔ یہ دشمن پڑھا لکھا ہے، ان پڑھ بھی، غریب بھی، امیر بھی، شہری بھی، دیہاتی بھی، مشرقی بھی، مغربی بھی، دیسی بھی، بدیسی بھی، کون جانتا ہے کہ کون، کس وقت، کسی پارک میں، ریسٹورنٹ میں، میلے میں، سکول میں، تقریب میں، بارود برسا دے، بم پھاڑ دے، یا خود پھٹ جائے۔ جنہوں نے یہ آگ لگائی، اور اسے شہر شہر بھڑکایا، اب یہی آگ ان کے اپنے دروازوں تک بھی جا پہنچی ہے، بقول شاعر: 'لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں، یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے‘۔