جھوٹ ایک بار بولا جائے تو جھوٹ رہتا ہے، وہی جھوٹ ایک ہزار مرتبہ دہرایا جائے تو سچ بن جاتا ہے، یہ مقولہ ہے ہِٹلر کے دستِ راست جوزف گوئبلز کا۔ وہ گوئبلز جسے پروپیگنڈا کا سب سے بڑا ماہر قرار دیا گیا، پاکستان میں لیکن جس قسم کا پروپیگنڈا ہوتا ہے، اس پر گوئبلز کی روح بھی شرما جاتی ہو گی۔ وزیر اعظم نواز شریف پرکرپشن کے الزامات لگائے گئے، اس معاملے کی تحقیقات ہونی چاہیے تھی اور تحقیقات ہوئی۔ اب عدالت اپنا فیصلہ محفوظ کر چکی، ایک فیصلہ مگر عدالت سے باہر بھی سنایا جا چکا، ٹی وی سکرینز سے سوشل میڈیا تک، نواز شریف کو غدار، سکیورٹی رسک اور فوج دشمن قرار دینے کا فیصلہ۔ عدالت کے اندر قانونی فضا ہے، عدالت کے باہر لیکن ایک پراسرار ہوا۔ ویسی ہی پراسرار ہوا جو نوے کی دہائی میں چلتی تھی، وہی پراسرار ہوا جو بے نظیر اور نواز شریف کی حکومتیں اڑا لے جاتی، وہی غدار غدار کی سرسراہٹ، وہی سکیورٹی رسک کی گونج۔ کیوں؟ شاید ''پکا کام ‘‘ کرنے کے لیے۔
کرپشن کے الزامات پر فیصلہ ابھی آنا ہے، غداری کا تمغہ مگر وزیر اعظم کے سینے پر سجایا جا چکا۔ بھارت مقبوضہ کشمیر میں خون کی ہولی کھیلے تو ذمہ دار کون؟ نواز شریف۔ بھارت سرحدوں پر شر انگیزی کرے تو ذمہ دار کون؟ نواز شریف۔ ملک میں دھماکے ہوں تو ذمہ دار کون؟ نواز شریف۔ پاکستان کی انوکھی سیاست، انوکھے الزامات۔ عمران خان کی اپنی منطق ہے، کہتے ہیں کہ نواز شریف مشکل میں ہوں تو دھماکے شروع ہو جاتے ہیں، لائن آف کنٹرول پر بھی گڑ بڑ ہو جاتی ہے، یعنی یہ سب کچھ نواز شریف کراتے ہیں یا انہیں بچانے کے لیے کیا جاتا ہے۔ ان دنوں بھارت اور چین میں سخت کشیدگی ہے، اگر دونوں کی جنگ ہو گئی تو اس کا سہرا بھی
نواز شریف کے سر سجا دیا جائے گا، یہ کہہ کر کہ اس ''ڈرامے‘‘ کا مقصد پاناما کیس سے توجہ ہٹانا ہے۔ نواز شریف پاک فوج کو تنہا کرنا چاہتے ہیں، یہ راگ بھی بہت الاپا گیا۔ اس الزام پر گزشتہ دنوں '' تصدیق‘‘ کی مہر ثبت کی گئی، بھارتی میڈیا کی ایک رپورٹ کی آڑ میں، وہ رپورٹ جس میں کہا گیا کہ نواز شریف اگر رخصت ہوئے تو فوج مضبوط ہو سکتی ہے۔ یار لوگ دور کی کوڑیاں لانے لگے، یہ ثابت کرنے کے لیے کہ نواز شریف اپنی ہی فوج کے خلاف ہیں۔ صرف نواز شریف نہیں، بے نظیر اور دیگر منتخب وزرائے اعظم بھی یہ سب بھگت چکے ہیں۔ نواز شریف ملک اور فوج کے دشمن ہیں، جب یہ فتوے سنتا ہوں تو وزیر اعظم کی ایک گفتگو کا منظر آنکھوں میں گھومنے لگتا ہے۔ گزشتہ ماہ وزیر اعظم نے آستانہ میں شنگھائی تعاون تنظیم کی کانفرنس میں شرکت کرنا تھی۔ اس کانفرنس کی کوریج کے لیے مجھ سمیت گیارہ پاکستانی صحافی بھی وہاں موجود تھے۔ وزیر اعظم کے ساتھ بات چیت ہوئی تو ایک صحافی نے پوچھا ''بھارتی میڈیا یہ تاثر دے رہا ہے کہ پاناما کیس پر جمہوری حکومت اور طاقتور اداروں کے درمیان کشمکش چل رہی ہے، اگر بھارتی صحافیوں نے یہ سوال کیا تو آپ کیا جواب دیں گے؟‘‘ وزیر اعظم کا جواب تھا ''میں ان سے کہوں گا کہ یہ میرے ملک کا اندرونی معاملہ ہے، پہلے اپنے ملک کی خبر لیں کہ وہاں کیا ہو رہا ہے، وہاں کس طرح مسلمانوںکو نشانہ بنایا جا رہا ہے، مقبوضہ کشمیر میں کتنی بے دردی سے معصوم بچوں کو اندھا کیا جا رہا ہے‘‘۔ مجھ سمیت
دیگر صحافیوں نے چند مزید سوال کیے کہ افغانستان کی جانب سے پاک فوج پر بے بنیاد الزامات لگائے جا رہے ہیں، بلوچستان میں طالبان شوریٰ کی بات کی جاتی ہے، حقانی نیٹ ورک کی حمایت کا الزام لگتا ہے، امریکا اور افغانستان یہ تاثر بھی دیتے ہیں کہ فوج اس معاملے پر آپ کو اندھیرے میں رکھتی ہے، اس پر آپ کیا کہیں گے۔ وزیر اعظم کا جواب تھا ''میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ پاک فوج مکمل نیک نیتی سے دہشت گردی کے خلاف لڑ رہی ہے، ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ حقانی نیٹ ورک کے خلاف بھی کارروائی ہوئی، پھر بھی ہماری مخلصانہ کوششوں پر دیگر فریقوں کا مثبت ردعمل نہیں آیا، ہماری فوج کے سوا دنیا کی کوئی ایک فوج بتائیں جس نے دہشت گردی ختم کرنے کے لیے اتنی قربانیاں دی ہوں، جو لوگ بلوچستان میں طالبان شوریٰ کی بات کرتے ہیں، ان سے باضابطہ طور پر کہہ چکا ہوں کہ الزامات نہ لگائیں، ثبوت دیں، یہاں تک کہا ہے کہ جن جگہوں پر طالبان شوریٰ موجود ہونے کا دعوی کیا جاتا ہے، میں خود وہاں جانے کو تیار ہیں، سکیورٹی کی ذمہ داری بھی لوں گا، میرے ساتھ چل کر نشان دہی کریں کہ ان علاقوں میں طالبان شوریٰ ہے، آستانہ میں افغان صدر سے بھی ملاقات ہونی ہے، ان کے سامنے بھی یہی اصولی موقف واضح کروں گا، یہ ہماری فوج ہے، ہمارے لیے قربانیاں دیتی ہے، انتہائی پیچیدہ جنگ لڑ رہی ہے، ہر فورم پر اپنی فوج کا دفاع کروں گا‘‘۔ ہم صحافی اس گفتگو کے متعلق خبر دینا چاہتے تھے، وزیر اعظم نے مگر کہا کہ اسے آف دا ریکارڈ رہنے دیں۔ اگلے روز مجھ سمیت چند صحافیوں کو وزیر اعظم سے دوبارہ گفتگو کا موقع ملا۔ ہم نے پھر پوچھا کہ کیا ہم ان کی گفتگو کے متعلق خبر دے سکتے ہیں؟ ایک صحافی نے کہا ''یہ سب تو آپ کے امیج کے لئے بھی مثبت باتیں ہیں، پھر آف دا ریکارڈ کیوں؟‘‘ وزیر اعظم نے مسکرا تے ہوئے جواب دیا ''یہ ایک بین الاقوامی کانفرنس ہے، یہاں پاکستان کا مقدمہ لڑنے آیا ہوں، نمبر سکور کرنے نہیں، نہیں چاہتا کہ کوئی سفارتی پیچیدگیاں پیدا ہوں اور ملکی مفاد کو کوئی نقصان پہنچے، جو باتیں آپ سے کی ہیں، یہی باتیں اعلیٰ سطح کی باضابطہ ملاقاتوں میں بھی کر چکا ہوں، فی الحال اسے آف دا ریکارڈ رہنے دیں، بعد میں آپ کے پاس یہ خبر دینے کے بہت مواقع آئیں گے، پھر مجھے کوئی اعتراض نہیں ہو گا‘‘۔ اس روداد کی تصدیق اُن صحافیوں سے کی جا سکتی ہے جو آستانہ میں موجود تھے۔ آج جب وزیر اعظم کو فوج دشمنی اور ملک دشمنی کے سرٹیفکیٹ دیے جا رہے ہیں تو ان کے الفاظ میری سماعت میں گونج رہے ہیں۔
پاناما لیکس کوئی بین الاقوامی سازش نہیں، یہ کرپشن کا معاملہ ہے یا وزیر اعظم کے خاندانی کاروبار کا، اس پر فیصلہ عدالت نے کرنا ہے، وہ فیصلہ جسے سب کو قبول کرنا چاہیے، غداری کی اسناد بانٹنے کا مکروہ دھندا مگر بند کرنا ہو گا۔ بیچاری بے نظیر بھٹو کے دامن پر بھی یہی داغ لگائے گئے، ایسے داغ جنہیں دھوتے دھوتے وہ شہید ہو گئیں۔ گوئبلز جھوٹ بولنے اور پھیلانے کا ماہر تھا، اسی گوئبلز کا ایک مقولہ اور بھی ہے ''ایک دن آتا ہے جب سارے جھوٹ اپنے ہی بوجھ سے زمیں بوس ہو جاتے ہیں اور سچ دوبارہ چھا جاتا ہے‘‘۔ سیکھنے والوں کے لیے اس میں سبق ہے، اگر وہ سیکھنا چاہیں۔