راحیل شریف، اسلامی اتحاد اور پُراسرار راز

اندھیروں میں بھٹکنا ہی ہمارا مقدر ہے؟ ہر اہم قومی معاملے سے جڑی پراسراریت، پھر تہہ در تہہ راز، کبھی کوئی بھید اس قوم پر کھلے گا؟ اسلامی ممالک کا اتحاد اور راحیل شریف کا کردار، حقیقت کیا ہے اور فسانہ کیا، ہمارے ہاں سچائی بتانے والے کم، دبانے والے زیادہ ہیں۔
ایک برس پہلے کا قصہ ہے، جنوری کے انہی دنوں میں ایک ملاقات کا بہت چرچا ہوا۔ سعودی وزیر دفاع محمد بن سلمان اور جنرل راحیل شریف کی ملاقات۔ اسی ملاقات میں سعودی شاہ کی خواہش جنرل راحیل تک پہنچائی گئی۔ یہ خواہش کہ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ اسلامی ممالک کے اتحاد کی سربراہی سنبھالیں۔ پھر جنوری میں ہی وزیر اعظم نواز شریف نے ایک اہم فیصلہ کیا۔ سعودی عرب اور ایران کے درمیان ثالثی کروانے کا فیصلہ۔ جنرل راحیل کے ہمراہ 18 جنوری کو وہ سعودی عرب پہنچے۔ وزیر اعظم نواز شریف سے ملاقات میں سعودی شاہ سلمان نے اپنی خواہش دہرائی۔ اس کے بعد دونوں طرف معاملات خاموش رضامندی سے طے پانے لگے۔ 25 جنوری 2016ء کو جنرل راحیل نے دوٹوک اعلان کر دیا کہ وہ ایکسٹینشن نہیں لیں گے۔ اس پیش رفت کے بعد مارچ 2016ء میں سعودی عرب میں اکیس اتحادی ممالک کی مشترکہ فوجی مشقیں کرائی گئیں۔ ان مشقوں کو ''تھنڈر آف دا نارتھ‘‘ کا نام دیا گیا۔ سعودی شاہ نے وزیر اعظم نواز شریف اور جنرل راحیل کو ان مشقوں کا معائنہ کرنے کی خصوصی دعوت دی۔ وزیر اعظم اور آرمی چیف نے تین دن سعوی عرب میں گزارے، نہ صرف فوجی مشقوں کا معائنہ کیا بلکہ سعودی قیادت سے طویل ملاقاتیں بھی کیں۔ اس دورے میں اسلامی ممالک کے فوجی اتحاد کے بنیادی خدوخال پر بھی بات چیت ہوئی۔ 28 اگست 2016ء کو اتوار کی ہفتہ وار تعطیل تھی۔ اس تعطیل کے دن سعودی وزیر دفاع چند گھنٹوں کے خصوصی دورے پر اسلام آباد پہنچے۔ انہیں وزیر اعظم ہائوس میں عشائیہ دیا گیا۔ اس تقریب میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور دیگر افواج کے سربراہان کو بھی مدعو کیا گیا۔ اس دوران سعودی وزیر دفاع کی وزیر اعظم سے علیحدگی میں تفصیلی بات چیت ہوئی۔ اس وقت آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ میں صرف تین ماہ باقی تھے۔ بعض حلقوں کی جانب سے ان کی مدتِ ملازمت میں توسیع کی غیر مصدقہ اطلاعات پھیلائی جا رہی تھیں۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ سعودی عرب کو ''ایکسٹینشن‘‘ کی اطلاعات پر بے چینی تھی۔ اگر ''ایکسٹینشن‘‘ ہو جاتی تو اسلامی فوجی اتحاد کی سربراہی کا معاملہ تاخیر کا شکار ہو جاتا۔ سعودی وزیر دفاع نے اتحاد کی سربراہی کا معاملہ یاد دہانی کے طور پر پھر وزیر اعظم کے سامنے رکھا۔ وزیر اعظم نے انہیں ''پریشان نہ ہونے‘‘ کا پیغام دیتے ہوئے مکمل تعاون کا یقین دلایا۔ اس کے بعد سعودی وزیر دفاع کی رات گئے جنرل راحیل سے الگ ملاقات بھی ہوئی۔ یوں یہ معاملہ حتمی نتیجے کی جانب بڑھنے لگا۔ یہ تمام واقعات معاملے کا ایک رخ ہیں۔ اس کے ساتھ جڑی ایک کہانی اور بھی ہے۔ جنوری 2016ء میں وزیر اعظم اور جنرل راحیل ثالثی مشن پر سعودی عرب کے بعد ایران بھی گئے تھے۔ اس دورے میں ایرانی قیادت نے سعودی عرب کی سربراہی میں قائم فوجی اتحاد پر تحفظات کا اظہار کیا، ساتھ یہ بھی پوچھا کہ پاکستان کا اس اتحاد میں ممکنہ کردار کیا ہے۔ ایرانی قیادت کے مطابق یہ اتحاد دہشت گردی کے خلاف نہیں، بلکہ ایران کو تنہا کرنے اور اسے ہدف بنانے کے لیے تشکیل دیا گیا ہے۔ چند روز بعد اسلام آباد میں ایرانی سفیر نے ایک خاص بریفنگ میں اس اتحاد کو ایران کے خلاف بڑی سازش قرار دیا، یہ پیغام متعلقہ حلقوں تک بھی پہنچا دیا گیا۔ اب ایک طرف سعودی عرب جیسا دوست ملک تھا، معاشی طور پر مشکل دنوں کا دوست، ایسا ملک جس کے ساتھ پاکستانی عوام کا شدید جذباتی لگائو ہے، جس کے بے شمار احسانات وزیر اعظم نواز شریف پر بھی ہیں۔ دوسری جانب بھی اسلامی ملک ایران تھا، وہ ایران جو ہمسایہ بھی ہے، جس کی سرحد ہماری سرحد کے ساتھ ہے۔ اب مہربان دوست کو ناراض کیا جا سکتا تھا نہ ایران جیسے اہم ہمسائے کو، خاص طور پر اس وقت جب دو ہمسایوں بھارت اور افغانستان کے ساتھ تعلقات پہلے ہی کشیدہ ہیں۔ ایرانی تحفظات مکمل نظر انداز کرنے سے پاکستان میں تقسیم بھی مزید گہری ہو سکتی تھی۔ 
جنرل راحیل شریف نومبر 2016ء میں ریٹائر ہوئے۔ انہیں تین برس میں بے مثال عوامی پذیرائی ملی۔ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی کسی صورت متنازع یا غیرمقبول نہیں ہونا چاہتے تھے۔ انہوں نے اسلامی اتحاد کا سربراہ بننے کے لیے نرم الفاظ میں تین شرائط پیش کیں۔ ان میں اہم ترین نکتہ یہ تھا کہ ایران کو بھی اس اتحاد میں شامل کیا جائے۔ سعودی قیادت نے انہیں اس نکتے پر غور کا یقین دلا دیا۔ رواں برس جنوری کے آغاز میں راحیل شریف کو سعودی عرب آنے کی دعوت دی گئی۔ انہوں نے عمرہ ادا کیا اور اہم حکام سے ملاقاتیں بھی کیں۔ حکومت ان تمام معاملات سے آگاہ تھی۔ اس دوران وزیر دفاع خواجہ آصف کی الٹی سیدھی باتوں نے معاملہ پراسرار بنا دیا۔ پہلے انہوں نے تصدیق کی کہ جنرل صاحب کو فوجی اتحاد کا سربراہ بنا دیا گیا ہے۔ یہ بھی کہا کہ اس میں حکومت کی رضامندی شامل ہے۔ جب ہر طرف سے سوال اٹھنے لگے تو وزیر موصوف مکر گئے۔ سینیٹ میں ان سے جواب طلبی ہوئی تو فرمایا کہ جنرل راحیل نے حکومت سے اجازت کا سرٹیفکیٹ طلب نہیں کیا، یعنی حکومت سے اب تک اجازت نہیں لی۔ واقعی؟ کیا کوئی تصور کر سکتا ہے کہ سعودیوں نے وزیر اعظم نواز شریف کو اعتماد میں نہیں لیا ہو گا؟ کیا پاکستان کے حال ہی میں ریٹائر ہونے والے آرمی چیف کی خدمات حاصل کرنا اتنا ہی آسان ہے؟ وہ بھی ایک فوجی اتحاد کے سربراہ کے طور پر؟
پوچھنے والے پوچھتے ہیں کہ اس پورے معاملے کو اتنا پراسرار کیوں بنایا گیا؟ آئینی بحثیں اپنی جگہ، جنر ل راحیل مگر عوام میں ہمیشہ مقبول رہے، مقامات مقدسہ کے باعث پاکستانی قوم کی سعودی عرب کے ساتھ غیرمتزلزل وابستگی بھی ہے۔ اس صورتحال میں جنرل راحیل کو اسلامی اتحاد کا سربراہ بنانے کے لیے رائے عامہ ہموار کرنا ناممکن تھا؟ وسیع تر مشاورت اس کے لیے درکار تھی، سفارتی احتیاط کے ساتھ منصوبہ بندی اور ایران کے تحفظات دور کرنے کی سنجیدہ کوششیں۔ ایک ایسے اتحاد کا تاثر قائم کرنے کے لیے جو مسلکی نہیں وسیع تر اسلامی فوجی اتحاد ہو۔ نیٹو کی طرز پر، واضح مقاصد رکھنے والا۔ او آئی سی کے پلیٹ فارم سے اس اتحاد کی تجویز پیش کی جاتی تو شاید اسے پذیرائی ملتی، معاملہ اس قدر متنازع بنتا‘ نہ پاکستان کے لیے فیصلہ کرنا اتنا مشکل ہوتا۔ اتحاد میں شامل ترکی، ملائیشیا اور افریقی مسلم ممالک کی جانب سے ایران کو ٹھوس ضمانت دلوائی جا سکتی تھی۔
دہشت گردی کے خلاف جنرل راحیل نے بڑی کامیابیاں سمیٹیں، اگرچہ یہ کارنامے تنہا انہوں نے نہیں، پوری فوج نے مل کر انجام دیے۔ اسلامی ممالک کے اتحاد کو اکیلے وہ سرخرو کر سکتے ہیں؟ ظاہر ہے ایک قابل اور بڑی ٹیم انہیں درکار ہو گی، ایسی ٹیم جس کے ساتھ ان کی پیشہ ورانہ اور ذہنی ہم آہنگی ہو، کیا وہ ٹیم بھی زیادہ تر پاکستانیوں پر ہی مشتمل ہو گی؟ اس سے جڑی تفصیلات بھی شاید بھید ہی رہیں، ہر اہم قومی معاملہ ہمارے لیے پراسرار راز بنا دیا جاتا ہے، ایسا راز جو قوم پر کبھی کھلتا ہی نہیں۔ 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں