الطاف حسین کا ڈوبتا سورج

سورج ڈوبتا ہے اور اس کے ساتھ دل بھی، اقتدار کا سورج اگر ڈوب رہا ہو اور زندگی کا بھی؟ کیا الطاف حسین کی وحشت کا اندازہ لگانا مشکل ہے؟ اپنی بقا کی آخری جنگ وہ لڑ رہے ہیں، اور اس جنگ میں وہ سب کچھ جھونکنے کو تیار ہیں، اپنے کارکن بھی، پارٹی رہنما بھی، وطن اور قوم بھی۔ ملک دشمنوں کو وہ مدد کے لیے پکار رہے ہیں، کراچی پر اپنا خونیں راج بچانے کے لیے۔ اپنے کارکنوں کی لاشوں پر ہاری جنگ وہ جیتنا چاہتے ہیں، کیا ڈوبتے سورج کو بھی کوئی روک سکا ہے؟
جنگ میں کسی خاص وقت پر، خاص وار کی بڑی اہمیت ہوا کرتی ہے، ایم کیو ایم کے سیاسی اور دہشت گرد دھڑوں، بیک وقت دونوں کی قیادت کرنے والے الطاف حسین یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں۔ انہوں نے جو زہر اگلا، کیا وہ ذہنی انتشار اور دباو کا نتیجہ تھا؟ بہت سوں کے خیال میں ہر گزنہیں۔ برطانیہ میں الطاف حسین پر منی لانڈرنگ کا مقدمہ چلا، عمران فاروق قتل کیس میں ان سے تفتیش ہوئی، ان کے گھر پر چھاپے مارے گئے، لاکھوں پاونڈ ضبط ہوئے، انہیں کئی مرتبہ تھانے بلایا گیا، ان کا پاسپورٹ ضبط ہوا، برطانیہ چھوڑنے پر پابندی لگی، ممتاز نشریاتی ادارے بی بی سی نے ان کے مبینہ جرائم پر پوری دستاویزی فلم چلائی، برطانیہ میں ان کے قریبی رفقا کو حراست میں لے کر پوچھ گچھ کی گئی، اتنے اعصاب شکن اور کٹھن مراحل میں بھی، کیا الطاف حسین نے کبھی ایک بار بھی، برطانیہ میں رہنے والے اپنے کارکنوں کو حکم دیا کہ وہ اسکاٹ لینڈ یارڈ کے دفاتر پر حملہ کر دیں؟ یا برطانیہ کے اعلیٰ فوجی افسروں کو لٹکا دیں؟ یا بی بی سی کے دفاتر کی اینٹ سے اینٹ بجا کر خود انصاف حاصل کر لیں؟ کیا اُس وقت وہ ذہنی دبائو کا شکار نہیں تھے؟ مکر و فریب میں الطاف حسین کا کوئی ثانی ہے؟ کہنے والے کہتے ہیں کہ پاکستان پر الطاف حسین کا نیاگھنائونا ترین وار کسی ذہنی کیفییت کا نہیں، باقاعدہ منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے سوچ سمجھ کر اپنے ہندوستانی سرپرستوں کی ہدایت پر عین اس وقت یہ کھیل رچایا جب مقبوضہ کشمیر کے معاملے پر بھارت دبائو کا شکار تھا۔ مودی سرکار کی بربریت کی کہانیاں، عالمی میڈیا کی سرخیاں بننے لگی تھیں، پاکستان کی جانب سے کشمیریوں کی حمایت پر، نریندر مودی تلملا رہے تھے، اسی دبائو میں انہوں نے بلوچستان، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان سے انہیں آوازیں دینے کا شوشہ چھوڑا، اور چند روز بعد الطاف حسین نے کراچی میں ڈرامہ کروا دیا۔ ریاستِ پاکستان کے خلاف زہریلے نعرے لگوائے، پھر میڈیا پر حملے کا حکم دیا تاکہ پُرتشدد صورت حال، ریاست کا ردعمل، گرفتاریاں اور سکیورٹی اداروں کی کارروائی عالمی خبر بن سکے، دنیا کو یہ پیغام جائے کہ جس طرح کشمیری بھارت سے آزادی مانگ رہے ہیں، اسی طرح کراچی میں بھی ریاست مخالف تحریک چل رہی ہے۔ 
تیس برس ہوتے ہیں، مہاجروں کی محرومیوں کی آڑ میں آگ اور خون کا کھیل الطاف حسین کھیل رہے ہیں۔ کراچی جو اِن کے لیے شہرِ وفا رہا، اسی شہر میں گلیاں، محلے، سڑکیں اور چوراہے الطاف حسین نے لہو سے رنگ دیے۔ بوری بند لاشوں، اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری، سٹریٹ کرائمز، پُرتشدد ہڑتالوں، جلائو گھیرائو، کاروباری بدحالی اور خوف جیسے عذاب انہوں نے اس شہر اور شہر والوں پر مسلط کیے۔ کیا یہ سب انہوں نے مہاجروں کی محرومیاں دور کرنے کے لیے کیا؟ اربوں روپے کا جو بھتہ وصول کیا گیا، کیا اس سے مہاجروں کے لیے آشیانے بنائے گئے؟ سٹریٹ کرائمز میں جو موبائل اور پیسے لُوٹے گئے، کیا ان سے مہاجروں کے وظیفے لگائے گئے؟ قربانی کی جو کھالیں چھینی گئیں، کیا ان سے مہاجروں کے بچے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں داخل کرائے گئے؟ جن پلاٹوں اور پارکوں پر قبضے کیے گئے، کیا وہاں مہاجروں کی بستیاں بسائی گئیں؟ فیکٹریاں، سیکڑوں گاڑیاں اور دکانیں، مہاجروں کو حقوق دلانے کے لیے جلائی گئیں؟ بارہ مئی کا قتل عام، مہاجروں کے زخموں پر مرہم رکھنے کے لیے کیا گیا؟ کتنی بار ایم کیو ایم اقتدار میں رہی، الطاف حسین لندن سے بٹن دبا کر، کراچی کوکھولتے اور بندکراتے رہے، کیا اس شہر اور شہر والوں کی تقدیر بدلنا، ان کے لیے مشکل تھا؟ الٹا انہوں نے اسے شہرِ آسیب بنا ڈالا، جہاں صبح شام اندھی موت رقص کرتی ہے۔
الطاف حسین کے لیے بظاہر مہلت تمام ہو چکی، فاروق ستار اگرچہ پرانے چہرے پر، نیا چہرہ سجا کر، دہرا کھیل کھیلنے کی کوشش کر رہے ہیں، ان کا کردار واضح کم، پراسرار زیادہ ہے۔ قائد کے بیانات سے مکمل لاتعلقی لیکن قائد سے پورا تعلق، انوکھی منطق ہے۔ ایم کیو ایم کو سیاست کرنے کا حق ہے، لیکن سیاست کے لیے جماعت کے عسکری دھڑے کا استعمال اصل مسئلہ ہے۔ کیا کسی کو ذرہ برابر بھی شک ہے کہ سانحہ بارہ مئی ایم کیو ایم کی کارستانی نہیں تھی؟ اس واردات کے مرکزی ملزم وسیم اختر کو بھی یہ گِلہ نہیں کہ انہیں اس مقدمے میں گرفتار کیوں کیا گیا، ان کی اصل شکایت یہ ہے کہ اس کیس کو نو برس بعد کیوں کھولا گیا، کراچی کا میئر بننے کے بعد ان کی پریس کانفرنس سے تو یہی تاثر ملا، ہاں ایک چیلنج انہوں نے درست کیا کہ اگر ہمت ہے تو پرویز مشرف کے خلاف بھی کارروائی کریں، وہی مشرف جنہوں نے بارہ مئی دو ہزار سات کے قتل عام کو سیاسی طاقت کا مظاہرہ قرار دیا تھا۔ سمجھنے والے سمجھتے ہیں کہ ایم کیو ایم کے عسکری دھڑے کو کچلنا ناگزیر ہے، ہاں متحدہ کے سیاسی دھڑے کو اپنی تطہیر کا پورا موقع ملنا چاہیے۔
مہاجروں کی محرومیوں کے نام پر مہاجروں کا جو استحصال الطاف حسین نے کیا، اس میں وفاق اور صوبے میں رہنے والی جمہوری اور آمرانہ حکومتیں برابر کی ذمہ دار ہیں، سیاسی مقاصد کے لیے جنہوں نے ایم کیو ایم کو استعمال کیا اور اس کے عسکری وِنگ کو ڈھیل دیے رکھی۔ پہلے وڈیروں اور جاگیرداروں نے مہاجروں کا استحصال کیا، پھر اسے جواز بنا کر الطاف حسین نے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے ڈھائی کروڑ لوگوں کے شہر کے لیے شاہراہوں، ٹرانسپورٹ، پانی اور دیگر بنیادی سہولتوں کے کتنے منصوبے بنائے؟ وہ شہر جو ملک کی معاشی شہ رگ ہے، اپنا کچرا تک ٹھکانے نہیں لگا سکتا۔
الطاف حسین کے اندر کا خود غرض اور پُرتشدد سوچ والا انسان پوری طرح بے نقاب ہو چکا، اُن پر پابندی کا جواز خود انہوں نے فراہم کر دیا، ایم کیو ایم کو اگرچہ سیاست کی اجازت ہونی چاہیے، اگر وہ اپنے عسکری دھڑے اور الطاف حسین سے مکمل قطع تعلق کر لے۔ وجوہ کچھ بھی ہوں، فی الحال مہاجروں کی سب سے بڑی نمائندہ جماعت ایم کیو ایم ہی ہے، ریاستی طاقت سے عسکری وجود تو ختم کیے جا سکتے ہیں سیاسی وجود نہیں، سیاسی وجود برسوں میں بنتے ہیں اور انہیں تحلیل ہونے میں عشرے لگ جاتے ہیں۔
جاننے والے جانتے ہیں کہ الطاف حسین ایم کیو ایم پر بوجھ بن چکے، خود تو وہ بھتہ خوری کی رقم سے، برطانیہ میں آسودہ زندگی گزار رہے ہیں‘ لیکن اشتعال انگیز خطابات سے پاکستان میں اپنے کارکنوں کی زندگی اجیرن انہوں نے کر رکھی ہے، قتل و غارت کے احکامات وہ لندن سے جاری کرتے ہیں اور ان پر عمل کرکے، قانون کی سختیاں کارکنوں کو جھیلنا پڑتی ہیں۔ اپنی پُرتشدد سیاست کی آخری بازی میں شکست کا انہیں سامنا ہے، چراغ اکثر وہی بجھاتے ہیں، جنہوں نے انہیں جلایا ہوتا ہے، یہی مکافات عمل ہے، ڈوبتے سورج کو بھی آج تک کوئی روک سکا ہے؟

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں