اپنے بچوں کے قاتل

دسمبر میں پتے جھڑتے ہیں، ہمارے مگر بچے بھی جھڑ گئے، ایک سو بتیس جیتے جاگتے بچے۔ ننھے جنازے سب سے بھاری ہوا کرتے ہیں۔ ہماری آنکھیں پانی نہیں، لہو کے سمندر بہا چکیں، معصوموں کا ماتم ہم نے بہت کیا لیکن صرف ماتم، دوبارہ ایسے سانحے روکنے کے لیے بھی کچھ کیا گیا؟ 
دو برس ہوتے ہیں، پشاور کا آرمی پبلک اسکول مقتل بنا، ننھے اور نرم و نازک فرشتوں اور پریوں کا مقتل، ایسا زخم ہمارے دلوں پر لگا، برسوں جس سے لہو رستا رہے گا۔ جذباتی اور کرب ناک لمحوں میں، پوری قوت اور حکمت سے دہشت گردوں کو کچلنے کا فیصلہ ہوا، ایک نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا، بلند بانگ دعوے کیے گئے، پھر کچھ وقت گزرا، ننھے شہیدوں کو مٹی میں اور نیشنل ایکشن پلان کو کاغذوں میں دفن کر دیا گیا۔
نیشنل ایکشن پلان کا اہم ترین نکتہ انسداد دہشت گردی کے قومی ادارے نیکٹا کو فعال بنانا تھا۔ اس ادارے کا کام دہشت گردی کے متعلق تمام انٹیلی جنس ایجنسیوں کی خفیہ معلومات کو ایک جگہ اکٹھا کرنا اور انہیں بروقت متعلقہ اداروں تک پہنچانا تھا۔ پاکستان میں 33 سکیورٹی ایجنسیاں اور ادارے ہیں۔ ان کے اہلکاروں کی تعداد تقریباً 6 لاکھ ہے۔ ان ایجنسیوں اور اداروں کو اگر کچھ حساس معلومات ملیں تو آپس میں رابطوں اور تعاون کا کوئی موثر نظام نہیں۔ نیکٹا کے تحت ایسا ہی نظام بنایا جانا تھا تاکہ دہشت گردی کے منصوبے بروقت ناکام بنائے جا سکیں۔ نیشنل ایکشن پلان بننے کے بعد 15 ماہ اس ادارے کا اجلاس تک نہ بلایا گیا۔ کوئی فعال سربراہ نہ عملہ۔ رواں برس خانہ پری کے لیے محض ایک ہیلپ لائن قائم کی گئی، پہلے 20 دن میں اس نمبر پر 8264 جعلی اور غیرمتعلقہ کالیں کی گئیں۔ صرف 41 کالز کسی حد تک متعلقہ تھیں۔ نیشنل ایکشن پلان کا ایک اور اہم نکتہ انسداد دہشت گردی کے لیے الگ فورس بنانا تھا۔ دو برس بعد بھی اس فورس کی تعیناتی نہیں ہو سکی۔ ایکشن پلان کے تحت دہشت گردوں کی مالی معاونت کو روکا جانا تھا۔ کبھی اس کے لیے الگ قومی تحقیقاتی سیل بنانے کی بات ہوئی اور کبھی یہ ذمہ داری ایف بی آر کو سونپی گئی۔ یہ معاملہ اب تک تجاویز اور سفارشات تک محدود ہے۔ نیشنل ایکشن پلان کا انتہائی اہم نکتہ ''کریمینل جسٹس سسٹم‘‘ میں اصلاحات کرنا تھا۔ صرف کاغذات پر اس کی منظوری میں 17 ماہ لگ گئے۔ اس کے بعد ''فیڈرل کور گروپ‘‘ اور ذیلی کمیٹیاں بنانے کی تجاویز پیش کی گئیں، اب تک یہ معاملہ کھٹائی میں ہے۔
کالعدم تنظیموں کو نام بدل کر کام سے روکنا نیشنل ایکشن پلان کا انتہائی اہم جزو تھا۔ اس وقت ملک میں 63 تنظیموں پر پابندی ہے۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ ان میں کتنی تنظیمیں نئے نام سے پرانے گُل کھلا رہی ہیں۔ کیا کوئی پوچھنے والا ہے؟ مدارس ریفارمز اور رجسٹریشن کا معاملہ اب تک التوا کا شکار ہے۔ فاٹا اصلاحات کا عمل دو برس بعد بھی مکمل نہیں ہو سکا۔ دہشت گردوں کے رابطوں کا نیٹ ورک توڑنے کا دعوی کیا گیا۔ اس کے لیے ڈھائی کروڑ موبائل سمز بلاک کرنے کے علاوہ کیا اقدامات کیے گے؟ یہ کہ ہر بڑے تہوار یا حساس دن پر موبائل فون سروس ہی معطل کر دی جائے؟ نیشنل ایکشن پلان کا رہا سہا کچا چٹھا سپریم کورٹ کے کمیشن نے کھول دیا ہے۔ وہ کمیشن جو آٹھ اگست کو کوئٹہ خود کش حملے میں سینئر وکلا سمیت 74 افراد جاں بحق ہونے پر بنایا گیا تھا۔ کمیشن کے مطابق بلوچستان ہائیکورٹ بار کے صدر پر حملے اور پھر ہسپتال میں خود کش دھماکے میں ایک ہی گروپ ملوث تھا۔ جب تک کمیشن نے مداخلت نہیں کی خود کش بمبار کی شناخت ہی نہیں ہو سکی۔ حملہ آوروں کے افغانستان میں رابطے تھے لیکن یہ حملے مقامی افراد کی مدد کے بغیر ممکن نہیں تھے۔ خود کش حملہ آور اور اس کے ساتھی پاکستانی ہی تھے۔ یہ اس گروہ کا پہلا حملہ نہیں تھا، اگر ادارے پہلے ہونے والے حملوں کی ''فورنسک‘‘ تحقیقات کرتے تو اس سانحے کو روکا جا سکتا تھا۔ سکیورٹی ادارے اتنے نااہل تھے کہ انہوں نے شواہد اکٹھے کرنے 
کے لیے جائے وقوعہ کو محفوظ ہی نہیں بنایا۔ سول ہسپتال غیر فعال تھا اور اس میں ابتدائی طبی امداد کے آلات بھی نہیں تھے۔ اداروں میں رشتہ داریوں کی بنیاد پر چار سیکرٹریوں سمیت دیگر نااہل افراد بھرتی کئے گئے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ نیشنل ایکشن پلان کی کوئی سمت ہے نہ اس کی نگرانی کا کوئی نظام۔ ساڑھے تین برس میں نیکٹا کے ایگزیکٹو بورڈ کا صرف ایک اجلاس ہوا، اس کے بھی فیصلوں پر عملدرآمد نہیں ہو سکا۔ وفاقی اور صوبائی اداروں کے پاس ایک دوسرے کے فون اور فیکس نمبرز تک نہیں۔
امریکا میں نائن الیون حملے ہوئے، 3000 لوگ مارے گئے، پندرہ برس بیت گئے، ایسی سکیورٹی پالیسی امریکیوں نے بنائی کہ پھر کوئی نائن الیون نہ ہونے دیا۔ جولائی 2005ء میں لندن بم دھماکوں میں 52 افراد مارے گئے۔ یہ واقعہ ''سیون سیون‘‘ کہلایا۔ گیارہ برس گزر گئے، برطانیہ نے دوبارہ سیون سیون نہ ہونے دیا۔ 11 مارچ 2004ء کو سپین میں چار ٹرینوں میں ہونے والے دھماکوں میں 191 افراد ہلاک اور دو ہزار زخمی ہوئے۔ اس واقعہ کو ''الیون ایم‘‘ کا نام دیا گیا۔ بارہ برس ہوئے، سپین نے دوبارہ ''الیون ایم‘‘ نہ ہونے دیا۔ پاکستان میں جنوری 2001ء سے اکتوبر 2016ء تک 17503 دہشت گرد حملے ہو چکے۔ ایک دو نہیں، نائن الیون جیسے درجنوں سانحے ہم پر گزر گئے۔ سانحہ آرمی پبلک اسکول پر پوری انسانیت کانپ اٹھی لیکن ہم ایک انگڑائی لے کر پھر غفلت کی نیند سو گئے۔ نیشنل ایکشن پلان بنا لیکن عملی کارروائی کم، کاغذی کارروائی زیادہ ہوئی۔ 2015ء میں دہشت گردی کے سولہ بڑے واقعات ہوئے‘ جن میں چار سو سے زائد افراد جاں بحق ہو گئے۔ 2016ء شروع ہوا تو بیس جنوری کو باچا خان یونیورسٹی دہشت گردوں کا نشانہ بن گئی۔ اس واقعہ میں 17 طلبا سمیت21 افراد شہید ہو گئے۔ تحقیقات میں انکشاف ہوا کہ خطرات کے باوجود یونیورسٹی میں سکیورٹی انتظامات انتہائی ناقص تھے۔ رواں برس اب تک دہشت گردوں کے بارہ بڑے حملوں میں 380 سے زائد پاکستانی لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ ان میں 14 اکتوبر کو کوئٹہ میں پولیس ٹریننگ کالج پر ہونے والا حملہ بھی شامل ہے۔ غفلت اور لاپروائی کی انتہا کہ نہتے نوجوانوں کو دہشت گردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔ اس کالج کی چاردیواری تھی نہ حفاظت کے لیے کوئی عملہ۔ اسکول کے اطراف سٹریٹ لائٹس تک خراب تھیں۔ اندھیروں میں ڈوبے اس کالج میں دہشت گردوں نے ہمارے بچوں کا قتل عام کیا اور 60 کیڈٹس شہید ہو گئے۔ جب ان بچوں کے سینے چھلنی ہو رہے تھے تو نیشنل ایکشن پلان کہاں تھا؟ ایسے سانحوں کے ذمہ دار صرف دہشت گرد ہیں؟ ہرگز نہیں، ان وحشیوں کو آسان اہداف ہم خود فراہم کرتے ہیں۔ ہمارے بچوں کی چیخیں، آہیں اور سسکیاں ہمیں جھنجھوڑتی کیوں نہیں؟ کوئی اور نہیں، ہم خود اپنے بچوں کے قاتل ہیں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں