زبان عرش پر پہنچا سکتی ہے، عرش سے فرش پر بھی۔ پہلے تولو، پھر بولو، صدیوں کے مشاہدوں کا یہ نچوڑ ہے۔ جس کی زبان قابو میں نہیں، بے وقعتی کو اُس نے اپنا مقدر بنا لیا۔ یہ کسی عام شخص کا نہیں، حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے، وہ علی ؓ جنہیں علم کا دروازہ قرار دیا گیا۔
عمران خان جذباتی بہت ہیں، غیر محتاط بھی۔ بولتے پہلے ہیں، سوچتے بعد میں ہیں۔ پی ایس ایل کا فائنل لاہور میں ہی ہونا چاہیے، پوری قوم کی یہ آواز تھی، عمران خان مگر لکیر کے دوسری طرف کھڑے ہو گئے۔ اپنی غلطی سدھارنے کے بجائے، اس کے نت نئے جواز وہ تراشتے رہے۔ انسان خطا کا پُتلا ہے، غلطی کسی سے بھی ہو سکتی ہے۔ برنارڈ شا نے کہا تھا: کامیابی کا راز یہ نہیں کہ کبھی غلطی ہی نہ ہو، کامیابی یہ ہے کہ ایک ہی غلطی دوبارہ نہ کی جائے۔ عمران خان اپنی غلطی پر ڈٹے رہے، اس حد تک کہ ایک اور بڑی غلطی وہ کر بیٹھے، لاہور آنے والے غیرملکی کھلاڑیوں کو ریلو کٹّے اور پھٹیچر انہوں نے قرار دے ڈالا۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ عمران خان اب پشیمان ہیں، وضاحتیں انہیں بہت دینا پڑیں، کمان سے نکلا تیر اور منہ سے نکلی بات واپس نہیں آتی، بس اتنی سی بات سمجھنی ہے عمران خان کو۔ مقبول وہ اب بھی ہیں، مقبولیت کا نشہ لیکن اعصاب مفلوج کر ڈالتا ہے۔
سر ویوین رچرڈز حیران ہوں گے، مشہور زمانہ کرکٹ ڈکشنر ی وِزڈن میں ان کا نام درج ہے، ایک روزہ میچوں کے عظیم ترین بیٹسمین کے طور پر۔ اب وہ پاکستانی ڈکشنری میں ''پھٹیچر‘‘ کے معنی تلاش کرتے ہوں گے۔ ریلو کٹّا قرار دیے گئے ڈیرین سیمی اس سال انڈین پریمیئر لیگ میں کنگز الیون پنجاب کا حصہ ہوں گے۔ ویسٹ انڈیز کو انہوں نے دو مرتبہ ٹی ٹونٹی کا عالمی چیمپین بنوایا۔ کرکٹ کا ہی نہیں، دلوں کا فاتح بھی انہیں کہا جاتا ہے۔ سیمی ہی وہ غیرملکی کھلاڑی تھے جنہوں نے سب سے پہلے پاکستان آنے کا اعلان کیا۔ پھٹیچر مارلن سیموئلز کو 2013ء میں ''وِزڈن‘‘ نے سال کا بہترین کرکٹر قرار دیا، ٹی ٹونٹی ورلڈ کے دو فائنلز میں مین آف دا میچ کا منفرد اعزاز ان کے نام ہے۔ مجموعی طور پر وہ 21 مرتبہ یہ ایوارڈ جیت چکے ہیں۔ اس وقت بھی وہ ویسٹ انڈیز کی قومی ٹیم کے لیے کھیلتے ہیں۔ پاکستان میں پھٹیچر کا خطاب پانے والے کرس جورڈن بھی اس مرتبہ آئی پی ایل کھیلیں گے۔ وہ سن رائز حیدر آباد کی ٹیم میں شامل ہیں۔ جورڈن 2016 کے ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ میں انگلینڈ کی ٹیم کا حصہ تھے۔ 2016 میں ہی وہ پاکستان اور سری لنکا کے خلاف سیریز کھیلے، رواں برس بھارت کا دورہ کرنے والی ٹیم میں بھی وہ شامل تھے۔ لاہور آنے والے ایک اور پھٹیچر ڈیوڈ مالان تو بڑے جذباتی نکلے، کہتے ہیں کہ پاکستان آنے کے معاملے پر سنگین خدشات تھے، پھر بھی ایک جذبہ تھا کہ پاکستان میں اعلیٰ درجے کی کرکٹ واپس آنی چاہیے۔
عمران خان کی بات اگر مان بھی لی جائے، فرض کریں لاہور آنے والے غیرملکی کھلاڑی ریلو کٹّے ہی ہیں، کیا ریلو کٹّوں کو جان پیاری نہیں ہوتی؟ اگر یہ ریلو کٹّے بھی پاکستان آنے سے انکار کر دیتے تو کیا ہوتا؟ انہی ریلو کٹّوں کی وجہ سے عالمی میڈیا میں پی ایس ایل فائنل کی مثبت سرخیاں لگیں۔ انہی پھٹیچروں کی وجہ سے رواں برس ستمبر میں ورلڈ الیون کے دورہ پاکستان کی راہ ہموار ہوئی۔ جائلز کلارک برطانوی کرکٹ بورڈ کے صدر اور آئی سی سی کی پاکستان ٹاسک فورس کے سربراہ ہیں۔ اُن کا کہنا ہے پی ایس ایل فائنل سے ظاہر ہو گیا کہ لاہور میں کرکٹ ہو سکتی ہے۔ ورلڈ الیون 22 سے 29 ستمبر تک لاہور میں چار میچ کھیلے گی۔ کلارک نے تمام بورڈز سے اپیل کی کہ کرکٹ بحالی کے لیے پاکستان کی مدد کی جائے، ایک ہم ہیں جو خود اپنی مدد کو تیار نہیں، یہاں آنے والوں کو پھٹیچر کہہ کر اُن کی توہین اور حوصلہ شکنی کر رہے ہیں۔ ریلو کٹّوں اور پھٹیچر کے القابات تو ایک طرف، یہ بھی کہا گیا کہ لگتا ہے انہیں افریقہ سے پکڑ کر لایا گیا۔ اگر کسی مغربی معاشرے میں ایسی بات کہی جاتی تو یہ نسلی تعصب کا معاملہ بھی بن جاتا۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ نسلی تعصب کا الزام کیسے کیسے رہنمائوں کی سیاست زندہ دفن کر چکا۔
عمران خان دنیائے کرکٹ میں پاکستان کا سب سے روشن چہرہ ہیں۔ پی ایس ایل فائنل میں غیرملکی کھلاڑیوں کو پاکستان لانے کے لیے ان کی آواز سب سے زیادہ موثر ثابت ہو سکتی تھی۔ وہ محض ایک سیاسی پارٹی کے رہنما کا نہیں، قومی رہنما کا کردار ادا کر سکتے تھے۔ غیرملکی کھلاڑیوں کو بلاتے، عوام کا حوصلہ بڑھاتے اور خود بھی میچ دیکھنے پہنچ جاتے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ اس طرح وہ سیاسی کریڈٹ بھی لے سکتے تھے، جاننے والے اگرچہ جانتے ہیں کہ تحریک انصاف میںکُڑھنے والے لوگ زیادہ، غور و فکر کرنے والے کم ہیں۔ پی ایس ایل فائنل پر عمران خان کا موقف غلط تھا، خود تحریک انصاف کے کارکنوں نے یہ ثابت کر دیا، وہ ہزاروں کارکن جو سٹیدیم میں میچ دیکھنے کے لیے موجود تھے۔ عمران خان اپنی غلطی اگر سدھار نہیں سکتے تو اس معاملے پر خاموشی ضروری اختیار کر سکتے ہیں۔ پھٹیچر اور ریلو کٹّے جیسے الفاظ نے کرکٹ کے لاکھوں دیوانوں کے دل چھلنی کر دیے ہیں۔ یہ القابات سن کر غیرملکی کھلاڑیوں پر کیا بیتی ہو گی، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ دوسری جانب کئی یار لوگ عمران خان پر تنقید میں تمام حدیں پھلانگ رہے ہیں۔ کئی ایسے بھی ہیں جنہیں کرکٹ سے محبت کم، عمران سے عداوت زیادہ ہے۔ بہت سے ایسے ہیں جو کرکٹ کی الف ب تک نہیں جانتے۔ ملک کے ہر معاملے کو گھما پھرا کر وہ ''پھٹیچر اور ریلو کٹّے‘‘ کی جانب لے آتے ہیں۔ انہیں بس عمران خان کے خلاف دل کی بھڑاس نکالنے کا موقع درکار ہوتا ہے، یہ بھڑاس وہ اتنے بھونڈے طریقے سے نکالتے ہیں کہ ان کا تعصب چھپائے نہیں چھپتا۔ بہت سے ایسے ہیں جو صرف سیاسی حساب برابر کر رہے ہیں، جاوید لطیف کی ''پھٹیچر ترین‘‘ سوچ پر ان کے منہ کو تالے لگے ہوئے ہیں۔ جاوید لطیف کی بدزبانی ایک طرف، ان کے اور عمران خان کے سیاسی قد کاٹھ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ عمران خان ایک بڑے سیاسی رہنما بن چکے ہیں، بڑے رہنما ہمیشہ بولنے سے پہلے تولتے ہیں، ان کی زبان سے نکلے الفاظ آگ لگا بھی سکتے ہیں اور بجھا بھی سکتے ہیں۔