آزادی ِاظہار سے کس کو انکار ہے ؟ آزادیِ دل آزاری مگر کیا ہے ؟گستاخانہ مواد پر دِل دُکھتے بہت ہیں ،اسلام اگرچہ جذبات کا نہیں، حکمت کا دین ہے ۔ اُس رب کا دین جس کی رحمت، غضب پر غالب ہے، اُس نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دین، جنہیں دو جہانوں کے لیے رحمت قرار دیا گیا۔
روشن خیالی دل دُکھانے کا نہیں، دل لُبھانے کا نام ہے ، نفرتیں پھیلانے کا نہیں، مِٹانے کا نام ہے ۔ خیالات اور اظہارپر پہرہ لگانے کا یہ معاملہ نہیں، جان بوجھ کر مگردوسروں کوذہنی اذیت دینے کا جواز کیا ہے ؟ایسا اظہارجس کا مقصد تعمیری نہیں، تخریبی ہو؟ ایسا اظہار جس کامقصد علمی بحث کے بجائے ، باولے جنگلی بھینسے کی طرح بِلامقصد ٹکریں مارنا ہو؟سوال لیکن ایک اور بھی ہے۔ سوشل میڈیا پر ایسے بھینسوں کی زد میں آنے کی ضرورت ہی کیا ہے ؟جوابی ٹکر مارنے کے بجائے، صرف ایک سیکنڈ میں، بلاک کا ایک بٹن دبا کر ، ان بھدے بھینسوں کودفعہ دور کیا جا سکتا ہے ۔
روشن خیالی ایک باریک لکیر پر چلنے کا نام ہے ، ایسی لکیر جس کے ایک طرف گھٹن اور استحصال ہے ، جہاں خیا لات دبا دیے جاتے ہیںاورنظریات بھی،جذبات بھی اور آواز بھی ، اپنی پسند،اپنی سوچ ، دوسروں پر مسلط کر دی جاتی ہے ۔دوسروں کا رہن سہن، لباس اور چال ڈھال تک اپنی سوچ کے دائرے میں قید کر دیے جاتے ہیں۔ اسی لکیر کے دوسری طرف خود غرضانہ آزادی ہے۔ اپنی انا کی تسکین کے لیے، دوسروں کے جذبات مجروح کرنے کی آزادی ، اظہار کی آڑ میں دوسروں کوذہنی اذیت دینے کی سفاکانہ آزادی ۔ روشن خیالی پر بہت سوں کے معیار دہرے ہیں ۔مشرق میںوہ مذاہب کے خلاف ہرزہ سرائی کو بھی آزادی اظہار قرار دیتے ہیں، مغرب میں مگر ان کی زبان کو تالے لگ جاتے ہیں ۔ تاریخی حوالوں کے مطابق دوسری جنگ عظیم میں ہٹلر نے ساٹھ لاکھ یہودی قتل کیے ، ان میں پندرہ لاکھ بچے بھی شامل تھے ۔اس واقعہ کویہودیوں کی منظم نسل کشی قرار دیا گیا ،تاریخ میں اسے ''ہولو کاسٹ‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ یورپ کے 14ممالک میں اس واقعہ کو جھوٹ کہنا بھی قابل سزا جرم ہے ۔جرمن نژاد آسٹریلوی مصنف ''جیرالڈ فریڈرک ‘‘ ''ایڈیلیڈ انسٹیٹوٹ‘‘ کے نام سے ایک گروپ چلاتے تھے۔ 1995میں بنائے گئے اس گروپ نے ہولو کاسٹ کو جھٹلانا شروع کیا ۔ جیرالڈ نے ایک مرتبہ لکھا ''اگر آپ نے ہولو کاسٹ پر شک کا اظہار شروع کیا تو ذاتی قربانی کے لیے تیار رہیں،اپنی شادی اورخاندان کو بکھرتا دیکھنے کے لیے تیار رہیں ،پھر اپنے کیریئر کے خاتمے اورجیل جانے کے لیے بھی تیار رہیں ــ‘‘۔ ہولوکاسٹ پر شک کے جرم میں جیرالڈ کو 1998میں گرفتار کر لیا گیا اورانہیں 7ماہ قید بھگتنا پڑی ۔انہیں 2008
میں برطانیہ میں بھی پچاس روز جبکہ 2009میں آسٹریلیا میں نوے روز قید کی سزا سنائی گئی۔ ڈیوڈ ارون برطانوی مصنف ہیں۔ انہوں نے دوسری جنگ عظیم کے واقعات پربھی کتابیں لکھیں ۔ ڈیوڈ نے اپنی کتابوں اورلیکچرز میں دعوی کیا کہ ہولوکاسٹ کے واقعات بڑھا چڑھا کر پیش کیے جاتے ہیں ۔ ہولو کاسٹ کو مبالغہ آرائی
قرار دینے کے جرم میں کئی یورپی ملکوں میں ڈیوڈ کے داخلے پر پابندی لگا دی گئی ، آسٹریا کی حکومت نے ان کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے ۔اٹلی اور کینیڈا میں بھی انہیں گرفتار کیا گیا ۔ ڈیوڈ کو ایک مقدمے میں بیس لاکھ پاونڈ کاجرمانہ بھی کیا گیا ۔آسٹریا کے مصنف گرڈ ہونسک بھی ہولوکاسٹ کو جھوٹ قرار دینے پر کئی مرتبہ جیل کی ہوا کھا چکے ہیں ۔مغرب میں اس الزام پر تین چار نہیں، درجنوں افراد سزا بھگت چکے ہیں ۔ کچھ ممالک میں اس جرم پر دس سال تک قید کی سزا بھی ہو سکتی ہے ۔ آزادی اظہار کا دعوید ار کوئی پاکستانی بھینسا ان مغربی ممالک میںہولوکاسٹ پر کوئی متنازع بات کرسکتا ہے ؟
مغرب کی بات ایک طرف ، گستاخانہ مواد کے معاملے پر ہمارا ردعمل منطقی نہیں، جذباتی ہے ۔بغیر تحقیق کسی پر الزام لگانا ، خود ہی وکیل بن کر اس الزام کو ثابت کرنا ، پھر خود ہی منصف بن کر فتوے جاری کرنے کا جواز کیا ہے ؟ ایسے معاملات پر کارروائی کا اختیار صرف ریاست او راس کے قانونی اداروں کا ہے ۔ پاکستان میں نفرت انگیز مواد کی تشہیر قابل سزا جرم ہے ۔ بہت سے یار لوگ پورے سوشل میڈیا پرتالے لگانے کی مہم چلا رہے ہیں ۔ وہ سوشل میڈیا جو صرف غلاظت کا ڈھیر نہیں، علم وحکمت کا سمندر بھی ہے ۔ فیس بک پر سوا چار کروڑ سے زیادہ ''پیجز‘‘اور نوے لاکھ سے زیادہ ''ایپس‘‘ ہیں ۔ ان میں لاکھوں پیجز اسلام کی تعلیمات کے متعلق ہیں۔صرف بیس ممتاز اسلامی مبلغین کے پیجز سے رہنمائی حاصل کرنے والوں کی تعدادبارہ کروڑ سے زائد ہے ۔فیس بک پر سائنس و ٹیکنالوجی کے پچیس ہزار سے زائدبہترین معیار کے پیجز ہیں، ایسے پیجز جن پر علم و حکمت کے موتی بکھرے ہوتے ہیں ۔یوٹیوب پر ہر گھنٹے میں تین سو گھنٹوں کی وڈیوز ـ''اپ لوڈ ‘‘ کی جاتی ہیں ۔اس ویب سائٹ پر ہر روز پانچ ارب ویڈیوز دیکھی جاتی ہیں۔صارفین عربی اور اردو سمیت 76زبانوں میں اپنی پسند کی ویڈیوز تلاش کر سکتے ہیں ۔یوٹیوب پر بیس معروف اسلامی چینلز کی ویڈیوز دیکھنے والوں کی تعداد آٹھ کروڑ سے زیادہ ہے ۔اس کے علاوہ جدید ترین علوم سکھانے والی لاکھوں ویڈیوز نوجوانوں کے ذہن روشن کر رہی ہیں ۔مشرقی ہوں یا مغربی ،دنیا بھرکی معروف یونی ورسٹیوں نے یوٹیوب پر اپنے چینلز کھول رکھے ہیں ۔ سوشل میڈیاباہمی رابطوں اورانسانیت کی خدمت کا سب سے بڑا ذریعہ بن چکا ہے ۔چند ناپسندیدہ بھینسوں کی وجہ سے ایسے سوشل میڈیا پر پابندی لگانا کہاں کی عقل مندی ہے ؟سوشل میڈیا پر کیا دیکھنا ہے کیا نہیں، کیا پسند کرنا ہے کیا نہیں ، اس کا اختیار صارف کے پاس ہے، پھربھڑکتے جذبات کے بجائے، ٹھنڈے دل ودماغ سے ہم غور کیوں نہیں کرتے؟ سوشل میڈیا بند کرنے کا مطلب، علم کے دروازے بند کرنا ہے ۔
، علم جسے مومن کی میراث قرار دیا گیا ۔یہ الگ بات ہے کہ ہم سب صرف خود کو مومن، باقی سب کو کافر سمجھنے لگے ہیں ۔