عدالت نے سات دن میں فیصلہ لکھا ، وقت نے پھر سات گھنٹے میں اپنا فیصلہ سنا دیا، تاہم یاد رہے کہ اصل فیصلہ ہمیشہ تاریخ ہی کیا کرتی ہے ۔
منی ٹریل ،یہ لفظ سب سے زیادہ مرتبہ پڑھا،، لکھا اور سنا گیا، وکلا کی جانب سے عدالت کے اندر اور باہر بھی ، پارلیمنٹ میں دھواں دھار خطابات ہوں، جلسوں میں بھڑکتے جذبات ہوں، شعلے اگلتی پریس کانفرنسوں میں الزامات ہوں ،ہر وقت، ہر جگہ ، ہر کیفیت میںبس منی ٹریل کی گردان ۔ اتنی مرتبہ یہ لفظ دہرایا گیا کہ ذہنوں میں نقش ہو کر رہ گیا ۔ منی ٹریل کے متعلق لطیفے گھڑے گئے ، طنزیہ شاعری ہوئی، سوشل میڈیاپر جنگ عظیم لڑی گئی ،اخبارات کے صفحات کے صفحات سیاہ ہوئے ، ٹی وی اسکرینوں پر بریکنگ پٹیاں لہراتی بل کھاتی رہیں،پھر فیصلہ آگیا ، منتخب وزیراعظم کی نااہلی کا فیصلہ...ایک معمولی تنخواہ ظاہر نہ کرنے پر ،اپنے بیٹے کی کمپنی سے ۔منی ٹریل کی عدم فراہمی اورکرپشن کے الزامات پر یہ کوئی حتمی فیصلہ نہیں، ان معاملات کا فیصلہ تو ریفرنسز کے بعد ہو گا، وزیراعظم کو مگر ایک تکنیکی غلطی پر گھرجانا پڑا۔
حکومتی حلقوں کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ اعتراضات تو جے آئی ٹی کی تشکیل پر بھی اٹھائے گئے تھے، واٹس ایپ کال سے لے کر جے آئی ٹی کے دو ارکان کی سیاسی وابستگیوں پر ، جے آئی ٹی کے مینڈیٹ سے تجاوز کرنے پر، واجد ضیا کی جانب سے اپنے کزن کی فرم کی خدمات حاصل کرنے پر، ان تمام تکنیکی اعتراضات کا کیا بنا ؟۔ اس حوالے سے قانونی حلقوں میں یہ بحث بھی جاری ہے کہ یہ صرف نوازشریف کا نہیں، ایک منتخب وزیراعظم کا معاملہ ہے، وہ وزیراعظم جو جمہوری او رانتخابی عمل سے گزرکر آتا ہے ۔اب ایک سابق آمر فرما رہے ہیں کہ آمریت جمہوریت سے بہتر ہے، وہ آمر جس نے پاکستانی قوم اور فوج کو پرائی جنگ میں دھکیلا ، صرف پنے اقتدار کے لیے ۔اقتدار سے رخصتی کے بعد بھی موصوف نے ہمیشہ فوج کے لیے مشکلات پیدا کیں، وہ فوج جس نے ملک کے لیے لازوال قربانیاں دیں۔ اب صاحب بہادر پھر وطن واپسی کا عندیہ دے رہے ہیں،کینیڈا کے علامہ صاحب بھی پاکستان کے ہنگامی دورے پر پہنچ چکے ہیں، لاہور میں ایک عدد دھرنے کا اعلان بھی وہ کر چکے ہیں۔پاکستان میں بھی کیسے کیسے حسین اتفاقات ہوتے ہیں؟
حکمران جماعت شاکی ہے کہ چار برس منتخب حکومت اوروزیراعظم کے ساتھ کیا ہوا؟ کیا پہلا پراسرار دھرنا نوازشریف کی مبینہ کرپشن کے خلاف تھا؟ایک کینیڈین علامہ کیسے بروئے کار آئے ؟ منظم دھاندلی کے الزامات کا کیا بنا ؟ اس دھرنے سے جڑے حقائق سینکڑوں مرتبہ لکھے اور پڑھے جا چکے ۔ کیاآئین کے مطابق ملکی پالیسیاں بنانے کا اختیارمنتخب حکومت کے پاس نہیں؟اداروں سے مشاورت اچھی بات ہے، داخلہ اور خارجہ پالیساں بنانے کا حتمی اختیار مگر کس کا ہے ؟پہلا دھرنا ختم ہوالیکن وجوہات نہیں ۔جنرل راحیل شریف کے دور میں سول عسکری تعلقات کیسے رہے،حکومت کیسے لڑکھڑاتی اور ڈگماتی رہی ، یہ سب تاریخ کا حصہ ہے ۔ مشاہداللہ سے پرویزرشید اور طارق فاطمی تک، ''قربانی ‘‘شرف قبولیت حاصل نہ کر پائی ۔ پہلے دھرنے سے اسلام آباد لاک ڈاون ،پاناما لیکس سے ڈان لیکس ، جے آئی ٹی سے فیصلے تک، معاملہ بالآخر نوازشریف کی نااہلی تک پہنچ گیا۔بہرحال یہ سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے، ملک کی سب سے بڑی عدالت کا فیصلہ، آئین کی سربلندی کے لیے اس پر عملدرآمد لازمی تھا ، جن معاشروں میں عدالتی فیصلوں پر عمل نہ ہو ، انتشار ان کا مقدر بن جاتا ہے۔ نوازشریف عدالتی فیصلے کے مطابق وزارت عظمی چھوڑ چکے ،اب عوامی عدالت میں اپنامقدمہ لڑنا ان کا حق ہے ۔ جب کسی کوپیچھے دھکیلاجائے ، مصلحت کے تحت وہ دو چار قدم تو پیچھے ہٹ سکتا ہے مگر ایک حد تک ۔ کسی کو اگر دیوار کے ساتھ ہی لگا دیا جائے تو سانس بند ہونے لگتی ہے، یہ وہ لمحہ ہے جہاں سے جھنجھلاہٹ شروع ہوتی ہے ۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ نوازشریف کے لیے یہ لمحہ آچکا ۔ان کی نااہلی کیوں ہوئی، پہلے وہ اشاروں کنایوں میں میں اس کا ذکر کیا کرتے، اشاروں میں کی گئی بات مگر کچھ لوگوں کو سمجھ آتی ہے، کچھ کو نہیں۔اسی لیے اب نوازشریف مبہم الفاظ میں نہیں، کھل کر اپنا موقف بیان کر رہے ہیں۔عوامی لیڈروں کے لیے عوامی عدالت سب سے بڑی قرار دی جاتی ہے ، سیاست کو سمجھنے والے یہ سمجھتے ہیں ۔
بتانے والوں نے نوازشریف کو بتایا ہے کہ صرف مظلومیت کا رونا دھونا کافی نہیں ، اپنے کارکنوں کو معاملے کا دوسرا رخ بھی دکھانا ہوگا۔نوازشریف کو یاد دلایا گیا ہے کہ انہیں ڈیڑھ درجن افراد نے نہیں، ڈیڑھ کروڑ پاکستانیوں نے ووٹ دے کر وزیراعظم بنایا تھا،مشورہ دیا جا رہا ہے کہ اب انہیں رازوں سے پردہ اٹھانا ہوگا ، وہی راز جن کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ اُن کے سینے میں دفن ہیں ۔نوازشریف کو جاننے والے جانتے ہیں کہ اب وہ آسانی سے ہار نہیں مانتے ، دوہزار چودہ کے دھرنے میں ان کے اعصاب آزمائے جا چکے ۔پاناما کیس میں ان کے ساتھ کیا ہوگا، سب کچھ دیوار پر صاف صاف لکھا تھا، پھر بھی انہوں نے آخری وقت تک استعفا نہ دینے کا فیصلہ کیا۔چند ہمدردوں نے انہیں نااہلی سے بچنے کے لیے مستعفی ہونے کا مشورہ بھی دیا، نوازشریف مگر اپنے فیصلے پر ڈٹے رہے ۔ انہوں نے ایک مرتبہ پھر لڑنے کا فیصلہ کیا ہے لیکن آئینی حدود کے اندر۔ امید ہے کہ وہ کبھی اس حد تک نہیں جائیں گے کہ ملک انارکی کا شکار ہو، ہاںستر سالہ نظام کی تبدیلی کے لیے وہ سرتوڑ کوششیں ضرور کریں گے، پارلیمان کے باہراور پارلیمان کے اندر بھی ، وہ نظام جو صرف منتخب وزرائے اعظم کو ہی نگلتا ہے ۔ نوازشریف کے چار سال مصلحتوں کے تحت خاموشی اور مصالحتو ںمیں گزر گئے، اب مگر ایک اور سوچ پروان چڑھ رہی ہے، یہ سوچ کہ آخر یہ مصلحتیں اور مصالحتیں کب تک ؟
نوازشریف کو جاننے والے جانتے ہیں کہ اب وہ آسانی سے ہار نہیں مانتے ، دوہزار چودہ کے دھرنے میں ان کے اعصاب آزمائے جا چکے ۔پاناما کیس میں ان کے ساتھ کیا ہوگا، سب کچھ دیوار پر صاف صاف لکھا تھا، پھر بھی انہوں نے آخری وقت تک استعفا نہ دینے کا فیصلہ کیا۔چند ہمدردوں نے انہیں نااہلی سے بچنے کے لیے مستعفی ہونے کا مشورہ بھی دیا، نوازشریف مگر اپنے فیصلے پر ڈٹے رہے ۔