کشمیر جلتا ہے توپورا خطہ بھی سلگتا ہے ، آگ لگے تو ایک گھر نہیں، ساتھ والے مکان بھی جھلستے ہیں، شعلے بستیوں کی بستیاں راکھ کر ڈالتے ہیں، اور ان بستیوں میں رہنے والے انسانوں کو بھی ۔ کشمیر میںبھڑکتی آگ کس کس کو جلا ڈالے گی ، جنگی جنونیوں نے کبھی سوچا ہے ؟
نریندر مودی قومی رہنما کی طرح نہیں، سستی جذباتیت بیچنے والے فلمی کرداروں کی طرح سوچتے ہیں، خونریزی سے ان کا خمیر اٹھا ہے، تنگ نظری ، انتہاپسندی اورنسل پرستی ان کی نسوں میں دوڑتی ہے، سیاست چمکانے کے لیے قتل و غارت ان کا ہتھیار ہے، یہ ہتھیار وہ ایک نہیں، کئی بار استعمال کر چکے، گجرات فسادات میں ان کا گھناونا کردار تاریخ کا حصہ ہے، انسانیت کے خلاف ان کے جرائم کوئی فسانہ نہیں حقیقت ہیں، بھارتی وزیراعظم بننے سے پہلے،عالمی سطح پر ان کی شناخت ایک سفاک مجرم کی تھی، ایسا مجرم جس نے سیاست کے لبادے میں، سیاسی چال کے طور خون کی ہولی کھیلی۔گوگل پر ان کا نام دنیا کے دس سفاک ترین مجرموں کی فہرست میں درج رہا، بھارتی گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام پر، ان کے امریکا میں داخلے پر پابندی رہی۔ 2013ء میںکسی اور نے نہیں،خود بھارتی ریاست بہار کے وزیر نریندر سنگھ نے مودی کو ملک کا سب سے بڑا دہشت گرد قرار دیا تھا،انہوں نے مودی کوپٹنہ میں ہونے دھماکوں میں بھی ملوث قرار دیا۔مودی 2015ء میں انگلینڈ گئے تو برطانوی میڈیا نے ان کے پول پھر کھول دیے،ممتاز جریدوں نے لکھا کہ مودی بھارت میں غنڈہ گرد گروہوں کے سربراہ رہے ہیں،ایسا قاتل گروہ جس کے ہاتھ سیکڑوں انسانوں کے لہو سے رنگے ہیں، جس پر خونریزی کے الزامات ثابت ہو چکے ہیں، یہ سوال بھی اٹھایا کہ مریکی صدراوباما، برطانوی وزیراعظم کیمرون اور جرمن چانسلر اینجیلا جیسے عالمی رہنماوں کو ، ایک غنڈے کے ساتھ بیٹھنا اور اس کے ساتھ بات چیت کرنا کیسا لگتا ہو گا۔ایک معروف برطانوی اخبار نے لکھا کہ مودی انتخابی وعدوں کے برعکس بھارت کی تقدیر بدلنے میں ناکام نظر آتے ہیں، اب انہیں اپنی سیاست چمکانے کے لیے فرضی دشمنوں کی تلاش ہے، اسی لیے ان کی حکومت ، ریاستی سرپرستی میں انتہا پسند ہندووں کو مذہبی اقلیتوں کے خلاف اکساتی ہے، کبھی گاوماتا کی حفاظت کے نام پر مسلمانوں پر حملے کروائے جاتے ہیں، اور کبھی پاکستان کے ساتھ کوئی نہ کوئی محاذ کھول لیا جاتا ہے۔ کیا اس بار نریندرمودی پاکستان کی سرحدوں میں فرضی دشمن ڈھونڈنے کا ڈرامہ رچا رہے ہیں؟ انہیں اندازہ ہے کہ اس کرتب کا انجام کیا ہو سکتا ہے؟ پاکستان اور بھارت کے ڈیڑھ ارب عوام کو اس شعبدہ بازی کی کیاقیمت چکانا پڑ سکتی ہے ؟
مقبوضہ وادی کی صورت حال کا ذمہ دار پاکستان ہے؟پوری دنیا کا میڈیابھارتی بربریت کا پردہ چاک کر چکا، پھر بھی الزام پاکستان پر، ڈھٹائی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ نیویارک ٹائمز نے حال ہی میں لکھا کہ بھارتی فوج نے چھروں والی بندوقوں سے اتنے کشمیریوں کی بینائی چھینی کہ 2016ء مقبوضہ وادی میں ‘‘Dead Eyes‘‘ یعنی ''مری ہوئی آنکھوں ‘‘کے سال کے طورپر یاد رکھا جائے گا، کیا یہ انسانیت سوز گھنائونی کارروائیاں پاکستان نے کی ہیں ؟ صرف اڑھائی ماہ میں سو سے زائد کشمیری شہیداورہزاروں زخمی کیے جا چکے، اس کے بعد جلتی وادی میں اٹھنے والی ردعمل کی لہر کا ذمہ دارکون ہے ؟اڑی قصبے میں بھارتی ہیڈ کوارٹرز پر حملہ ہوا ، صرف بارہ گھنٹے بعد الزام پاکستان پرلگا دیا گیا، سوچنے سمجھنے والے حیران ہیں کہ تحقیقات اتنی جلدی کیسے مکمل ہو گئیں، ثبوت کیسے اکٹھے کر لیے گئے ؟ کیا حملہ آوروں کے ماتھے پر لکھا تھا کہ انہیں پاکستان نے بھیجا ہے، کیا وہ ثبوتوں کی گٹھڑی لے کر حملہ کرنے گئے تھے، بھارتی تحقیقاتی ایجنسیوں کے اس کارنامے پر، امریکی ، روسی اور دنیا بھر کی ایجنسیاں دنگ رہ گئی ہوں گی ۔اِدھر حملہ ہوا، اُدھر الزام پاکستان پر، پھر جنگ کی دھمکیاں دینا شروع کر دی گئیں، سرحدوں پر جنگی ماحول پیدا کر دیا گیا،توپیں اوربڑے ہتھیار نصب کر دیے گئے ، بڑے پیمانے پر فوج کی نقل وحرکت شروع ہو گئی ، اوریہ خبریں پھیلائی گئیں کہ مودی کو جنگ کے متعلق بریفنگز دی دی جارہی ہیں۔وزیراعظم کے دورہ امریکا سے ایک رو زپہلے بھارتی فوجی ہیڈکوارٹرز پر حملہ،پاکستان پربغیر تحقیق کے الزامات کی بوچھاڑ اور جنگ کے لیے سرحدوں پر اچھل کود، کیا یہ سب مقبوضہ کشمیر کی صورت حال سے توجہ ہٹانے کی کوشش تو نہیں ؟ شطرنج کی بساط پر نئی لہو رنگ چال چلنے کی تیاری ہے؟
مودی سرکار سے کسی خیر کی توقع نہیں، کیا پاکستان بھارت کی کسی شعبدہ بازی کا مقابلہ کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہے؟ آزمائشوں میں لیڈرچمکتے ستاروں کی طرح ابھرتے ہیںیا بدنامی اورگمنامی کے اندھیروں میںڈوب جاتے ہیں۔ وزیراعظم نوازشریف نے اقوام متحدہ میں پاکستان اورکشمیریوں کا مقدمہ دلیل اورمنطق سے لڑا،اس معاملے پرپوری قوم ، سیاسی قوتیں اورافواج ان کی پشت پر کھڑی رہیں، عالمی طاقتوں کی معاشی اور سیاسی مصلحتیں اپنی جگہ ، لیکن کشمیر میں بھارتی استعمار کا مکروہ چہرہ عالمی سطح پربے نقاب ضرور ہوا، کھلے عام نہیںلیکن پس پردہ تمام بڑی بین الاقوامی طاقتیں،بھارت سے تشویش کا اظہار کر چکیں،اسی لیے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھارتی وفد تلملاتا نظر آیا۔کیا یہی سب کافی ہے ؟نہیں، وزیراعظم کو کم وقت میں،
ابھی اوربہت کچھ کرنا ہے، سیاسی محاذآرائی کاخاتمہ، قوم اورفوج کی مکمل تائید سے قومی سلامتی کی پالیسی کی تشکیل اور جارحانہ سفارت کاری۔ چینی قیادت کے ذریعے بھارت اور امریکا کو وہ پیغام پہنچایا جا سکتا ہے، جو پہنچایا جانا ضروری ہے ۔چین کا مستقبل اوراس کی سپر پاور بننے کی منصوبہ بندی پاکستان کی بقا سے جڑی ہے، بھارت نے اگر پاکستان پر جنگ مسلط کی تو چین لاتعلق رہ سکے گا َ؟ ایران کی سرحدیں پاکستان سے جڑی ہیں، اسے اعتماد میں لینا ناگزیر ہے، ترکی اورسعودی عرب اوآئی سی اورتمام مسلمان ملکوں پر اپنا اثرورسوخ استعمال کر سکتے ہیں۔ بھارت اورامریکا کی قربت روس کو بھی کھٹکتی ہے،آپ کے دشمن کا دشمن، قدرتی طور پر آپ کا دوست، آپ کے حریف کا حریف، قدرتی طور پر آپ کا حلیف ہوتا ہے، یہ بات سفارت کاروں سے بہتر کون جان سکتا ہے۔
بھارت بظاہر محدود پیمانے کی جنگ یا مخصوص اہداف پر کارروائی کی تیاری کررہا ہے، لیکن دو ایٹمی قوتوں کے درمیان جنگ محدود رہ سکتی ہے ؟ پاکستان نے شارٹ رینج ایٹمی ہتھیار نمائشوں میں سجانے کے لیے بنائے ہیں؟ان کے استعمال کی نوبت اگرچہ کبھی نہیں آنی چاہیے ،جنگیں خوشحالی نہیں تباہی لاتی ہیں ، جن میدانوں میں جنگ ہوتی ہے، وہ ایسے اجڑتے ہیں کہ برسوں آباد نہیں ہوپاتے ، ہارنے والا لہولہان ہوتاہے اورجیتنے والا بھی زخموں سے چور۔پاک بھارت جنگوں کا نتیجہ دونوں ملکوں کے عوام پہلے بھی بھگت چکے ،جنگی جنون کے نفسیاتی مریض نریندر مودی کی عقل میں اگرچہ یہ بات نہیں آتی ۔