ستمگر اکتوبر اور طبلِ جنگ

تاریخ خود کو دہراتی ہے؟ بہت سوں کے لیے یہ آفاقی سچ ہے، مجھ جیسوں کا خیال اگرچہ ذرا مختلف ہے۔ تاریخ خود کو نہیں، انسان تاریخ کو دہراتے ہیں۔ 1999ء میں ستمبر کے بعد اکتوبر ستمگر بن کر وارد ہوا، منتخب وزیر اعظم کو رخصت ہونا پڑا اور ان کی حکومت کو بھی۔ سترہ برس بعد وہی نواز شریف، وہی تنائو، وہی دبائو، ویسے ہی حالات، ویسے ہی کردار اور وہی اکتوبر۔ کیا تاریخ دہرائی جائے گی یا وزیر اعظم تاریخ بدل سکتے ہیں؟ فیصلہ ہونے کو ہے، حتمی فیصلہ، یہ عام لوگوں کا ہی نہیں، زمانہ شناس دانشوروں کا بھی خیال ہے۔
وزیر اعظم اور ان کی حکومت کو ایک نہیں، بیک وقت کئی بحرانوں کا سامنا ہے۔ حکومت اور حساس اداروں میں کشیدگی اب کوئی راز نہیں۔ کراچی آپریشن اور ضرب عضب عسکری اداروں کی بے مثال پذیرائی کا سبب بنے، عوام میں ہی نہیں، خواص میں بھی۔ ان آپریشنز کے جو نتائج آئے، کم ہی لوگوں نے اس کا تصور کیا ہو گا۔ سلگتے کراچی کو امان ملی اور بڑی حد تک بڑے بڑے مافیاز سے چھٹکارا بھی۔ ضرب عضب پر ابھی بہت کام باقی ہے لیکن اس آپریشن نے دہشت گردوں پر کاری ضربیں لگائیں۔ اپنے ہی نہیں، پرائے بھی یہ مانتے ہیں۔ کرپشن پر ہاتھ ڈالنا حساس اداروں کے دائرہ کار میں نہیں، سو فیصد درست‘ لیکن عوام آئینی بحثوں میں کہاں الجھتے ہیںْ لٹیروں کے خلاف کارروائی کوئی بھی کرے، عوام اسے سراہتے اور ان کارروائیوں کو اپنی محرومیوں کے بدلے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کرپشن کے خلاف کارروائیوں نے بھی حساس اداروں کو عوام میں مقبول تر بنا دیا۔ اِن مقبول اداروں اور سیاسی مشکلات میں گِھری حکومت کے درمیان تنائو حد سے بڑھا تو اس کا نتیجہ کیا نکل سکتا ہے، یہ اندازہ لگانا کچھ مشکل ہے؟
پاناما سکینڈل کی پرچھائیاں بھی نحوست کا سایہ بن کر ایوان اقتدار پر لہرا رہی ہیں۔ یہ معاملہ مرا ہے نہ کپتان اسے مرنے دے گا۔ عین اس وقت جب حکومت اور اہم اداروں میں تنائو بڑھ رہا ہے، کپتان کے کھلاڑی اسلام آباد پر یلغار کو تیار ہیں۔ اشاروں میں بتانے اور سمجھانے والے اسے کپتان کا فیصلہ کن وار قرار دے رہے ہیں۔ اس بار کپتان کا مقدمہ اخلاقی طور پر مضبوط ہے۔ کسی اور نے نہیںِ، خود وزیر اعظم نے اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کیا تھا، پورے اعتماد کے ساتھ، اس موقف کے ساتھ کہ ان کے اپنے اور اہل خانہ کے ہاتھ صاف ہیں۔ پانچ ماہ بیت چُکے، کیا اس سکینڈل کی تحقیقات کے لیے ٹی او آرز نہ بننے کی ذمہ دار تحریک انصاف ہے؟ پیپلز پارٹی نے توقع کے مطابق دُہرا کھیل کھیلا، سیاسی سودا بازی کے لیے، کہ اب سیاست دان نہیں، سوداگر اس پارٹی کے کرتا دھرتا ہیں۔ سیاست جن کی میراث تھی، وہ گڑھی خدا بخش کی خاک میں خاک ہو چکے۔ خورشید شاہ اور اعتزاز احسن پوری منصوبہ بندی کے ساتھ، حکومت پر کبھی گرم ہوئے کبھی نرم۔ ایک حکومت پر تیر برساتا، دوسرا میٹھے لفظوں میں ہمدردی جتلاتا، دونوں ماہر بازی گروں کی طر ح اک دوسرے کے ساتھ ''چِِڑی چِھکا‘‘ کھیلتے رہے، اور 
کپتان پاناما کی تحقیقات کی ''چِڑی‘‘ اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر اُڑتے دیکھتا رہ گیا۔ پانچ ماہ بعد وہی ہوا جو پہلے دن سے طے تھا، یعنی کپتان کو یہ جنگ اکیلے لڑنا ہے۔ پچھلے بے وقت، بے وجہ اور پراسرار دھرنے کے برعکس، اس بار کپتان کے موقف کو عوامی قبولیت حاصل ہے۔ پاناما سکینڈل کی تحقیقات ہر صورت ہونی چاہیے، اس میں کوئی دو رائے نہیں۔ حکمرانوں کی ساکھ پر مالی داغ کسی بھی جمہوری معاشرے میں قابل قبول نہیں، اخلاقی معیار اپنی جگہ لیکن قانونی طور پر بھی کپتان کا مقدمہ اتنا ہی مضبوط ہے؟ تحریک انصاف یہ معاملہ پہلے ہی الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ میں لے جا چکی، اس کی تحقیقات میں تاخیر پر کپتان کی تشویش درست ہے، احتجاج کرنا بھی اس کا جمہوری حق ہے، یہاں تک تو ٹھیک لیکن کوئی فیصلہ آنے سے پہلے، شہروں کو بند کرنا، ریاست کو مفلوج کرنا یا وزیر اعظم کو بزور طاقت حکومت سے باہر نکالنا آئینی طور پر درست ہو گا؟ اداروں کے متعلق کپتان کے خدشات اپنی جگہ، لیکن ہم سب کو آئین کے تحت، انہی اداروں سے انصاف حاصل کرنا ہے۔ کیا ہر وہ شخص جس کے ساتھ ناانصافی ہو، یا جو یہ سمجھے کہ اسے انصاف نہیں ملا، اسے تھانوں، کچہریوں، عدالتوں اور دیگر اداروں پر یلغار کی اجازت ہونی چاہیے؟ اسلام آباد میں احتجاج سے آگے بڑھ کر کسی انتہائی اقدام کا نتیجہ کیا ہو سکتا ہے؟ کپتان کو اس کا اندازہ ہے؟ اگر سارا کھیل ہی لپیٹ دیا گیا تو کپتان کے ہاتھ کیا آئے گا؟ کیا تاریخ کے اوراق کپتان کے سامنے کھلے نہیں پڑے؟
کپتان کی سیاست پر لاکھ اعتراضات لیکن پاکستان کی سیاست میں اس کا وجود، کئی حوالوں سے رحمت ہے۔ بہت سوں کو روایتی سیاست تبدیل کرنے پر اُس نے مجبور کیا، فرسودہ سیاسی نظام کے خلاف سیاسی شعور اجاگر کیا، مقابلے کی فضا پیدا کی، اُن طبقوں کو اُس نے فعال کیا جو ہمیشہ سیاست سے لاتعلق رہے، وہی سیاست جو ہماری تقدیروں کا فیصلہ کرتی ہے۔ کیا اتنا کچھ کرنے کے بعد، کوئی ایسا قدم کپتان کو اٹھانا چاہیے جس سے پورا نظام ہی تلپٹ ہو جائے؟ پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے حکومت اور اداروں پر دبائو کپتان ضرور بڑھائے، اداروں کی سست روی، بدعنوانی اور ناانصافی کو بے نقاب بھی کرے لیکن صبر کے ساتھ۔ جوش کے ساتھ ہوش بھی ضروری نہیں؟ موجودہ حکومت کا وقت ہی کتنا رہ گیا ہے؟ اگر نظام لپیٹا گیا تو حکمرانوں کوکم، ریاست کو زیادہ نقصان ہو گا۔ کیا کپتان الیکشن کے لیے سوا‘ ڈیڑھ سال انتظار نہیں کر سکتا؟ وہ الیکشن جس سے تحریک انصاف، دیگر تمام سیاسی قوتوں اور جمہوریت کا وجود جڑا ہے۔
جمہوری نظام بچانے کی ذمہ داری، کپتان پر کم، حکومت پر زیادہ عائد ہوتی ہے۔ پاناما کیس کی تحقیقات کے لیے ٹی او آرز بنانے میں رکاوٹ کیا ہے؟ اس سے پہلے کہ محاذ آرائی حد سے بڑھے، وزیر اعظم کو بہت کچھ کرنا ہے۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ حالات پچھلے دھرنے جیسے نہیں، وہ دھرنا جس میں انہیں اخلاقی برتری حاصل تھی‘ لیکن اب معاملہ مختلف ہے۔ ٹکرائو کی صورت حال بے قابو ہونے میں وقت ہی کتنا لگتا ہے، یہ بات اُس وزیر اعظم سے بہتر کون جان سکتا ہے جس کی حکومت دو مرتبہ جاتی رہی۔ جب نظام ہی لپیٹ دیا جائے تو ساری آئینی بحثیں اور دلائل دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ سیاسی محاذ آرائی سے ہی نہیں، حساس اداروں کے ساتھ مزید تنائو سے بھی وزیر اعظم کو بچنا ہے، جو تعلقات گزشتہ تین برس میں نہیں سنبھل پائے، انہیں اگلے تین ہفتوں میں سنبھالنا ہے۔ اکتوبر ایک بار پھر وزیر اعظم کے لیے ستمگر بن سکتا ہے، تاریخ خود کو نہیں، انسان تاریخ کو دہرا تا ہے اور انسان ہی تاریخ بدلنے پر قادر بھی ہے، اب فیصلہ وزیر اعظم کے ہاتھ میں ہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں