کشمیری بچوں کے لہورنگ آنسو

زندگی کے چراغ بجھ سکتے ہیں، آنکھوں کی روشنیاں بھی ، لیکن خواب بھی کبھی مرتے ہیں؟ وہ خواب ،جو ایک نسل نے دیکھے، اورپھرامانت سمجھ کر ، اگلی نسلوں کو منتقل کر دیے ۔
کشمیر کی ننھی پری، اِنشاملک کی آنکھوں سے خون رِستا ہے ، اب اس کی آنکھوں میں اندھیرا ہے، بہت کچھ اس نے کھو دیا ، لیکن خواب نہیں کھوئے۔ ضلع شوپیاں کی اِنشا،جس کا چہرہ، کبھی شہزادیوں کی طرح دمکتا، اب زخموں سے چور ہے۔اس کی پیشانی سے آنکھوں ،گالوںاورگردن تک، زخم ہی زخم ہیں ۔ بارہ جولائی کی رات، اِنشا پر، اس کی اپنی دھرتی پر، اس کے اپنے ہی گھر میں ، قابض بھارتی درندوں نے قیامت ڈھا دی ۔ اپنی ماں کے ساتھ، باتوں میں وہ کھوئی تھی کہ اچانک، بھارتی فوج کے برسائے ہوئے سیکڑوں چھرے،کھڑکیاں اورشیشے چیرتے، اس کی آنکھوں اور چہرے کو چھلنی کر گئے۔ اِنشاکی چیخیں، حلق میں پھنس کر رہ گئیں، چہرہ لہو میں ڈوب گیا ، اورآنکھوں سے خون کے فوارے ابل پڑے ۔ اب وہ سری نگر کے ایک اسپتال میں ، زندگی اورموت کی جنگ لڑ رہی ہے۔اس کی آنکھوں کی بینائی جا چکی ۔اس کا چہرہ چھلنی کی مانند دِکھتا ہے، جس میں درجنوں چھید ہیں، پیشانی کی ہڈیاں، جگہ جگہ سے ٹوٹ چکیں،اورکھوپڑی بھی سوراخوں سے بھری ہے۔ ڈاکٹر ز کے مطابق، ایسا دل دہلا دینے والا کیس، انہوں نے زندگی میں نہیں دیکھا۔ اپنے سکول میں ہمیشہ اول پوزیشن لینے والی، اپنے بابا کی لاڈلی پری، ہسپتال کے بستر پر، بے حس وحرکت پڑی ہے۔در در کی ٹھوکریں کھاتے، اس کے بابا ، ڈاکٹروں کی منتیں کرتے ہیں، کہ ان کی آنکھیں، اِنشا کو لگا دی جائیں،کہ ایک بار ، صرف ایک بار، وہ اپنے بابا اور ماں کو دیکھ سکے، لیکن طبی طور پر ایسا ممکن نہیں۔اِنشا کی ماں، اسپتال میں بیٹی کے سرہانے، گم سُم ، اسے تکتی رہتی ہے، پتھرائی آنکھوں سے، سکتے کی حالت میں ۔اِنشا یا اس کے والدین، کسی احتجاج میں شریک تھے نہ ان پر کوئی الزام تھا۔ ان کے گھر کو ، صرف اس لیے نشانہ بنایا گیا ، کہ پورے علاقے میں خوف پھیل جائے ، اور کوئی بھارتی بربریت کے خلاف آواز نہ اٹھائے۔
یہ صرف انشا کی نہیں، چیرتے پھاڑتے، تیز دھار چھروں سے لہو لہان ، درجنوں کشمیری بچوں کی کہانی ہے ۔ اننت ناگ کا آصف ، صرف سات برس کا ، مُحلے کی ایک دکان سے ،بسکٹ لینے جاتا ہے،یکا یک گلی کی نُکڑ سے ، بھارتی اہلکاروں کی گاڑی نمو دار ہوتی ہے، پھر لمحہ بھر میں،درجنوں چھرے، وہ چھرے جن سے جنگلی جانور شکار کیے جاتے ہیں،ننھے آصف پر برسا دیے جاتے ہیں۔کئی چھرے، اس کی دائیں آنکھ کو، ایک جانب سے چھلنی کرتے ہوئے، دوسری جانب نکل جاتے ہیں۔ اُس کی ماں ، بین کرتی ، چیختی چلاتی ، ایک ہی سوال دہراتی ہے، کہ اس کا سات برس کا معصوم بچہ، کسی کوکیا نقصان پہنچا سکتا تھا؟آصف کا باپ ، جو دیہاڑی دار مزدور ہے،بے بسی کی تصویر بن چکا ہے، کہ مظلوموں کا بس کہاں چلتا ہے۔
سری نگر کے اسپتال میں ،معصوم عرفات کی سانسیں بھی ، ڈوبتی اور ابھرتی ہیں، زندگی کی جنگ ، وہ جیت کم ، ہار زیادہ رہا ہے ۔ عرفات درد سے تڑپتا ہے، صبح شام ۔درد کا احساس ختم کرنے والی دوائیں بھی بے اثر ہو چکیں،کہ اس کا جسم ، سو سے زائد چھروں سے چھلنی کیا گیا۔کئی چھرے، اس کے سینے میں سوراخ کرتے ، اس کی شریانوں میں پیوست ہو گئے،کچھ چھرے اس کی جِلدچیرتے، گردن میں گھس گئے ، اور اُس کی آنکھیں بھی ، نوکیلے چھرے لگنے سے ، لہو لہو ہو گئیں۔عرفات کا باپ غلام نبی، بیٹے کے غم میں ہواس کھو چکا، ڈاکٹروں سے ، اورہر آنے جانے والے سے وہ کہتا ہے، دیکھو ظالموں نے میرے بیٹے کو ، مرنے سے پہلے زندہ لاش بنا دیا۔عرفات کا قصور کیا تھا ؟ صرف یہ کہ کرفیو اٹھنے کے بعد، وہ قریبی پارک میں ، کھیلنے چلا گیا تھا۔
ضلع پلواما کا عُمر، چھٹی جماعت کا طالب علم، اب سکول میں نہیں، زخموں سے چور ، اسپتال میں داخل ہے۔آنکھوں کے سامنے چھائے مکمل اندھیرے میں، وہ اپنی ماں کا چہرہ ڈھونڈتا ہے۔وہ چہرہ، جسے شاید اب وہ کبھی نہیں دیکھ پائے گا۔ اس کی آنکھوں کے اندر موجود ریشے، نوکدار چھروں سے کٹ پھٹ چکے۔عمر کا باپ،بیٹے سے لپٹ کر،زاروقطار آنسو بہاتاہے ۔ درجنوں چھرے، عمر کے پیٹ اورآنتوں میں بھی پیوست ہیں۔
سری نگر کی نازک کلیوں جیسی زہرہ، صرف چار برس کی ، نرسری کلاس میں پڑھنے والی،اب ہسپتال کے بستر پر بے سدھ پڑی ہے ۔اس کے پیٹ ،سینے اورٹانگوں پر، جلد کو کاٹتے پھاڑتے ، مخصوص چھروں کے درجنوں زخم ہیں۔گاندربال کی نوسالہ تمنا، جو کبھی ہنستی مسکراتی گڑیا تھا، اب روتی ہے اور سب کو رلاتی ہے۔تمنا پر اُس وقت چھرے برسائے گئے ، جب وہ اپنے گھر کی بالکونی میں کھڑی تھی، اُس کا دردتھمتا نہیں، اور آنکھوں کی روشنی بجھتی جا رہی ہے ۔بے رحم بھارتی فوج نے، چھروں کے ذریعے، نوبرس کی ثانیہ کی آنکھیں بھی نوچ ڈالیں، اوراب وہ اندھیروں میں ڈوب رہی ہے۔دو چار نہیں، کشمیری بچوں کی درجنوں کرب ناک داستانیں، مقبوضہ وادی کے ہسپتالوں میں بکھری پڑی ہیں۔
بھارتی فوج کے اس ہولناک ہتھکنڈے پر، مغربی میڈیا اورانسانی حقوق کے عالمی ادارے ، بھارت پر برس رہے ہیں، لیکن مودی سرکار، گونگی بہری بن کر، کشمیریوں پر قہر ڈھارہی ہے،باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت،کشمیریوں کے دلوں میں خوف بٹھانے کے لیے ۔بین الاقوامی تنظیموں کے مطابق، بھارتی اہلکار ، جان بوجھ کر، منظم طریقے سے، مخصوص چھروں کے ذریعے، کشمیریوں کے چہروں اورآنکھوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔کئی مرتبہ ایسے چھرے بھی برسائے گئے ،جواحتجاج پر قابو پانے کے لیے نہیں، سخت جان جنگلی جانوروں کو مارنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔مقبوضہ وادی کے ہسپتال، ان چھروں سے زخمی ہونے والے کشمیریوں سے بھر چکے۔ ڈاکٹرز حیران ہیں، کہ پچاسی فیصد زخمیوں کو ، ٹانگوں یا پیٹ پر نہیں،چہرے ، آنکھوں اور کھوپڑی میں چھرے لگے۔بھارتی اہلکار، ان ریاستی مظالم کو چھپانے کے لیے،ہسپتالوں پر بھی چھاپے مار رہے ہیں، ڈاکٹروں اور زخمیوں کو ہراساں کر رہے ہیں، اورانہیں دھمکارہے ہیں ، کہ وہ میڈیا سے کوئی بات نہ کریں۔
کشمیر کے شہزادوں اورپریوں جیسے بچے،سسک رہے ہیں، تڑپ رہے ہیں۔انہیں ایسے زخم لگائے گئے ہیں، جو زندگی بھر نہیں بھر سکتے ۔اِنشا، عرفات، آصف ،عمر، ثانیہ اورزہرہ کا تعلق، وادی کے مختلف شہروں ، مختلف قصبوں اور مختلف خاندانوں سے ہے، لیکن ان کا درد ایک جیسا ہے، ان کے دکھ ایک جیسے ہیں، ان کے جسموں اورروحوں پر لگے زخم ، ایک جیسے ہیں۔ اُن کی آہیں، سسکیاں اور آنسو ، ایک جیسے ہیں۔اُن کا قصور یہ ہے کہ اُ ن کی پہچان ایک جیسی ہے، وہ سب کشمیری ہیں، ایک جیسے کشمیری۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں