عجب حکمران، غضب داستان

تاریخ کے آسمان پر بہترین حکمران جگماتے ہیں، روشن ستاروں کی طرح، رہتی دنیا تک جن کی روشنی راستہ دکھاتی ہے۔ چودہ سو برس ہوتے ہیں، خلیفہ دوم عمر فاروق رضی اللہ عنہ آج بھی حکمرانوں کے لیے مشعل راہ ہیں، ان کے بنائے قوانین، نہ صرف مسلمان بلکہ مغربی ممالک میں بھی رائج ہیں۔ ان کی حکمرانی سے جڑا ایک واقعہ، ترقی اور تہذیب یافتہ معاشروں میں طرز حکمرانی کی بنیاد بنا، کروڑوں مرتبہ جسے لکھا اور پڑھا گیا۔ خطبہ دیتے خلیفہ کو ایک عام شخص نے ٹوک کر پوچھا: بیت المال سے سب کے حصے میں برابر کپڑا آیا، آپ بلند قامت ہیں، جو لباس آپ نے پہن رکھا ہے وہ اس کپڑے سے نہیں بن سکتا، اضافی کپڑا آپ کے پاس کہاں سے آیا؟ خلیفہ وقت نے برہم ہونے کے بجائے تحمل سے سوال سنا، پھر اپنے صاحبزادے حضرت عبداللہ سے جواب دینے کو کہا۔ عبداللہ کھڑے ہوئے اور بتایا کہ انہوں نے اپنے حصے کا کپڑا والد کو دے دیا تھا، اس لیے کہ ان کا پرانا خستہ حال لباس پہننے کے قابل نہ رہا تھا۔
اسرائیل کے موجودہ وزیر اعظم نیتن یاہو کو پولیس تحقیقات کا سامنا ہے، اس الزام پر کہ انہوں نے سرکاری حیثیت میں تحائف لیے۔ پولیس ان کی سرکاری رہائش گاہ پہنچی اور تین گھنٹے ان سے تفتیش کرتی رہی۔ انہیں پابند کیا گیا ہے کہ وہ تحقیقات میں تعاون کریں گے۔ یہ کارروائی وزارت انصاف کی منظوری سے ہو رہی ہے، پولیس جب مناسب سمجھے گی، نیتن یاہو سے دوبارہ پوچھ گچھ کرنے میں آزاد ہو گی۔ یہ ہے اسرائیل میں حکمرانوں کے احتساب کا نظام۔ وہ اسرائیل جو آبادی کے لحاظ سے 99ویں لیکن فی کس آمدنی کے لحاظ سے 23ویں نمبر پر ہے۔ اس خوشحالی میں انصاف اور احتساب کے نظام کا بڑا کردار ہے۔ پاکستان فی کس آمدنی کے لحاظ سے 144ویں نمبر پر ہے، اس بدحالی کی وجہ کیا ہے، سمجھنے والے سمجھ گئے ہوں گے۔
ہمارے سابق وزیر اعظم گیلانی اور ترک خاتون اول کے ہار کا قصہ، جو پاکستانی جتنی مرتبہ پڑھے، اس کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ یہ 2010ء کا سال تھا۔ سیلاب نے پاکستان میں تباہی مچائی تو ترک صدر کی اہلیہ نے اپنا قیمتی ہار متاثرین کی مدد کے لیے عطیہ کر دیا۔ گیلانی صاحب نے نادرا کو یہ ہار خریدنے کا حکم دیا۔ اس کی قیمت سولہ لاکھ روپے لگائی گئی۔ طے پایا کہ یہ سولہ لاکھ روپے اجتماعی شادی کی ایک تقریب میں آٹھ غریب لڑکیوں میں برابر بانٹے جائیں گے۔ پھر اس تقریب کی تصاویر ترک صدر کی اہلیہ کو بھیج دی جائیں گی۔ سرکاری کھاتے سے سولہ لاکھ روپے ادائیگی کے بعد، گیلانی صاحب نے یہ ہار اپنے پاس رکھ لیا۔ ادھر ترک صدر کی اہلیہ یہی سمجھتی رہیں کہ ان کا ہار بیچ کر دکھی انسانیت کی خدمت کی گئی۔ پانچ برس بعد ایف آئی اے نے تحقیقات کیں تو پتہ چلا ہار ہمارے سابق وزیر اعظم نے دبا رکھا ہے۔ جب دبائو بڑھا تو گیلانی صاحب نے اعتراف کر لیا کہ ہار پچھلے پانچ سال سے ان کے پاس تھا۔ چاروناچار انہیں وہ ہار واپس کرنا پڑا۔ کوئی معذرت انہوں نے کی‘ نہ شرمندگی کا اظہار۔ آصف علی زرداری کو صدارت کے پہلے برس بیرونی دوروں میں ستائیس قیمتی تحفے 
ملے۔ ان کی مالیت چھ کروڑ روپے سے زائد تھی۔ انہیں دو بی ایم ڈبلیو کاریں اور بیش قیمت جیپیں بھی ملیں۔ ان کی اصل قیمت کا صرف پندرہ فیصد ادا کرکے زرداری صاحب چاروں گاڑیاں چپکے سے گھر لے گئے۔ ان سے پہلے، امپورٹڈ وزیر اعظم شوکت عزیز نے بھی سرکاری تحفوں پر ہاتھ صاف کیا تھا۔ وزارت عظمیٰ ختم ہونے کے بعد وہ پاکستان سے جاتے ہوئے گیارہ سو سے زائد سرکاری تحائف بھی اونے پونے لے اڑے۔ موصوف نے ٹونی بلیئر کی اہلیہ کی جانب سے دیے گئے ایک بیگ کی قیمت تین سو، شہزادہ چارلس کی طرف سے دیے گئے تحفے کی قیمت دو سو جبکہ نیپال کی جانب سے دیے گئے دو ریشمی اسکارفس کی قیمت پچاس روپے لگوائی۔ یوں ساڑھے پانچ سو روپے خزانے میں جمع کرا کے یہ تحائف بھی اپنے پاس رکھ لیے۔ اس کے بعد انہوں نے پاکستان آنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی۔ سابق صدر پرویز مشرف اور ان کی اہلیہ کو ہیروں اور سونے کے زیورات سمیت 250 سے زائد تحائف ملے۔ انہوں نے بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے۔ چھ گنا کم قیمت ادا کی اور تمام تحفے لے کر چلتے بنے۔ ان تحائف کی مد میں انہوں نے کم سے کم اڑھائی کروڑ روپے کا فائدہ اٹھایا۔ 
پاکستان میں سرکاری تحائف کی لوٹ مار کی کہانی طویل ہے۔ پچھلے تیس برسوں میں حکمران تین ہزار سے زائد قیمتی تحائف ہضم کر چکے ہیں۔ اب دنیا کی سب سے بڑی معاشی اور عسکری طاقت امریکا کے صدر کی داستان بھی پڑھ لیں۔ صدر اوباما کو سعودی شاہ نے سونے سے بنا گھوڑے کا مجسمہ تحفے کے طور پر دیا۔ اس کی مالیت لگ بھگ پانچ کروڑ روپے تھی۔ اس کے علاوہ ایک کروڑ روپے مالیت کی سونے کی تلوار بھی دی گئی۔ اوباما اور ان کی اہلیہ مشل اوباما کو امیر قطر نے بھی اڑھائی کروڑ روپے کی گھڑیاں بطور تحفہ دیں۔ اس کے علاوہ انہیں دنیا بھر سے کروڑوں روپے کے دیگر تحائف بھی ملے۔ ابھی اوباما کی مدت صدارت پوری نہیں ہوئی اور وہ پہلے ہی یہ تمام تحائف سرکاری خزانے میں جمع کرا چکے ہیں۔ سابق برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے چین کی جانب سے بیش قیمت ''ماونٹین بائیک‘‘ کا تحفہ لینے سے انکار کر دیا تھا۔ برطانوی قانون کے مطابق حکومتی عہدے داروں کو 140 پاونڈ سے زائد مالیت کے تحفوں کی پوری قیمت سرکاری خزانے میں جمع کرانا پڑتی ہے۔
امریکا اور برطانیہ جیسے ممالک کے حکمران، پاکستانی حکمرانوں کی قسمت پر رشک کرتے ہوں گے، سوچتے ہوں گے ہم پاکستان میں کیوں نہ پیدا ہوئے۔ ایک بیچارے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو سے مبینہ طور پر تحائف لینے کی غلطی سرزد ہو گئی، ابھی مکمل طور پر کچھ ثابت نہیں ہوا لیکن پولیس نے ان کی نیندیں اڑا رکھی ہیں۔ اس سے پہلے سابق اسرائیلی وزیر اعظم ایہود اولمرٹ کو انیس ماہ قید کی سزا ہو چکی ہے۔ ہمارے حکمرانوں کی شان ہی نرالی ہے، لوٹ مار کرتے تھکتے ہیں نہ ان کی ہوس کی کوئی حد ہے۔ اسی لئے وہ ڈھٹائی سے سرکاری تحائف تک ہڑپ کر جاتے ہیں۔ ان کے پیٹ بھر بھی جائیں تو نیتیں کبھی نہیں بھرتیں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں