آئینے میں دیکھنے کا خوف، بھدا وجوداورداغ دار چہرہ ،جلتی وادی کے آئینے میں، بھارت کے اصلی چہرے کاعکس لہراتا ہے، اگر کوئی دیکھناہی نہ چاہے، تو الگ بات ہے۔
ایک راج ناتھ نہیں، کئی راج ناتھوں کی یہ کہانی ہے ، وہ راج ناتھ، جن کے چہرے بدلتے ہیں،نام بھی، لیکن کردار نہیں، کسی ظالم دیو کی طرح، جو چناروں کی پریوں جیسی وادی پر قابض ہیں، اوروادی میں بسنے والوں کی جان بھی، انہی کے قبضے میں ہے۔ایک دونہیں، پینسٹھ برس سے، جب چاہیں، انسانوں کا لہو وہ پیتے ہیں ، لیکن ان کی پیاس ہے ، کہ بجھتی ہی نہیں۔
زیادہ دُور کی بات چھوڑیں، پچھلے اٹھائیس برس میں ، راج ناتھوں نے اٹھائیس روپ بدلے، ہر روپ ایسا، کہ درندوں کی درندگی بھی شرما جائے ۔کبھی نہتے کشمیریوں پر بارودبرسایا،کبھی انہیں اجتماعی قبروں میں دفنایا، کبھی ان کے گھر جلائے، کبھی ان کے کاروبارمٹائے اورکبھی ریاستی سرپرستی میں، ریاستی پالیسی کے طور پر، زیادتی اوراغوا جیسے حربے آزمائے ۔اتنی بربریت، پھر بھی وادی میں آزادی کا نعرہ گونجتا ہے، کیوں ؟ دہشت گردی اور تحریک آزادی کا فرق، کیا بھارت کو سمجھ نہیں آتا ؟ یا وہ سمجھنا ہی نہیں چاہتا ۔کیا اٹھارہویں صدی میں ، امریکا کی آزادی کے لیے لڑی جانے والے جنگ ،نیدر لینڈ کی اسپین سے آزادی کے لیے، 1568ء سے 1648ء تک ، 80برس جاری رہنے والی تحریک، 1919ء سے 1921ء تک آئرلینڈ کی تحریک آزادی ، اور ان جیسی ساٹھ سے زائد تحریکیں، جنہیں مورخ، آزادی کی تحریکیں لکھتا ہے، سب دہشت گردی کی تحریکیں تھیں؟دنیا بھر میں ، آزادی کی نوے فیصد تحریکوں کے بنیادی محرکات وہی ہیں، جو مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی کے ہیں، راج ناتھوں کی عقل میں، اگرچہ ایسی باتیں کم ہی آتی ہیں۔
دور حاضر کے راج ناتھ، صرف ڈیڑھ ما ہ میں، ستر کشمیریوں کے خون سے ہاتھ رنگنے، سیکڑوں کشمیریوں کو لہو لہان کرنے،اوردرجنوں معصوم کشمیری بچوں کی بینائی چھیننے کے بعد، امن کا بھاشن دینے اسلام آباد پہنچے۔ سارک وزرائے داخلہ کانفرنس میں، ایجنڈے سے ہٹ کر، نام لیے بغیر ، الزامات کی بارش انہوں نے پاکستان پر کر دی۔پٹھان کوٹ حملے کا ذکرزہر بجھے لہجے میں انہوں نے کیا ، وہ حملہ جس کے بار ے میں ، خود بھارتی تحقیقاتی ادارے اعتراف کر چکے ، کہ پاکستان اس میں ہر گز ملوث نہیں، اگرچہ زمین اورآسمان بھارتی ایجنسیوں نے چھان مارے ، کہ کہیں سے کوئی ثبوت، کوئی شواہد ، کوئی دور کی کوڑی ، کوئی کمزور سا تانا بانا ہی ایسا مل جائے ، کہ پاکستان کو اس حملے کا براہ راست ذمہ دار قرار دیا جاسکے ۔پاکستان کی جانب سے، مظلوم کشمیریوں کی حمایت پر بھی، راج ناتھ بہت تلملائے ۔ تحریک آزادی کو براہ راست ، دہشت گردی انہوں نے قرار دیا، اگرچہ یہ فرمانا پسند نہیں کیا، کہ ستر کشمیری جو چھ ہفتوں میں بھارتی فورسز نے شہید کیے، اُن میں کس پر دہشت گردی کا الزام تھا؟ اُن میں کتنے ایسے تھے، جن پرصرف احتجاجی مظاہرہ کرنے کے جرم میں ، گولیاں برسائیں گئیں۔ان کا تعلق کسی حریت پسند تنظیم سے تھا نہ انہوں نے کبھی ہتھیار اٹھائے ، ہاں بدترین بربریت کے خلاف ، آواز انہوں نے اٹھائی، جسے گولیوں کی تڑتڑاہت سے خاموش کروا دیا گیا، لیکن کشمیر میں کیا صرف یہی ستر آوازیں تھیں؟ ستر ہزار کشمیریوں کی شہادت کے بعد بھی ،جو آوازپوری وادی میں گونجتی ہے، اسے کوئی کیسے دبا سکتا ہے ؟زہر اگلتے راج ناتھ، یہ بھی بتا دیتے کہ، جِن کمسن کشمیری بچوں پر، وحشی جانور مارنے والے چھرے بھارتی فوج نے برسائے ، جن کی آنکھوں نوچ لی گئیں، جنہیں زندگی بھر کے لیے نابینا کر دیا گیا، ان میں کون، کس قسم کی دہشت گردی میں ملوث تھا ۔چار، چھ، آٹھ اور دس برس کے ، ان پھول جیسے بچوں اور بچیوں نے، کس پولیس اسٹیشن یا فوجی چوکی پر حملہ کیا تھا ؟سلگتی وادی میں، بھارتی مظالم کے خلاف، پاکستان کی آواز، اگر انہیں ناگوار گزرتی ہے، تو انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کی آواز پر ہی کان دھر لیتے، ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹس پڑھ لیتے، بین الاقوامی ادارے، ڈاکٹرز ود آئوٹ بارڈرز کا ماتم سن لیتے، انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس کی اُس رپورٹ پر ایک نظر ڈال لیتے، جو وکی لیکس میں منظر عام پرآئی۔ان سب کوبھی چھوڑیے، اپنے آج کل کے اسٹریٹجک اتحادی اورقریبی یار ، امریکا کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی رپورٹ کا مطالعہ ہی کرلیتے۔
راج ناتھ نے جی بھر کے زہر اگلا ، لیکن غلط موقع پر، غلط جگہ اورغلط شخص کے سامنے، ایک ایسے وزیر کے سامنے، جو وزیر کم،پاکستانی زیادہ ہے ، ملکی وقار پرسمجھوتوں کا جو قائل نہیں ،گھما پھر ا کر بات کرنے کا ہنر جسے آتا نہیں، جس کی راست گوئی کے، اپنے ہی نہیں، عمران خان جیسے سیاسی حریف بھی معترف ہیں۔ راج ناتھ سمجھے کہ لفظوں کی جادوگری سے ، سارک کا میدان انہوں نے مار لیا، لیکن وزیرداخلہ چوہدری نثار نے بازی پلٹ دی ۔موصوف کو یاد دلایا کہ ریاستی سرپرستی میں ، معصوم بچوں پر وحشیانہ تشدد بھی، دہشت گردی ہی تو ہے،دلائل کے ساتھ یہ بھی سمجھایا کہ، آزادی کی جدوجہد اور دہشت گردی میں کیا فرق ہوتا ہے ، حساب پوری طرح بے باق کرنے کے لیے، یہ بھی باور کرادیاکہ ہم انجان نہیں، اچھی طرح جانتے ہیں کہ سرحد پار سے ،پاکستان میں بارود کے بیج کون بو رہا ہے،ہمارے ہاںدہشت گردی کی آگ کو ،ہوا کون دے رہا ہے ۔چوہدری نثار نے امن کا پیغام دیا ، پورے خلوص کے ساتھ،لیکن برابری کی بنیاد پر، ڈرتے جھجکتے نہیں، باوقار انداز میں ۔تحمل سے اُن کی سُنی اورپھر اپنی بھی سُنائی ، بھڑکتے جذبات کے ساتھ نہیں، دلیل اورمنطق کے ساتھ۔
چوہدری نثار نے آئینہ دکھایا توراج ناتھ ، جو سینہ پھلائے، خود کو ایک شاطر فاتح سمجھ رہے تھے، ہڑبڑا تے ہوئے، کانفرنس ادھوری چھوڑ کر، چلتے بنے۔جھوٹ بولنے کے لیے ڈھٹائی، اورسچ سننے کے لیے حوصلہ چاہیے ہوتا ہے، جو راج ناتھ میں نہ تھا۔وطن واپس پہنچتے ہی ، انہوں نے اپنے گرو، مودی صاحب سے ملاقات کی، اورانہیں پوری روداد سُنائی ، وہی مودی صاحب ، جن کا نام تصویر کے ساتھ، گوگل سرچ انجن میں، دنیا کے دس خطرناک ترین مجرموں کی فہرست میں موجود رہا، انہوں نے بھارتی گجرات میں، گُل ہی ایسے کھلائے تھے کہ ان کا نام، دنیا بھر کے اخبارات اورجرائد کی ویب سائٹس پر، مسلمانوں کے قاتل اورمجرم کے طور پر ہی درج ہوتا رہا۔گجرات کے بعد مقبوضہ وادی میںبھی، ظلم کا بازار مودی صاحب نے گرم کر رکھا ہے،بربریت کی نئی داستانیں، وہ رقم کررہے ہیں، لگتا ہے کہ وہ دن دور نہیں، جب گوگل کے سرچ انجن میںان کا نام، خطرناک ترین مجرموں کی فہرست میں، ساتویں آٹھویں نمبر پر نہیں، سب سے اوپر ہو گا، ایک بار پھر ، وہ گوگل کو کوستے پھریں گے ، لیکن آئینہ داغ دار چہرے کو ، داغدار ہی دکھاتا ہے، آئینہ چمکانے سے چہرہ چمکتا ہے نہ اسے توڑنے سے عکس بدلتا ہے ۔