بس ایک دائرہ ہے، کپتان کا سفر جِس کے گِرد ہے، جو نقطۂ آغاز، وہی نقطۂ انجام، جہاں سے سفر شروع، گھوم پھر کر وہیں ختم۔ عوام میں وہ اب بھی مقبول ہے، پہاڑ جیسی غلطیوں کے باوجود۔ کوئی اور ایسی غلطیاں اگر کرتا، ماضی میں وہ دفن ہو چکا ہوتا۔ بوسیدہ نظام کے خلاف وہ بہت لڑا، ہمت اور جرات سے، حِکمت پر لیکن اس کا یقین کم ہی ہے۔ منزل تک چل کر جانا پڑتا ہے، خود وہ چل کر نہیں آتی۔
پاناما کا میچ کپتان جیتا نہیں تو ہارا بھی نہیں، سو فیصد درست۔ حکمرانوں کی ساکھ پر کاری وار اُس نے کیے، میچ میں مگر حتمی نتیجہ ہی تاریخ کا حصہ بنتا ہے۔ ہر میچ میں پلان ''بی‘‘ بھی ہوتا ہے، یہ بات کپتان سے بہتر کون جان سکتا ہے؟ سیاسی میچوں میں مگر یہ پلان اُس نے کبھی نہیں بنایا۔ دو ہزار چودہ کا دھرنا، یاد رکھنے والوں کو اب بھی یاد ہے۔ منظم دھاندلی کا نعرہ اُس نے لگایا، پھر مہم جوئی کا فیصلہ کر لیا، سوچے سمجھے بغیر، چند پراسرار عناصر اور ایک کینیڈین علامہ کے اکسانے پر۔ کہاں چھہتر لاکھ ووٹ لینے والا کپتان، کہاں علامہ صاحب، خود جو شاید کونسلر بھی منتخب نہیں ہو سکتے۔ وہ علامہ صاحب، اشاروں کے جو منتظر رہتے ہیں، اشاروں پر بوریاں بستر کھولتے ہیں، اشاروں پر لپیٹ لیتے ہیں۔ کپتان کا جینا مرنا تو اسی مٹی میں ہے، پھر علامہ کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالنے کی منطق کیا تھی؟ جلسے جلوس کپتان کا جمہوری حق تھا، مبینہ دھاندلی کی تحقیقات کا مطالبہ بھی درست، ایک بات مگر سمجھ سے بالاتر تھی، کچھ ثابت ہونے سے پہلے دھرنا، وہ بھی ہر صورت وزیر اعظم کو رخصت کرنے لیے، مذاکرات کے تمام دروازے بند کرکے۔ آرمی چیف تک نے شفاف تحقیقات کی ضمانت دی، اسے بھی مگر ٹھکرا کر کسی معجزے کا انتظار کیا جاتا رہا۔ بس ہر حال میں وزیراعظم کا استعفی لینے کی ضد۔ ناکامی کی صورت دوسرا آپشن کیا ہو گا، اس پر سوچنے کی زحمت ہی نہ کی گئی۔ دھرنا ناکام ہوا، ساتھ عمران کی ساکھ بھی داغ دار کر گیا، تھرڈ امپائر کے حوالے سے۔ علامہ صاحب کے پاس کھونے کے لیے تھا ہی کیا؟ انہوں نے کپڑے جھاڑے، دھرنا ختم کرنے کے نئے جواز تراشے، پھر اپنے وطن روانہ ہو گئے۔ تحریکِ انصاف بند گلی میں پھنس گئی، اس سے نکلنے کا راستہ پھر سانحہ اے پی ایس سے ملا۔ دھرنے کے ایک سو چھبیس دن، کپتان ایک دائرے میں گھومتا رہا، آخر نتیجہ کیا نکلا؟ وہی تحقیقاتی کمیشن، جس کی پیش کش پہلے دن سے تھی۔ کمیشن بنا، منظم دھاندلی مگر ثابت نہ ہو سکی۔ یہ بہت بڑا سیاسی دھچکا تھا، تحریکِ انصاف لیکن اسے برداشت کر گئی، صرف کپتان کی ذاتی مقبولیت کی بنیاد پر، کوئی اور جماعت اگر ہوتی تو اوندھے منہ گر جاتی۔
ماضی کی غلطیاں دہرانے کے لیے نہیں، سبق سیکھنے کے لیے ہوتی ہیں، تحریک انصاف نے لیکن ناکام دھرنے سے کچھ نہ سیکھا۔ ہر معاملے کی ابتدا میں ہی انتہا پر چلی گئی، درجنوں مرتبہ خود کو بند گلی میں پھنسا لیا، جہاں آگے نہیں، صرف پیچھے مڑنے کا راستہ تھا، اسی لیے یُوٹرن کے طعنے بھی سہنا پڑے۔ تحریک انصاف کے لیے پاناما اسکینڈل سیاسی رحمت بن کر برسا۔ کپتان نے اسے حکمرانوں کی دکھتی رگ بنا لیا، جوش بھرے جلسوں اور سلگتی تقریروں سے اس معاملے کو زندہ رکھا۔ پھر اچانک اسلام آباد لاک ڈائون کا فیصلہ کر لیا، بغیر سوچے سمجھے، جذبات کی رو میں بہتے ہوئے۔ شہر بند کرنے کے فیصلے کو پذیرائی نہیں مل سکتی، یہ سمجھنے کے لیے افلاطونی عقل درکار نہیں تھی، تحریکِ انصاف میں مگر ایک سے ایک بڑا ''ارسطو‘‘ موجود ہے۔ انہی کے مشورے پر کپتان ڈٹ گیا۔ فیصلہ کن مرحلے پر کارکن پٹتے رہے، لیڈرز بنی گالہ کی محفوظ پناہ گاہ میں دُبکے رہے، نتیجہ کیا نکلا؟ یہ دھرنا بھی ناکام۔ ایک مرتبہ پھر وہی بند گلی، اس اندھیری گلی سے نکلنے کا راستہ اب کی بار سپریم کورٹ نے دیا۔ معاملہ اسی عدالت عظمیٰ میں پہنچا، جہاں تحریک انصاف پہلے ہی پٹیشن دائر کر چکی تھی۔ دھرنوں کے میدان میں نہیں، اصل کھیل عدل کے ایوان میں شروع ہوا، آئین اور قانون کی بنیاد پر۔ جتنا نقصان پاناما کی سماعت نے حکومت کو پہنچایا، اس کا دس فیصد بھی دھرنوں سے نہ پہنچایا جا سکا۔ یہ ایک بڑا سبق ہے، تحریک انصاف اگر سیکھنا چاہے۔
پاناما فیصلے کے بعد کپتان پھر سڑکوں پر ہے، یہ اُس کا جمہوری حق ہے۔ اداروں پر دبائو ڈالنے کا اُس پر الزام ہے، پوچھنے والے مگر پوچھتے ہیں، سول اداروں پر کیا حکومت کا دبائو نہیں ہوتا؟ سپریم کورٹ کی بات اگرچہ الگ ہے۔ کپتان پاناما کیس کے پہلے مرحلے میں جو فیصلہ کن بازی نہیں مار سکا، اب دوسرے مرحلے میں جیتنا چاہتا ہے، یہاں لیکن ایک سوال اور بھی ہے، وزیر اعظم اگر دوسرے مرحلے میں بھی بچ نکلے، کپتان کے پاس پھر پلان بی کیا ہے؟ ہمیشہ کی طرح کوئی نہیں۔ حکومت کے ساتھ تمام معرکوں میں، کپتان کا موثر ترین پلان بی کیا ہو سکتا تھا؟ اسے سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی گئی۔ تحریک انصاف کے کارکنوں کی مخصوص سوچ ہے، اپنی جماعت سے ان کی جذباتی وابستگی بہت گہری ہے۔ حکومت کی رخصتی یقینی ہے، چار برس میں چالیس مرتبہ انہیں یہ یقین دلایا گیا۔ ہر بار ان کی آس ٹوٹی، کپتان کا ساتھ مگر انہوں نے نہ چھوڑا۔ یہ ایک جنون ہے، اس جنون کو مگر ایک منظم قوت میں ڈھالنے کی ضرورت ہے، الیکشن کا فیصلہ کن معرکہ مارنے کے لیے۔ پاکستان میں انتخابات کی اپنی سائنس ہے۔ تحریک انصاف کے جتنے ووٹرز ہیں، اس سے کہیں زیادہ ہمدرد ہیں، ایسے ہمدرد جو نظریاتی طور پر کپتان کے حمایتی ہیں، ووٹ ڈالنے مگر نہیں جاتے۔ ہر گلی محلے میں اپنی جماعت کے ہمدردوں کو ووٹروں میں کیسے تبدیل کرنا ہے، پھر ان ووٹرز کو کس طرح پولنگ سٹیشنز تک پہنچانا ہے، یہ ایک ''سائنسی فارمولا‘‘ ہے۔ اس کے لیے یونین کونسلز کی سطح تک تنظیم سازی کرنا پڑتی ہے۔ تحریک انصاف نے لیکن اس پر کوئی توجہ نہیں دی، یہی وجہ ہے کہ پنجاب کے بلدیاتی انتخابات میں اس کا صفایا ہو گیا۔ تحریک انصاف کے اکثر رہنما صرف چُوری کھانے والے میاں مٹھو ہیں، ایک نہیں کئی مرتبہ یہ ثابت ہو چکا، محض کپتان کی کرشماتی شخصیت پر وہ انتخابات جیتنا چاہتے ہیں۔ جلسے جلوس، احتجاج سب کچھ بجا، نچلی سطح تک تنظیم سازی کے بغیر الیکشن جیتنا لیکن ناممکن ہے۔ کپتان کے پاس ایک سال ہے، ایک ہی دائرے میں سفر سے اگر اسے نکلنا ہے، تنظیم سازی کا سونامی اسے لانا پڑے گا، یہی اصل، موثر ترین اور فیصلہ کن پلان ''بی‘‘ ہے۔