پاناما اور سیاسی قبریں

پاناما کا مقدمہ ختم ہوا، کھیل مگر ابھی باقی ہے۔ عدالتی فیصلے اخلاقی نہیں، قانونی بنیاد پر ہوتے ہیں، سو فیصد درست۔ اخلاقیات پر اگر فیصلے ہوتے، پاکستان نہیں، یہ اخلاقیات کا قبرستان ہوتا۔
پاناما کیس نے وزیر اعظم پر سوال بہت اٹھائے، قانونی اور اخلاقی بھی۔ حتمی فیصلہ مگر اقلیتی نہیں، اکثریتی ججوں کا ہوتا ہے۔ وزیر اعظم کی کرسی بچ گئی، ساکھ مگر اب بھی دائو پر لگی ہے۔ جسٹس کھوسہ کا اختلافی نوٹ بہت کاٹ دار ہے ۔ شہرہ آفاق ناول ''دا گاڈ فادر‘‘ کا حوالہ انہوں نے دیا۔ یہ ناول ایک مافیا خاندان کی تشدد سے بھرپور کہانی ہے۔ ایسا خاندان جو اپنے غیر قانونی کاروبار کو قانونی بنانا چاہتا ہے، دولت اور اختیار کی ہوس اس کے سر پر سوار ہوتی ہے، اپنی ہوس کی تسکین کے لیے ہر حد وہ پار کر جاتا ہے۔ اس ناول کا ایک جملہ اب محاورہ بن چکا، ''ہر بڑے خزانے کے پیچھے ایک جرم ہوتا ہے‘‘۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ یہ حوالے بہت سخت ہیں، یہ الفاظ سیاسی آسیب بن جائیں گے، ایسا آسیب برسوں جو دامن سے چمٹا رہے گا۔ جسٹس کھوسہ نے شیکسپیئر کے کھیل ''دا مرچنٹ آف وینس‘‘ یعنی ''وینس کا سوداگر‘‘ کا حوالہ بھی دیا۔ اس کھیل کی کہانی ایک عیار ساہوکار یعنی قرض دینے والے شخص اور سوداگر کے گرد گھومتی ہے۔ ان دونوں کے درمیان پرانی رنجش ہوتی ہے۔ ایک مرتبہ یہ سوداگر ساہوکار سے قرض مانگنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ ساہوکار قرض دینے پر رضامند ہو جاتا ہے لیکن ایک مکارانہ شرط پر، یہ شرط کہ قرضہ بروقت واپس نہ کیا تو وہ سوداگر کے جسم سے ایک پائونڈ گوشت کاٹ لے گا۔ سوداگر یہ شرط مان لیتا ہے۔ مقررہ مدت گزر جاتی ہے، سوداگر قرض واپس نہیں کر پاتا۔ معاملہ عدالت پہنچ جاتا ہے۔ فیصلہ ساہوکار کے حق میں آ جاتا ہے۔ معاہدے کے مطابق وہ سوداگر کا گوشت کاٹنے کو تیار ہو جاتا ہے۔ ساہوکار سے رحم کی درخواست کی جاتی ہے مگر وہ نہیں مانتا۔ پھر اسے قرض سے تین گنا زیادہ رقم کی پیش کش کی جاتی ہے، ساہوکار اسے بھی ٹھکرا کر گوشت کاٹنے پر بضد رہتا ہے۔ اس کے سر پر پرانا بدلہ چکانے کا جنون سوار ہوتا ہے۔ اس دوران عدالت میں ایک قانونی نکتہ پیش کیا جاتا ہے، یہ نکتہ کہ ساہوکار اگر سوداگر کا گوشت کاٹنا چاہتا ہے تو کاٹ لے، خون کا لیکن ایک قطرہ بھی نہیں بہنا چاہیے، اس لیے کہ معاہدہ گوشت کاٹنے کا ہوا تھا، خون بہانے کا نہیں، اگر خون بہے گا تو ساہوکار سے فی الفور حساب لیا جائے گا۔ ساہوکار گھبرا کر گوشت کاٹنے سے دست بردار ہو جاتا ہے، کہتا ہے کہ اسے گوشت کے بجائے تین گنا رقم کی پیش کش قبول ہے، وقت لیکن اس کے ہاتھ سے نکل چکا ہوتا ہے۔ اسے بتایا جاتا ہے کہ اب یہ پیشکش واپس لی جا چکی ہے۔ وہ درخواست کرتا ہے کہ اسے قرض کی اصل رقم ہی واپس کر دی جائے، اس سے بھی لیکن انکار کر دیا جاتا ہے۔ الٹا اس پرگوشت کاٹنے کی آڑ میں قتل کی منصوبہ بندی کا الزام لگ جاتا ہے، وہ خالی ہاتھ جان بچا کر نکلنے کی کوشش کرتا ہے لیکن اسے روک لیا جاتا ہے۔ سزا کے طور پر اسے اپنی ساری دولت سے بھی ہاتھ دھونا پڑتے ہیں۔ اس کھیل کا ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ قانون موم کی ناک کیسے بنتا ہے، قانونی نکات خود انصاف میں رکاوٹ کیسے بن جاتے ہیں، قانونی اور آئینی پیچیدگیاں کن بلائوں کے نام ہیں۔ پاناما کیس میں ایسی ہی قانونی شعبدہ بازیاں دکھائی جاتی رہیں، کسی ایک نہیں، تمام فریقین کی جانب سے۔ جسٹس کھوسہ نے اس کھیل کے چند جملوں کا حوالہ دیا ''ایک مرتبہ قانون کو اپنے اختیارات کے تابع کر لو، پھر چاہو تو کوئی بڑا اچھا کام کرنے کے لیے چھوٹا سا غلط کام بھی کر لو‘‘۔ جج صاحب نے وضاحت کی کہ ''انہوں نے وزیر اعظم کے خلاف فیصلہ دینے جیسے بڑے درست کام میں چھوٹا سا غلط کام بھی نہیں کیا‘‘۔ جسٹس کھوسہ اس بینچ کا حصہ بھی تھے جس نے سابق وزیر اعظم گیلانی کو نااہل قرار دیا تھا، اس فیصلے میں انہوں نے خلیل جبران کی نظم "Pity the nation" یعنی ''قابل رحم ہے وہ قوم‘‘ کا حوالہ دیا تھا۔ عاصمہ جہانگیر اور دیگر قانونی ماہرین کی رائے میں ایسے حوالے دینا زیادہ مناسب نہیں۔ آئینی بحثیں ایک طرف، اس طرح کے حوالے لیکن برسوں گونجتے رہتے ہیں۔
پاناما فیصلے کے بعد وزیر اعظم کا نااہل ہونا تقریباً ناممکن ہے۔ تحقیقات کا عمل سست، پیچیدہ اور طویل ہو سکتا ہے۔ تحقیقاتی ٹیم عدالت سے مزید وقت مانگنے پر مجبور ہو گی، یہ عمل جتنا طویل ہو گا، مقدمہ اتنا ہی بے جان ہوتا جائے گا۔ وزیر اعظم نااہل ہوئے ہیں نہ ہوں گے، یہ عمران خان بھی جانتے ہیں۔ اب وزیر اعظم کی ساکھ پر وہ سوال اٹھاتے رہیں گے، عوامی عدالت میں عدالتی فیصلہ دہرا دہرا کر۔ آصف زرداری بھی وزیر اعظم سے استعفیٰ مانگ رہے ہیں، اخلاقی بنیاد پر۔ خود اگرچہ وہ صدارت سے مستعفی نہیں ہوئے تھے، اُس وقت جب سپریم کورٹ نے گیلانی کو سوئس حکام کو خط لکھنے کا حکم دیا تھا۔ گیلانی سے پرویز اشرف تک، ڈاکٹر عاصم سے شرجیل میمن اور منظور کاکوں تک، اخلاقیات کے یہ شاندار باب پیپلز پارٹی کی کتاب میں ہی درج ہیں۔ پیپلز پارٹی پاناما مقدمے میں فریق نہیں تھی، عدالتی فیصلے کا لیکن سب سے بڑا فائدہ وہی اٹھائے گی۔ ایک مرتبہ پھر سودے بازی کا سنہرا موقع اُس کے ہاتھ آ چُکا، اب سیاست دان کم، سوداگر اس جماعت میں زیادہ ہیں، سوداگری ہی زرداری صاحب کا اصل ہنر ہے۔ عمران خان کو سپریم کورٹ جانے پر وہ طعنے دے رہے ہیں، اس کے سوا راستہ ہی کیا تھا؟ ملکی تقدیر کے فیصلے سڑکوں پر نہیں، عدالتوں اور پارلیمان میں ہی ہوتے ہیں۔ پاناما کا ہنگامہ زندہ رکھنے کا سہرا عمران خان کے سر ہی ہے۔ بجا کہ وزیر اعظم نااہل نہیں ہوئے، نقصان پھر بھی عمران نے انہیں بہت پہنچایا، خود مسلم لیگ ن والے اس کا اعتراف کرتے ہیں۔ تحریک انصاف کا پورا نہیں تو آدھا مقصد ضرور پورا ہو گیا۔ کچھ یار لوگ عدلیہ پر برس رہے ہیں، عین توقعات اور عادات کے مطابق، فیصلے کو پڑھے اور سمجھے بغیر۔ کسی کو اتفاق ہو یا اختلاف، عدالتی فیصلہ ماننا ہی پڑتا ہے۔ اخلاقی بنیادوں پر استعفوں کا کسی پارٹی میں کوئی رواج نہیں، ایسا ہوتا تو پارلے منٹ میں سیاسی رہنما کم، سیاسی قبریں زیادہ ہوتیں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں