راحیل شریف اور گڑے مُردے

ہم پاکستانیوں کا انوکھا جہاں ہے، فسانوں تلے جہاں حقیقت دفن ہو جاتی ہے، ہر اہم قومی معاملہ جہاں پراسرار راز ہے، کوئی بھید کبھی اس قوم پر کھلتا نہیں۔ اسلامی اتحاد اور راحیل شریف کا کردار، سچ بتانے والے کم، جھوٹ سنانے والے زیادہ ہیں۔
جھوٹ میں سے سچ چھاننے کے لیے، حال سے ماضی میں سفر کرنا پڑتا ہے، کڑیوں سے کڑیاں ملانا پڑتی ہیں۔ پندرہ ماہ ہوتے ہیں، جنوری 2016ء میں ایک ملاقات کی بہت بازگشت سنائی دی۔ جنرل راحیل شریف سے سعودی وزیر دفاع محمد بن سلمان کی ملاقات۔ اس ملاقات میں جنرل راحیل کو سعودی شاہ کا اہم پیغام پہنچایا گیا، یہ پیغام کہ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد اسلامی ممالک کے اتحاد کی قیادت کریں۔ اس خواہش کا اظہار وزیر اعظم نواز شریف سے بھی کیا جا چکا تھا۔ یہ معاملہ انتہائی پیچیدہ تھا۔ انہی دنوں سعودی عرب اور ایران کے درمیان کشیدگی عروج پر تھی۔ تہران میں سعودی سفارت خانہ جلایا جا چُکا تھا۔ اُدھر ایران نے دعویٰ کیا کہ یمن میں اس کے سفارت خانے پر حملہ کیا گیا ہے۔ اس حملے کا الزام سعودی عرب پر لگایا گیا۔ سعودی عرب اور ایران کے سفارتی تعلقات منقطع ہو چکے تھے۔ دونوں ملکوں میں جنگ کے خدشات بڑھ رہے تھے۔ اُس وقت اسلامی اتحاد کا قیام ابتدائی مرحلے میں تھا۔ ایران اس اتحاد کو اپنے خلاف سازش قرار دے چکا تھا۔ اب ایک طرف ایران جیسا اہم ہمسایہ تھا، جس کی سرحد ہماری سرحد سے جڑی ہے، جس کے موقف کو مکمل نظرانداز کرنا مشکل تھا۔ دوسری جانب سعودی عرب جیسا دوست تھا، معاشی مشکلات میں مدد کرنے والا دوست ملک، جس کی وزیر اعظم نواز شریف پر ذاتی عنایات بھی تھیں۔ ایران کے تحفظات کے باوجود پاکستان نے اس اتحاد میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا۔ ایک معاملہ اگرچہ اس سے بھی زیادہ حساس اور نازک تھا۔ راحیل شریف کو اسلامی اتحاد کا سربراہ بنانے کا معاملہ۔ اس صورتحال میں جنوری میں ہی وزیر اعظم نواز شریف نے ایک اہم فیصلہ کیا، سعودی عرب اور ایران کے درمیان ثالثی کروانے کا فیصلہ۔ جنرل راحیل کے ساتھ 18 جنوری کو وہ سعودی عرب پہنچے۔ وزیر اعظم سے ملاقات میں سعودی شاہ نے اپنی خواہش دہرائی۔ راحیل شریف کو اسلامی اتحاد کا سربراہ بنانے کی خواہش۔ وزیر اعظم کے لیے شاہ سلمان کو انکار کرنا ممکن نہ تھا، انہوں نے رضامندی ظاہر کر دی۔ اگلے روز وزیر اعظم اور جنرل راحیل ثالثی مشن پر ایران پہنچ گئے۔ اس دورے میں ایرانی صدر نے سعودی عرب کی قیادت میں قائم اتحاد پر شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ پاکستانی قیادت نے ایران کے تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کرا دی۔ وطن واپسی کے پانچ روز بعد، 25 جنوری 2016 کو جنرل راحیل نے اعلان کر دیا کہ وہ ایکسٹینشن نہیں لیں گے۔ مارچ 2016 میں سعودی عرب میں اکیس اتحادی ممالک کی فوجی مشقیں کرائی گئیں۔ سعودی شاہ نے وزیر اعظم نواز شریف اور جنرل راحیل کو ان مشقوں کا معائنہ کرنے کی خصوصی دعوت دی۔ اس دورے میں اسلامی اتحاد کے بنیادی خدوخال پر بھی بات چیت ہوئی۔ یوں معاملات خاموشی سے آگے بڑھنے لگے۔ راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ سے چار ماہ پہلے، یعنی جولائی 2016 کے اختتام تک سب کچھ ٹھیک تھا۔ پھر اچانک جنرل راحیل کی مدت ملازمت میں توسیع کی افواہیں پھیلنے لگیں، ان افواہوں نے اتنا زور پکڑ لیا کہ اہم حکومتی رہنما بھی چکرا کر رہ گئے۔ یہ افواہیں کس طرف سے، کون پھیلاتا رہا، کوئی سُراغ نہ مِل سکا، سول اور عسکری حلقے ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھنے لگے۔ سعودی عرب کو راحیل شریف کی ایکسٹینشن کی اطلاعات پر تشویش تھی۔ اگر ایکسٹینشن ہو جاتی تو اسلامی اتحاد کی سربراہی کا معاملہ کھٹائی میں پڑ جاتا۔ 28 اگست 2016 کو اتوار کی ہفتہ وار تعطیل تھی۔ اس تعطیل کے دن سعودی وزیر دفاع محمد بن سلمان چند گھنٹوں کے خصوصی، دراصل ہنگامی دورے پر اسلام آباد پہنچے۔ انہیں وزیر اعظم ہائوس میں عشائیہ دیا گیا۔ اس تقریب میں جنرل راحیل کو بھی مدعو کیا گیا۔ اس دوران سعودی وزیر دفاع کی وزیر اعظم سے علیحدگی میں بھی بات چیت ہوئی۔ محمد بن سلمان نے وزیر اعظم کو اتحاد کی سربراہی کے معاملے کی یاد دہانی کرائی۔ وزیر اعظم نے انہیں اپنا وعدہ پورا کرنے کا یقین دلا دیا۔ اس کے بعد سعودی وزیر دفاع اور جنرل راحیل کی الگ ملاقات بھی ہوئی۔ یوں معاملات طے ہونے کے بعد منطقی نتیجے کی جانب بڑھنے لگے۔
جنرل راحیل نومبر 2016 میں ریٹائر ہوئے۔ سمجھوتے کے تحت انہیں اسلامی اتحاد کی قیادت سنبھالنا تھی۔ رواں برس جنوری میں انہیں سعودی عرب آنے کی دعوت دی گئی۔ انہوں نے عمرہ ادا کیا اور اعلیٰ سعودی حکام سے ملاقاتیں بھی کیں۔ اس دوران اسلامی اتحاد کے تکنیکی امور پر بھی بات چیت ہوئی۔ یہ تمام معاملات حکومت کے علم میں تھے، پھر بھی حکومتی رہنما ایک ذہنی اضطراب کا شکار ہو گئے۔ اس کی چند اہم وجوہ ہیں۔ راحیل شریف کے دور میں سول اور عسکری تعلقات زیادہ تر کشیدہ رہے۔ اس دور میں حکومت اکثر لڑکھڑاتی اور چکراتی نظر آئی۔ کئی مرتبہ یہ تاثر ملا کہ جنرل راحیل نے اپنے دائرہ کار سے تجاوز کیا، دوسری جانب کچھ حلقے راحیل شریف کو حق بجانب قرار دیتے تھے۔ ان کا موقف تھا کہ حکومت نے خود راحیل شریف کو دائرہ کار سے تجاوز کرنے کا جواز فراہم کیا، بدعنوانوں، بھتہ خوروں اور ٹارگٹ کلرز پر ہاتھ ڈالنا حکومت کا کام تھا، جب اس نے یہ کام نہیں کیا تو کسی اور نے خالی جگہ پُر کر دی۔ راحیل شریف کے دور میں دہشت گردی کے خلاف نمایاں کامیابیاں ملیں، پوری فوج کے یہ کارنامے لیکن جنرل راحیل سے ہی منسوب ہوتے رہے۔ آئینی بحثیں ایک طرف، عوام میں راحیل شریف کا تاثر ہیرو کے طور پر ہی اُبھرایا اُبھارا گیا۔ مستقل دبائو میں رہنے والی حکومت کے لیے یہ صورت حال پریشان کن تھی۔ جنرل راحیل کا دور ختم ہوا تو حکومت کی اُکھڑی سانسیں بحال ہوئیں۔ راحیل شریف تو رخصت ہو گئے لیکن حکومتی رہنمائوں کی جلن ختم نہیں ہوئی، وہ جلن جو ان کے دل جلاتی رہی، ہر اُس موقع پر جب سول حکومت کے دائرہ کار میں مداخلت ہوئی۔ اسی لیے اب وہ اپنی بھڑاس نکال رہے ہیں۔ جنرل راحیل کو اب اسلامی اتحاد کی قیادت سنبھالنی ہے، اس صورت حال میں کئی حکومتی رہنما نئی الجھن کا شکار ہیں۔ اسلامی اتحاد کا سربراہ بننے سے راحیل شریف کا قد کاٹھ بڑھ سکتا ہے۔ دوسری جانب انہیں اس اتحاد کی سربراہی سے روک کر سعودی عرب کو ناراض بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اب حکومتی رہنمائوں کو سمجھ میں نہیں آ رہا کہ وہ کیا کریں۔ کبھی کہتے ہیں کہ راحیل شریف اسلامی اتحاد کے سربراہ بن چکے ہیں، کبھی کہتے ہیں کہ انہوں نے باضابطہ اجازت نہیں مانگی۔ کراچی آپریشن کا کریڈٹ کس کو جاتا ہے، اس حوالے سے بھی لفظی تیر چلائے جانے لگے ہیں۔ راحیل شریف کے بارے میں جو عوامی تاثر قائم کیا گیا تھا، اسے زائل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جنرل راحیل کی ریٹائرمنٹ پر وزیر اعظم نے انہیں انتہائی باوقار طریقے سے رخصت کیا تھا، اس کا مقصد راحیل شریف کو نہیں ان کے ادارے کو مثبت پیغام دینا تھا۔ تلخیوں کا دور گزر چُکا تو اسے بھُلانا بھی ضروری ہے، حکومتی رہنمائوں کو اب ماضی میں نہیں، حال میں جینے کا ہنر سیکھنا ہو گا۔ تلخ ماضی سبق سیکھنے کے لیے ہوتا ہے، دہرانے کے لیے نہیں۔گڑے مردے اکھاڑنے والے اکثر خود بھی گڑھوں میں گر جایا کرتے ہیں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں