عجب غضب بدتہذیبیاں

ماحول پر چھایا گہرا سکوت، پھر ایک پراسرار آواز ابھری، رگوں میں سنسنی کی لہر دوڑنے لگی، اچانک ایک بھیانک چہرہ نمودار ہوا، قاتل بھٹکتی بدروح کا چہرہ۔ گھر میں چار برس کی تنہا بچی، خون کی پیاسی بدروح بچی کی جانب بڑھتی ہے، خوف سے آنکھوں کی پتلیاں ساکت ہو جاتی ہیں۔ یہ مناظر ہیں گزشتہ تیس برس کی سب سے ڈرائونی فلم "The Conjuring 2" کے۔ ہم تین دوست اور سینما میں موجود دیگر لوگ سکرین پر نظریں گاڑے بیٹھے ہیں، بے حس و حرکت۔ جیسے جیسے بدروح اور بچی کا فاصلہ کم ہوتا ہے، دل کی دھڑکنیں ڈوبنے لگتی ہیں۔ اس سے پہلے کہ بدروح کمسن بچی تک پہنچے، سناٹے میں ایک نسوانی آواز ابھرتی ہے، فلم کے کسی کردار کی نہیں، ہم سے پچھلی قطار میں بیٹھی ایک لڑکی کی۔ باآواز بلند بظاہر وہ اپنی سہیلیوں مگر حقیقت میں پورے ہال سے مخاطب ہوتی ہے '' یار یہ خواب دیکھ رہی ہے، یہ خواب ہے خواب، ابھی دیکھنا اس کی آنکھ کھل جائے گی‘‘۔ اس کے بعد لڑکی کی سہیلیوں کے تبصرے ہماری سماعتوں سے ٹکرانا شروع ہو جاتے ہیں۔ یوں یہ منظر کلائمیکس پر پہنچنے سے پہلے ہی دم توڑ دیتا ہے۔ اس منظر سے جڑا سارا تجسس ختم ہو جاتا ہے۔ اس پر زِچ ہو کر میں نے موصوفہ سے دورانِ فلم خاموش رہنے کی درخواست کی تو بگڑ گئیں، فخر سے فرمانے لگیں: میں یہ فلم دو مرتبہ دیکھ چکی ہوں۔ میں نے عرض کیا، اگر آپ یہ فلم دیکھ چکی ہیں تو اس کی سزا ہم سب کو کیوں دے رہی ہیں؟ اس پر وہ مجھے گھورتے ہوئے بولیں: میں اپنی سہیلیوں کو یہ فلم دکھانے لائی ہوں، ہم نے ٹکٹ لیے ہیں، ہم اپنی نشستوں پر بیٹھ کر گپیں لگائیں، ناچیں یا گانے گائیں، جو مرضی کریں، آپ کا مسئلہ کیا ہے؟ ساتھ یہ مشورہ بھی دیا کہ اگلی بار میں سینما آئوں تو پورا ہال بک کروا لیا کروں تاکہ کوئی فلم کا مزا خراب نہ کر سکے۔ میں نے عاجزی سے پوچھا: کیا ہمارے ٹکٹوں کے پیسے بھی آپ نے ادا کیے ہیں؟ کہنے لگیں: آپ کے پیسے ہم کیوں بھریں، آپ ہمیں پاگل سمجھتے ہیں؟ بالآخر میں نے معذرت کرتے ہوئے اعتراف کر لیا کہ آپ نہیں دراصل میں پاگل ہوں۔ اس کے بعد موصوفہ فلم کے ہر ڈرامائی موڑ کا انجام ایک دو منٹ پہلے بتا کر اپنی سہیلیوں سے داد وصول کرتی رہیں۔
ہمارے ساتھ اس قسم کا یہ پہلا واقعہ نہیں، یہ صورت حال ہم پہلے بھی درجنوں مرتبہ بھگت چکے ہیں۔ پاکستانی سینمائوں میں آپ صرف مزاحیہ فلم کا کسی قدر لطف اُٹھا سکتے ہیں۔ سینما ہال کی ہر قطار میں کم سے کم چار پانچ لوگ خاص مشن پر آئے ہوئے لگتے ہیں، یہ مشن کہ خود فلم کا مزا لینا ہے نہ کسی اور کو لینے دیں گے۔ عمدہ سے عمدہ رومانوی، تاریخی، جذباتی، ڈرائونی یا ''سسپنس تھرلر‘‘ یعنی تجسس بھری فلموں کا مزا کِرکرا کرنا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ کبھی گرجدار لہجے میں گپیں لگاتے ہیں، کبھی موبائل کی لائٹ چمکاتے ہیں، کبھی فون پر کھسر پھسر اور کبھی اسے میگا فون سمجھ کر باآواز بلند طویل گفتگو فرماتے ہیں۔ دور قریب کے تمام رشتہ داروں کی خیریت دریافت کرتے ہیں۔ اگلے دو چار مہینوںکے تمام معاملات بھی اسی دوران طے کرتے ہیں۔
''سِوک سینس‘‘ یعنی معاشرتی شعور نام کی کوئی چڑیا ہمارے ہاں نہیں پائی جاتی۔ آپ نوکری سے رات گئے تھکے ہارے گھر آئے ہوں، بیمار ہوں یا بمشکل آنکھ لگی ہو، صبح سورج نکلنے سے بھی پہلے، آپ کے موبائل پر، پھول بوٹوں یا چاند تاروں میں لپٹے میسج بجنے لگتے ہیں۔ کبھی رنگ برنگے گڈ مارننگ کے میسج، کبھی آج کی بات، کبھی ذومعنی پھیکے لطیفے، کبھی الٹے سیدھے شعر اور کبھی خود ساختہ اقوال زریں۔ میسج بھیجنے والوں میں آدھوں کو آپ ذاتی طور پر جانتے تک نہیں ہوتے۔ موبائل کی ''ٹِن ٹِن‘‘ پر آنکھ کھلتی ہے تو دل جل کڑھ کر رہ جاتا ہے۔ بس نہیں چلتا کہ وقت بے وقت میسج بھیجنے والوں کو زمین پر لٹا کر اُن کی ٹھکائی کی جائے۔ ہم بیچارے صحافی تو موبائل ''سائیلنٹ‘‘ بھی نہیں کر سکتے کہ موت اور خبر کا کوئی پتہ نہیںکب آجائے۔ کئی بادشاہ لوگ ایسے بھی ہیں جو آدھی رات کو فون کرکے پوچھتے ہیں کہ آپ سوئے تو نہیں ہوئے تھے؟ اگر انہیں نیند کے بوجھ تلے دبی مریل سی آواز سنائی دے تو انکشاف 
کرتے ہیں کہ کوئی اہم بات نہیں تھی، وہ صبح رابطہ کر لیں گے۔ کچھ نامعلوم افلاطون ایسے ہوتے ہیں جو فون کرکے پوچھتے ہیں کہ آپ کون بول رہے ہیں، ساتھ یہ سوال بھی داغتے ہیں کہ آپ کہاں ہوتے ہیں، پہلے اپنا تعارف کرانے کی زحمت وہ کبھی نہیں کرتے۔ سوشل میڈیا کی بات کریں تو دہشت گردی کے بعد، سب سے زیادہ پاکستانی فیس بک پر ''ٹیگ گردی‘‘ سے متاثر ہیں۔ کوئی کھا رہا ہو یا نہا رہا ہو، کہیں آ رہا ہو یا جا رہا ہو، سوتے جاگتے، اٹھتے بیٹھتے اپنی تصویریں پوسٹ کرکے ڈیڑھ دو سو لوگوں کو ٹیگ کر دیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو جن کا ان تصویروں یا پوسٹس سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں ہوتا، یعنی اپنی پوسٹس زبردستی دوسروں کو دکھائی اور پڑھائی جاتی ہیں۔ کچھ یار لوگ ایسے بھی ہیں جو بتائے بغیر آپ کو ''زرقیلے بھڑکیلے‘‘ فیس بک گروپس میں ''ایڈ‘‘ کر لیتے ہیں۔ آپ کو پتہ بھی نہیں چلتا اور آپ ''تلاشِ رشتہ‘‘ ''واہیات لطیفوں‘‘ ''موسٹ رومانٹک پیپلز‘‘ اور بازاری شاعری کے عجب غضب گروپس کے رکن بن چکے ہوتے ہیں۔ فیس بک پر کئی پوسٹس کے ذریعے آپ کے جذبہء ایمانی کا کڑا امتحان بھی لیا جاتا ہے۔ تنبیہ کی جاتی ہے کہ شیطان آپ کو یہ پوسٹ شیئر کرنے سے روکے گا، دراصل شیطان آج کل سارے کام چھوڑ چھاڑ کر فیس بک کی مانیٹرنگ کر رہا ہے۔ اگر آپ اس پوسٹ کو شیئر نہ کریں تو آپ کا دوزخ کا ٹکٹ کٹوا دیا جاتا ہے۔
ہمارے معاشرتی طور طریقے سب سے انوکھے ہیں۔ آپ کچھ کھا رہے ہوں یا پی رہے ہوں، کوئی دوست یار نمودار ہوتا ہے اور اپنے گیلے ہاتھ آپ کے ہاتھوں سے ملا لیتا ہے۔ ہاتھ دھونے کے بعد پونچھنے کی زحمت کم ہی گوارا کی جاتی ہے۔ الٹا پانچ چھ لوگوں سے ہاتھ ملا کر ان کے ہاتھ بھی گیلے کر دیے جاتے ہیں۔ سڑک پر ٹریفک جام ہو، آپ کی گاڑی کے دائیں بائیں اور آگے بیسیوں گاڑیاں ساکت کھڑی ہوں، پھر بھی پچھلی گاڑی والا ہارن بجا بجا کر آپ کے کان پھاڑ دیتا ہے۔ ہائی ویز پر موٹرسائیکلوں والے لہراتے بل کھاتے آپ کی گاڑی کو غلط سائیڈ سے اوورٹیک کرتے ہیں۔ اس دوران حادثہ ہوتے ہوتے رہ جائے تو گردن گھما کر آپ کو گھوریاں بھی ڈالتے ہیں۔ گزشتہ رات ہائی وے پر نئے ماڈل کی ایک کار نے ''ہائی بیم لائٹ اور ''ڈِپر‘‘ مار مار کے میری آنکھیں چندھیا دیں۔ اتفاق سے ٹریفک سگنل پر وہ کار میری گاڑی کے دائیں جانب آکھڑی ہوئی۔ میں نے شیشہ نیچے اتارا اور ڈرائیو کرنے والے حضرت سے کہا کہ بھائی ہیڈ لائٹس میں ''لو بیم‘‘ کا آپشن بھی ہوتا ہے، مجھے تو آپ نے آدھا اندھا کر دیا ہے، آگے باقیوں پر رحم فرمائیے گا۔ اس پر انہوں نے زوردار فاتحانہ قہقہہ لگایا۔ ساتھ یہ بھی کہا کہ انہوں نے نئی کار پر ایک لاکھ روپے ''اون‘‘ دیا ہے، چند دن کا ''ششکا‘‘ تو بنتا ہے۔ ہماری اجتماعی ''بد تہذیبیاں‘‘ دراصل ہماری قومی عادتیں بن چکی ہیں اور فلمی مکالموں کے مطابق عادتوں سے جان چھڑانا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہوتا ہے۔ 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں