جنگ تو جنگ ہے، دشمن پھول نہیں، بارود ہی برساتا ہے۔ ایک نہیں، بیک وقت کئی سفاک دشمنوں کا ہمیں سامنا ہے، کبھی غیروں کے دیس سے، کبھی اپنوں کے بھیس میں، زخم پر زخم ہمیں لگائے جا رہے ہیں۔ دشمن وار کرتا ہے، کبھی سامنے آکر، کبھی چُھپ چُھپا کر۔ دشمن کو مات دینا ایسا ناممکن بھی نہیں، مگر ہم خود بھی اپنے دشمن بن جائیں تو؟ نتیجہ ہمارے سامنے ہے، پشاور، لاہور اور سیہون شریف میں ہماری لاشوں کے انبار۔
دشمن سے بھی کوئی رحم کی توقع کر سکتا ہے؟ دہشت گردوں کو ہم بہت کوستے ہیں، اس بات پر کہ آسان اہداف کو وہ نشانہ بناتے ہیں۔ پوچھنے والے مگر آسان اہداف کی تشریح پوچھتے ہیں، سکول، ہسپتال، مزار اور بازار؟ ایسے آسان اہداف تو دنیا کے ہر ملک میں ہیں، وہاں کسی عوامی مقام پر دہشت گردی ہو جائے تو ریاستی ردعمل کیا ہوتا ہے؟ صرف یہ کہ چند روز کے لیے حفاظتی انتطامات بڑھا دیے جائیں؟ ہرگز نہیں، تمام حکومتی اور سکیورٹی ادارے سر جوڑ کر بیٹھتے ہیں، صرف تصویری نمائش کے لیے نہیں، قومی سلامتی کی ٹھوس پالیسی بنانے کے لیے۔ پہلے ذمہ داروں کا تعین ہوتا ہے، پھر ہر متعلقہ ادارے کے لیے اہداف مقرر کیے جاتے ہیں، دہشت گردوں کے پورے نیٹ ورک کا کھوج لگانے کے لیے، خفیہ معلومات جمع کرنے کا بہتر نظام بنانے کے لیے اور مطلوبہ قانون سازی کے لیے۔ یوں برسوں دوبارہ دہشت گردی کا کوئی بڑا واقعہ نہیں ہونے دیا جاتا۔ تقریبا سولہ برس ہوتے ہیں، امریکا میں نائن الیون حملے ہوئے، پھر ایسی سکیورٹی پالیسی بنائی گئی کہ دوبارہ کوئی نائن الیون نہیں ہو سکا۔ جولائی 2005ء میں لندن بم دھماکوں سے لرز اُٹھا، 52 افراد لقمہ اجل بنے، یہ واقعہ ''سیون سیون‘‘ کہلایا۔ ساڑھے گیارہ برس بیت چکے، برطانیہ نے دوبارہ سیون سیون نہ ہونے دیا۔11 مارچ 2004ء کو سپین میں دھماکوں میں 191 افراد ہلاک ہوئے۔ اس واقعہ کو ''الیون ایم‘‘ کا نام دیا گیا۔ تیرہ برس ہونے کو ہیں، سپین نے دوبارہ ''الیون ایم‘‘ جیسا واقعہ نہیں ہونے دیا۔ ہمارے ہاں آئے روز ایسے سانحات ہوتے رہتے ہیں، اس پر ہمارا ریاستی ردعمل کیا ہوتا ہے؟ سکول پر حملہ ہو، سکولوں کی سکیورٹی بڑھا دو، بازار پر حملہ ہو، بازاروں کی سکیورٹی بڑھا دو، مزار پر حملہ ہو، مزاروں کی سکیورٹی بڑھا دو۔ اس سے آگے ہماری سوچ بڑھتی ہی نہیں۔ پھر ہم لمبی تان کر سو جاتے ہیں اور جاگنے کے لیے نئے سانحے کا انتظار کرتے ہیں۔ یعنی ہمارا مرکزی ہدف دہشت گردوں کے نیٹ ورکس کا خاتمہ نہیں، ان کے مالی سرپرستوں کا خاتمہ نہیں، ان کی فکری تربیت کرنے والوں کا خاتمہ نہیں، ان کے نظریے کا خاتمہ نہیں، ہمارا اصل ہدف یہ ہے کہ دہشت گردوں کو ان کے اہداف تک نہ پہنچنے دیا جائے، وہ بھی نام نہاد اور ناقص حفاظتی انتطامات کے ساتھ۔
دہشت گردی روکنے کے لیے ہماری اہم ترین حکمت عملی کیا ہے؟ بس یہ کہ دھماکوں کی پیشگی اطلاع دینے والے مراسلے دھڑا دھڑ جاری کیے جائیں۔ ایسے مبہم مراسلے کہ کسی مخصوص ہدف کی نشاندہی نہ کسی خاص علاقے میں دہشت گردوں کی موجودگی کی اطلاع۔ ان مراسلوں میں آدھے متعلقہ محکموں کو دھماکے ہونے کے بعد ملتے ہیں۔ پاکستان میں 33 سکیورٹی ادارے ہیں، ان میں باہمی رابطوں کا کوئی باضابطہ نظام نہیں، یہ ادارے اپنے طور پر مراسلے جاری کرکے بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔ نیشنل ایکشن پلان کے تحت ایک جوائنٹ انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ بنانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ اس کا مقصد تمام سکیورٹی اداروں کی خفیہ معلومات کو ایک جگہ اکٹھا کرنا، اِن پر باریک بینی سے تحقیق کرنا اور انہیں بروقت متعلقہ اداروں تک پہنچانا تھا۔ چھبیس ماہ گزر گئے، یہ منصوبہ اب تک بھاری فائلوں تلے دبا ہے۔
ہم ایک پیچیدہ میدان جنگ میں، پیچیدہ ترین جنگ لڑ رہے ہیں، سو فیصد درست۔ ایک ایسے دشمن سے، جو ہماری گلیوں، ہمارے محلوں میں، ہمارے درمیان ہی رہتا ہے، جس کی شکل، جس کی بولی، جس کا لہجہ ہمارے جیسا ہے، جس کی وضع قطع، چال ڈھال اور لباس ہمارے جیسا ہے، جس کی دشمن جیسی کوئی مخصوص وردی یا کوئی اور خاص شناخت نہیں۔ وہ ہمارے آس پاس بھی ہو تو ہمیں پتہ ہی نہیں چلتا، کون، کب، کہاں پھٹ جائے۔ سرحد کے دو اطراف سے بھی ہم پر جنگ مسلط کی جا چکی۔ بھارت پوری عیاری سے پاکستان کے گِرد جال بُن رہا ہے، منصوبہ واضح
ہے، عالمی سطح پر پاکستان کو ناکام ریاست ثابت کرنا، ایسی ریاست جہاں دہشت گردوں کا غلبہ ہے، خطے میں پاکستان کو ہمسایوں سے الگ تھلگ کرنا، ایران کو اپنا حلیف اور پاکستان کا حریف بنانا، افغانستان اور پاکستان کے درمیان نفرت اور دشمنی کے بیج بونا۔ ایرانی بندرگاہ چاہ بہار پر بھارت کا دفاعی اور سٹریٹیجک اڈہ بنانے کے لیے اربوں روپے کی سرمایہ کاری شروع ہو چکی۔ پاکستان میں دہشت گردی کروانے والا کلبھوشن یادیو کا نیٹ ورک کوئی فسانہ نہیں حقیقت ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری کی مخالفت بھارت علی الاعلان کر چکا۔ اُدھر افغان حکومت بھی بھارتی آقائوں کے ہاتھوں میں کھیلنے لگی ہے۔ سرحد پار سے پاکستان پر مسلسل حملے ہو رہے ہیں، اُلٹا زہر بھی ہمارے خلاف ہی اگلا جا رہا ہے۔ پاکستان نے طورخم سرحد کی نگرانی کا نظام بنانے کی کوشش کی تو افغان حکومت نے تنازعہ کھڑا کر دیا۔ افغان خفیہ ایجنسی این ڈی ایس بھارتی ایجنسی ''را‘‘ کے ساتھ مل کر دہشت گرد پاکستان بھجوا رہی ہے، یہی ایجنسیاں پاکستان میں موجود دہشت گردوں کے کچھ نیٹ ورکس کی سہولت کار بھی ہیں۔ دھماکوں کی حالیہ لہر بھی انتہائی پراسرار ہے، ان دھماکوں کی ذمہ داری قبول کرنے والی کالعدم تنظیم کافی عرصے سے غیر فعال تھی، اس کے کمانڈرز افغانستان میں پناہ لیے ہوئے تھے، یہ تنظیم اچانک کیسے فعال ہو گئی؟ ایک تنظیم نے اپنے ''مِشن‘‘ کو جو نام دیا ہے اس کا پس منظر دس برس پرانا ہے، اتنے عرصے بعد اچانک
یہ ''مِشن‘‘ زندہ کیسے ہو گیا؟ دوسری جانب محسودوں کا دھڑا کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے الگ ہو چکا تھا، تنظیم کے اندر کئی گروہ بن چکے تھے، یہ گروہ ایک دوسرے پر جان لیوا حملے بھی کرتے رہے۔ پھر اچانک محسودوں کا دھڑا تحریک طالبان میں کیسے واپس آ گیا؟ کیا یہ سب دہشت گردوں کے خلاف کسی حالیہ بڑی کارروائی کا ردعمل ہے؟ دفاعی ماہرین کے مطابق ہرگز نہیں، آپریشن ضرب عضب تو اڑھائی سال سے جاری ہے۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ دہشت گردوں کے غیر فعال دھڑوں کو منصوبہ بندی کے تحت فعال کیا گیا ہے، انہیں دوبارہ ایک جگہ جمع کرکے منظم کیا جا رہا ہے، ایک ایسے وقت میں جب عالمی سطح پر پاکستان میں دہشت گردی کے خاتمے کا تاثر ابھر رہا تھا، جب اقتصادی راہداری منصوبہ پاکستان کی ترقی و خوشحالی کا ضامن بن رہا تھا۔ ان سازشوں کے تانے بانے کہاں ملتے ہیں، سارا بھید کُھل چکا۔ یہ تمام زمینی حقائق اپنی جگہ، لیکن اس سے بڑی حقیقت کچھ اور ہے۔ میدان جنگ جتنا بھی پیچیدہ ہو، جنگیں ہارنے کے لیے نہیں، جیتنے کے لیے لڑی جاتی ہیں۔ سرحد پار سے دہشت گردوں کی سرپرستی ایک طرف، بیرونی اشاروں پر ناچنے والے زیادہ تر دہشت گرد تو پاکستان میں ہی ہیں، سرحد پار والوں سے نمٹنے سے پہلے ان سے نمٹنا ضروری ہے۔ دسمبر 2014ء میں سانحہ آرمی پبلک سکول کے بعد نیشنل ایکشن پلان بنا، دو سال سے یہ پلان کاغذوں میں دفن ہے، ان گیارہ سو لاشوں کے ساتھ جو ہم نے پچھلے دو برس میں دفنائیں۔ اب ہم نے اپنی بقا کی جنگ لڑنی ہے یا فنا ہونا ہے، فیصلہ کسی اور کے نہیں، ہمارے اپنے ہاتھوں میں ہے۔