بارود کے ڈھیر سے کونپلیں نہیں، آگ پھوٹتی ہے، بھسم کر دینے والی آگ، وہ آگ جو انسان جلا ڈالتی ہے اور انسانی بستیاں بھی۔ ہماری دنیا میں انسان کم، بم اور میزائل زیادہ ہیں۔ بارود پر بسی دنیا کا انجام کتنا بھیانک ہو گا، یہ اندازہ لگانا مشکل ہے؟
بھارت کا سالانہ دفاعی بجٹ 45 کھرب روپے سے بڑھ چُکا، کُل قومی خرچ کا 13 فیصد۔ بھارت کے مجموعی دفاعی اخراجات روس سے بھی زیادہ ہو چکے۔ اس کے پاس 90 سے 110 ایٹم بم ہیں۔ براہموس، سوریا، اگنی اور پرتھوی میزائلوں پر کھربوں روپے پھونکے جا رہے ہیں۔ دنیا کے سب سے اونچے برفانی محاذ سیاچن پر بھارت کو ہر روز 8 کروڑ یعنی ہر ماہ تقریباً اڑھائی ارب روپے خرچ کرنا پڑتے ہیں۔ اس خود ساختہ محاذ پر بھارت اب تک پانچ کھرب روپے خرچ کر چکا۔ مقبوضہ کشمیر میں سات لاکھ بھارتی فوجیوں کا خرچ کتنا ہو گا؟ یہ الجبرے کا کوئی پیچیدہ سوال نہیں۔ ممتاز عالمی جریدے کے مطابق بھارت ریاست کرناٹک میں خفیہ ایٹمی شہر بھی بنا رہا ہے۔ اس مرکز میں ''تھرمونیوکلیئر‘‘ ہتھیار تیار کرنے کا منصوبہ ہے۔ تھرمونیوکلیئر بم عام ایٹم بم سے دوگنا زیادہ تباہی مچا سکتے ہیں۔ دو برس پہلے جدید سیٹلائٹ سے اس مرکز کی تصاویر بھی لی جا چکیں۔ ایٹمی توانائی کے عالمی ماہرین اس پراسرار مرکز کو خطے کے لیے تباہ کن قرار دے چکے ہیں۔ ماہرین کے مطابق بھارت میں ایٹمی مواد کے حفاظتی انتطامات ایران اور شمالی کوریا کے بعد سب سے زیادہ ناقص ہیں۔ اس ایٹمی مرکز کے اطراف 27 کلومیٹر کے علاقے میں 15 فٹ اونچی دیواریں بنائی جا رہی ہیں۔ جوہری سرگرمیوں کے وجہ سے اس علاقے میں زمین کے نیچے پانی مکمل طور پر ختم ہو چکا۔ فصلیں تباہ ہو گئیں، قحط سے درجنوں افراد موت کا شکار ہوئے اور پُراسرار خشک سالی سے تنگ 101 کسانوں نے خود کشی کر لی۔ موت بانٹنے والے اس ایٹمی مرکز پر اربوں ڈالرز خرچ کیے جا چکے۔ بیرون ملک سے جنگی سامان خریدنے میں بھی بھارت دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔ یہ وہی بھارت ہے جہاں 18 لاکھ افراد فٹ پاتھ پر سوتے ہیں، جہاں 8 کروڑ افراد ایک دن میں سو روپے سے بھی کم کماتے ہیں، جہاں ہر 2 ہزار افراد کے لیے صرف ایک ڈاکٹر ہے، جہاں 1100 افراد کے لیے ہسپتالوں میں اوسطاً ایک بستر ہے، جہاں 60 کروڑ افراد کو گھروں میں بیت الخلا دستیاب نہیں۔ وہ بھارت جو طبی سہولتوں میں دنیا میں 143ویں نمبر پر ہے، جہاں طبی سہولتیں نہ ہونے کے باعث اوسطاً ہر سال 50 ہزار خواتین دوران زچگی فوت ہو جاتی ہیں۔ یہ شرح دنیا کے تمام ممالک سے زیادہ ہے۔ وہ بھارت جہاں ہر سال 13 لاکھ بچے پیدائش کے فوراً بعد انتقال کر جاتے ہیں، جہاں 18 کروڑ افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، جہاں 11 کروڑ افراد بے روزگار ہیں۔ وہ بھارت جہاں 8 کروڑ بچے سکول نہیں جاتے۔ وہ بھارت جو غذائی قلت اور بھوک کی درجہ بندی میں 118 ممالک میں 97ویں نمبر پر ہے۔
نہلے پر دہلا، جیسے کو تیسا، پاکستان بدحالی اور مفلسی میں بھارت کی ٹکر پر ہے۔ 8 کروڑ لوگ یہاں بھی غربت کی لکیر سے نیچے ہیں۔ بھوک کی عالمی درجہ بندی میں پاکستان 118 ملکوں میں 107ویں نمبر پر ہے، صرف قحط اور جنگ زدہ چند ملک پاکستان سے پیچھے ہیں۔ بنگلہ دیش بھی ہم سے 17 درجے آگے ہے۔ پاکستان میں ہر سال تین لاکھ بچے غذائی قلت کے باعث پانچ سال کی عمر سے پہلے انتقال کر جاتے ہیں۔ ہر ایک ہزار میں سے چالیس بچے پیدائش کے پہلے ہی دن فوت ہو جاتے ہیں، پاکستان میں یہ شرح تمام ممالک سے زیادہ ہے۔ ہر برس زچگی کے دوران اٹھائیس ہزار پاکستانی خواتین کی موت ہو جاتی ہے۔ ہر 1683 مریضوں کے لیے ہسپتالوں میں صرف ایک بستر دستیاب ہے۔ ہر ایک ہزار اڑتیس مریضوں کے علاج کے لیے صرف ایک ڈاکٹر جبکہ ہر دو ہزار مریضوں کے لیے صرف ایک نرس ہے۔ تعلیم پر قومی آمدن کا صرف 2.2 فیصد جبکہ صحت عامہ پر صرف 0.8 فیصد حصہ خرچ کیا جارہا ہے۔ ایک کروڑ ساٹھ لاکھ پاکستانیوں کو صاف پانی میسر نہیں۔ صاف پانی کی عدم فراہمی کے حوالے سے پاکستان کا نمبر آخری دس ممالک میں ہے۔ گندے پانی کی وجہ سے ہر برس تیس لاکھ پاکستانی خطرناک امراض کا شکار ہو جاتے ہیں۔ پاکستان میں اڑتالیس فیصد سکولوں میں چاردیواری، ٹوائلٹ اور پانی کی سہولت نہیں۔ سولہ برس تک کے اڑھائی کروڑ بچے سکول ہی نہیں جاتے۔ اسی پاکستان میں دفاع کا بجٹ 860 ارب روپے ہے جبکہ ترقیاتی بجٹ اس سے 60 ارب روپے کم ہے۔
بھارتی عقاب پاکستان کے پانچ شہروں کو ایٹمی نشانے پر رکھنے کی بڑھک مارتے ہیں۔ یہ شہر کیا ہوتے ہیں؟ شہر تو انسانوں سے بستے ہیں، مطلب اصل منصوبہ شہر تباہ کرنے کا نہیں، دس بارہ کروڑ انسانوں کو زندہ بھوننے کا ہے۔ جو بچ جائیں گے، ان کی اگلی سات نسلیں بھی اپاہج ہوں گی۔ بھارت پاکستان سے کئی گنا بڑا ملک ہے۔ اس نے 1974ء میں ایٹمی دھماکا کرکے خطے میں خطرے کی نئی گھنٹی بجا دی۔ پھر دونوں ملکوں کے درمیان گولا بارود، ٹینکوں، آبدوزوں، جنگی جہازوں اور میزائلوں کی دوڑ شروع ہو گئی۔ 1998ء میں بھارت نے دوسرا ایٹمی دھماکا کر دیا، اس کے جواب میں پاکستان نے بھی ایٹمی دھماکا کر ڈالا، یوں دونوں طرف بظاہر امن لیکن درحقیقت خوف کا توازن قائم ہو گیا۔ دونوں ملکوں کو یقین ہو گیا کہ اب وہ ایک دوسرے پر حملہ نہیں کریں گے۔ اس کے بعد جنگی جنونیت اور اسلحے کی دوڑ ختم کرنے کے بجائے نیا کھیل کھیلا جانے لگا۔ دونوں طرف ایٹم بم چلانے کے لیے ''ڈبل اور ٹِرپل اسٹرائیکس‘‘ کے نظام اور جوہری ہتھیار لے جانے والے نت نئے میزائلوں کا مقابلہ شروع ہو گیا۔