کشمیریوں کی لہو رنگ کہانیاں

خوف حد سے گزر جائے تو ختم ہو جاتا ہے، کشمیریوں کا خوف ختم ہو چکا، کھونے کو اب ان کے پاس کچھ نہیں، پانے کو لیکن منزل ہے، آزادی کی منزل۔ برہانی وانی اور سبزار بھٹ جنگجو کیسے بنے؟ لاکھوں کشمیری جو جنگجو نہیں، جان ہتھیلی پر رکھ کر ان کا ماتم کیوں کرتے رہے؟ کیا اب بھی بھارتی استعمار کو کوئی غلط فہمی ہے؟
کشمیرکی ہر کہانی لہو رنگ ہے ، انہی سچی کہانیوں پر گزشتہ دنوں اسلام آباد میں ایک کانفرنس ہوئی ۔ اس کانفرنس کے آغاز پر میزبان سید علی رضا نے گزشتہ برس شائع ہونے والا میرا ایک کالم پڑھ کر سنایا۔ یہ کالم کمسن کشمیری بچوں کی داستانوں پر مشتمل تھا۔ علی رضا کے اصرار پر اس کالم کے چند حصے دوبارہ پیش خدمت ہیں۔ علی رضا کی اپنی بھی ایک کہانی ہے ، کالم کے آخری حصے میں وہ کہانی بھی آپ کو سنانی ہے۔ پہلے کمسن کشمیریوں کی داستان۔ ''زندگی کے چراغ بجھ سکتے ہیں، آنکھوں کی روشنیاں بھی، لیکن خواب بھی کبھی مرتے ہیں؟ وہ خواب ،جو ایک نسل نے دیکھے، پھر امانت سمجھ کر ، اگلی نسلوں کو منتقل کر دیے۔
کشمیر کی ننھی پری، اِنشا ملک کی آنکھوں سے خون رِستا ہے ، اب اس کی آنکھوں میں اندھیرا ہے، بہت کچھ اس نے کھو دیا ، لیکن خواب کھونے نہیں دیے۔ ضلع شوپیاں کی اِنشا، جس کا چہرہ، کبھی شہزادیوں کی طرح دمکتا، اب زخموں سے چور ہے۔ اس کی پیشانی سے آنکھوں ،گالوں اورگردن تک، زخم ہی زخم ہیں۔ بارہ جولائی کی رات، اِنشا پر، اس کی اپنی دھرتی پر، اس کے اپنے ہی گھر میں، قابض بھارتی درندوں نے قیامت ڈھا دی۔ بھارتی فوج کے برسائے ہوئے سیکڑوں چھرے، کھڑکیاں اور شیشے چیرتے، اس کی آنکھوں اور چہرے کو چھلنی کر گئے۔ اِنشاکی چیخیں، حلق میں پھنس کر رہ گئیں، چہرہ لہو میں ڈوب گیا ، اور آنکھوں سے خون کے فوارے ابل پڑے ۔ اب وہ سری نگر کے ایک اسپتال میں ، زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہی ہے۔ اس کی آنکھوں کی بینائی جا چکی ، ہمیشہ کے لیے۔ اس کا چہرہ چھلنی کی مانند دِکھتا ہے، جس میں درجنوں چھید ہیں، پیشانی کی ہڈیاں، جگہ جگہ سے ٹوٹ چکیں، اور کھوپڑی بھی سوراخوں سے بھری ہے۔ ڈاکٹرز کے مطابق، ایسا دل دہلا دینے والا کیس، انہوں نے زندگی میں نہیں دیکھا۔ اپنے اسکول میں ہمیشہ اول پوزیشن لینے والی، اپنے بابا کی لاڈلی پری، اسپتال کے بستر پر، بے حس وحرکت پڑی ہے۔در در کی ٹھوکریں کھاتے، اس کے بابا ، ڈاکٹروں کی منتیں کرتے ہیں کہ ان کی آنکھیں، اِنشا کو لگا دی جائیں،کہ ایک بار ، صرف ایک بار، وہ اپنے بابا اور ماں کو دیکھ سکے۔ اِنشا کی ماں، اسپتال میں بیٹی کے سرہانے، گم سُم ، اسے تکتی رہتی ہے، پتھرائی آنکھوں سے، سکتے کی حالت میں۔ اِنشا یا اس کے والدین، کسی احتجاج میں شریک تھے نہ ان پر کوئی الزام تھا۔ ان کے گھر کو، صرف اس لیے نشانہ بنایا گیا کہ پورے علاقے میں خوف پھیل جائے۔
یہ صرف انشا کی نہیں، چیرتے پھاڑتے، تیز دھار چھروں سے لہو لہان ، درجنوں کشمیری بچوں کی کہانی ہے۔ اننت ناگ کا آصف، صرف سات برس کا، مُحلے کی ایک دکان سے بسکٹ لینے جاتا ہے، یکایک گلی کی نُکڑ سے، بھارتی اہلکاروں کی گاڑی نمودار ہوتی ہے، پھر لمحہ بھر میں، درجنوں چھرے، وہ چھرے جن سے جنگلی جانور شکار کیے جاتے ہیں، ننھے آصف پر برسا دیے جاتے ہیں۔ کئی چھرے، اس کی دائیں آنکھ کو، ایک جانب سے چھلنی کرتے ہوئے، دوسری جانب نکل جاتے ہیں۔ اُس کی ماں، بین کرتی ، چیختی چلاتی ، ایک ہی سوال دہراتی ہے، اس کا سات برس کا معصوم بچہ، کسی کوکیا نقصان پہنچا سکتا تھا؟ آصف کا باپ ، جو دیہاڑی دار مزدور ہے، بے بسی کی تصویر بن چکا ہے کہ مظلوموں کا بس کہاں چلتا ہے۔
سری نگر کے اسپتال میں، معصوم عرفات کی سانسیں بھی، ڈوبتی اور ابھرتی ہیں۔ عرفات درد سے تڑپتا ہے، صبح شام ۔ درد کا احساس ختم کرنے والی دوائیں بھی بے اثر ہو چکیں، اس کا جسم ، سو سے زائد چھروں سے چھلنی کیا گیا۔ کئی چھرے، اس کے سینے میں سوراخ کرتے ہوئے شریانوں میں پیوست ہو گئے، کچھ چھرے اس کی جِلد چیرتے، گردن میں گھس گئے۔ عرفات کا باپ غلام نبی، بیٹے کے غم میں ہواس کھو چکا، ڈاکٹروں سے، اور ہر آنے جانے والے سے وہ کہتا ہے، دیکھو ظالموں نے میرے بیٹے کو ، مرنے سے پہلے زندہ لاش بنا دیا۔ عرفات کا قصور کیا تھا ؟ صرف یہ کہ کرفیو اٹھنے کے بعد، وہ قریبی پارک میں ، کھیلنے چلا گیا تھا۔ضلع پلواما کا عُمر، چھٹی جماعت کا طالب علم، اب اسکول میں نہیں، زخموں سے چور، اسپتال میں داخل ہے۔ آنکھوں کے سامنے چھائے مکمل اندھیرے میں، وہ اپنی ماں کا چہرہ ڈھونڈتا ہے۔ وہ چہرہ، جسے شاید اب وہ کبھی نہیں دیکھ پائے گا۔ اس کی آنکھوں کے اندر موجود ریشے، نوکدار چھروں سے کٹ پھٹ چکے۔ عمر کا باپ، بیٹے سے لپٹ کر، زاروقطار آنسو بہاتا ہے۔ درجنوں چھرے، عمر کے پیٹ اور آنتوں میں بھی پیوست ہیں۔
سری نگر کی نازک کلیوں جیسی زہرہ، صرف چار برس کی ، نرسری کلاس میں پڑھنے والی، اب اسپتال کے بستر پر بے سدھ پڑی ہے۔ اس کے پیٹ، سینے اور ٹانگوں پر، جلد کو کاٹتے پھاڑتے، مخصوص چھروں کے درجنوں زخم ہیں۔ گاندربال کی نو سالہ تمنا، جو کبھی ہنستی مسکراتی گڑیا تھا، اب روتی ہے اور سب کو رلاتی ہے۔ تمنا پر اُس وقت چھرے برسائے گئے، جب وہ اپنے گھر کی بالکونی میں کھڑی تھی، اُس کا درد تھمتا نہیںاور آنکھوں کی روشنی بجھتی جا رہی ہے۔ 
کشمیر کے شہزادوں اور پریوں جیسے بچے، سسک رہے ہیں، تڑپ رہے ہیں۔ انہیں ایسے زخم لگائے گئے ہیں، جو زندگی بھر نہیں بھر سکتے۔ اِنشا، عرفات، آصف، عمر، ثانیہ اور زہرہ کا تعلق، وادی کے مختلف شہروں، مختلف قصبوں اور مختلف خاندانوں سے ہے، لیکن ان کا درد ایک جیسا ہے، ان کے دکھ ایک جیسے ہیں، ان کے جسموں اور روحوں پر لگے زخم، ایک جیسے ہیں۔ اُن کی آہیں، سسکیاں اور آنسو، ایک جیسے ہیں۔ اُن کا قصور یہ ہے کہ اُ ن کی پہچان ایک جیسی ہے، وہ سب کشمیری ہیں، ایک جیسے کشمیری‘‘۔
کشمیر کہانیوں کی کانفرنس میں دل دہلا دینے والے انسانی المیے اجاگر کیے گئے۔ کانفرنس کا میزبان سید علی رضا سفارتی سطح پر کشمیر کا بے لوث مجاہد ہے، ذاتی وسائل سے یورپ میں کشمیر کونسل چلاتا ہے۔ کشمیر کی لہو رنگ کہانیاں جمع کرتا ہے، انہیں دستاویزی ثبوتوں کی شکل دیتا ہے، ان کہانیوں کو تصویر وں اور آوازوں میں ڈھالتا ہے، پھر انہیں یورپی پارلے منٹ کی دہلیز تک لے جاتا ہے، اب کشمیریوں کی کتنی ہی کہانیاں ہیں جو قراردادیں بن کر یورپی پارلے منٹ میں گونج رہی ہیں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں