انائیں جیت جاتی ہیں، انسان مگر ہار جاتے ہیں، رشتے بکھر جاتے ہیں، ملک اور قومیں بھی۔ دنیا ہم سے لڑ رہی ہے اور ہم آپس میں۔ رنجشیں ہو جاتی ہیں اور تنائو بھی، لیکن اسے انا کا مسئلہ نہیں بنانا چاہئے۔ انائوں کی جنگ میں مُلک ڈوب رہا ہے، اب ملک بچانا ہے یا اپنی اپنی انائیں، فیصلہ کسی اور نے نہیں، ہم نے خود کرنا ہے۔
کتنی بد گمانی ہے‘ گزشتہ کچھ واقعات سے واضح ہو چکا۔ جو تھوڑا بہت پردہ تھا وہ بھی اُٹھ چکا۔ یہ کہانی آج سے نہیں، دو ہزار چودہ سے شروع ہوئی، جاننے والے جانتے ہیں۔ کئی معاملات کی کڑیاں آپس میں ملتی ہیں، کہنے والوں کا یہ کہنا ہے۔ پاناما لیکس کوئی بین الاقوامی سازش نہیں تھی، لیکن اس پر ن لیگ کے کچھ تحفظات ہیں اور خدشات بھی۔ قانونی حلقوں نے بھی کئی سوالات اُٹھائے ہیں، مزید سوالات بھی اُٹھتے رہیں گے۔ بہرحال میاں نواز شریف کو عدالت نے نااہل قرار دیا ہے، عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد کرنا ہی پڑتا ہے، جہاں عدالتی فیصلوں پر عمل نہ ہو، وہاں صرف انتشار اور عدم استحکام ہوتا ہے۔ نااہلی کے فیصلے پر عمل ہو چکا، نواز شریف اس پر دل کی بھڑاس نکال چکے، جوش بھرے خطابات میں جس کو جو پیغام پہنچانا چاہتے تھے، وہ بھی پہنچا چکے، اب آگے کیا؟ ماضی میں نہیں، انہیں حال میں جینے کا فن سیکھنا ہے۔ جس قسم کی لڑائی وہ لڑنا چاہتے ہیں، فی الحال کوئی سیاسی جماعت ان کا ساتھ دینے کو تیار نہیں، جاننے والے اس کی وجوہات بھی جانتے ہیں۔ طاقت کا توازن کس جانب ہے، یہ کوئی بھید نہیں۔ تند و تیز بیانات اور دوسری جانب سے آنے والے معنی خیز جوابات، پوری تصویر واضح کر رہے
ہیں۔ نواز شریف کے ساتھ جو ہونا تھا ہو چکا، انہوں نے جو کھونا تھا وہ کھو چکے، اب حالات پر ان کی حکومت کا کتنا اختیار ہے، خود انہیں بھی اس کا اندازہ ہو رہا ہو گا۔ ایسی صورت حال میں کیا کرنا چاہیے؟ جلتی پر تیل ڈالیں یا مصالحت کی کوئی راہ نکالیں؟ اس کھیل میں نوازشریف کے پاس کھیلنے کے لیے صرف ایک پتا بچا ہے،انہیں پہلے مرحلے میں اس نظام کو کسی بھی صورت اگلے برس مارچ میں ہونے والے سینیٹ الیکشن تک بچانا ہے۔اس الیکشن کے بعد سینیٹ میں مسلم لیگ ن کو بھاری اکثریت حاصل ہو جائے گی۔یوں آئین میں ان ترامیم کی راہ ہموار ہو سکتی ہے جو نواز شریف کرانا چاہتے ہیں۔ دوسرے مرحلے میں اس نظام کو اگلے برس ہونے والے عام انتخابات تک پہنچانا ضروری ہے، اگر موجودہ محاذ آرائی بڑھتی رہی تو کیا یہ سب آسان ہو گا؟ فرض کیجیے نظام تو برقرار رہتا ہے لیکن تنائو ختم نہیں ہوتا، اس کا نتیجہ کیا نکل سکتا ہے؟ کیا اگلے الیکشن میں ن لیگ کے جیتنے کے امکانات کم نہیں کیے جا سکتے؟ اس کے حریفوں کو قوت نہیں بخشی جا سکتی؟ ایک زمینی حقیقت اور بھی ہے، نواز شریف اب وزیر اعظم نہیں، حکومت تو لیکن انہی کی ہے۔ اس لیے ممکنہ اقتصادی بحران کا جواب بھی انہیں ہی دینا پڑے گا۔ کیا وہ خاموشی سے معیشت کی عمارت کو زمیں بوس ہوتا دیکھتے رہیں گے؟ کیا قرضوں کا حجم یونہی بڑھتا رہے گا؟
اگلے انتخابات میں عوام کے سامنے صرف ہمدردی کا نہیں، کارکردگی کا کارڈ بھی رکھنا ہو گا۔ کیا نواز شریف نہیں جانتے کہ ان کے سیاسی مخالفین کی مقبولِ عام پروپیگنڈا کرنے کی صلاحیتیں ن لیگ سے کہیں بہتر ہیں۔ نواز شریف کو اپنی پارٹی اور ملک کے لیے مستقبل میں جھانکنا ہو گا۔ بجا کہ محاذ آرائی ختم کرنے کی ذمہ داری صرف حکومت پر عائد نہیں ہوتی، پھر بھی اس معاملے پر وہ پہل کرے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ ایسے معاملات میں شہباز شریف سفارت کاری اور مصالحت کاری کے ماہر ہیں۔ یقینا یہ عمل ماضی کی نسبت اتنا ہی پیچیدہ ہو سکتا ہے جتنے پیچیدہ موجودہ حالات ہیں۔ ایک اہم سوال اور بھی ہے۔ کیا اس مرتبہ شہباز شریف اِس قسم کی سفارت کاری میں دلچسپی رکھتے ہیں؟ یا وہ غیر متعلق رہنا چاہتے ہیں؟ اگر وہ مبینہ خاندانی وجوہ پر غیر متعلق رہنا چاہتے ہیں تو یہ گھاٹے کا سودا ہے، سراسر گھاٹے کا۔ نواز شریف سیاسی منظر سے ہٹ گئے تو اگلا ہدف شہباز شریف ہو سکتے ہیں۔ فی الحال یہ شریف خاندان اور پارٹی کی اجتماعی بقا کا مسئلہ ہے، گھریلو حساب کتاب اور معاملات طے کرنے کے مواقع بعد میں بھی آتے رہیں گے۔
اداروں کے درمیان رنجشوں کی وجہ کچھ بھی ہو، کسی بھی شخص، پارٹی یا ادارے کا مفاد ملکی مفاد سے بالاتر نہیں۔ موجودہ تنائو میں ملک عدم استحکام کا شکار ہو رہا ہے۔ اس صورت حال میں اگر کوئی مفاہمت کے لیے ایک قدم بڑھاتا ہے تو دوسرے کو بلا جھجک دو قدم آگے بڑھانے چاہئیں۔ یہ کسی کی ہار جیت یا کسی کے جھکنے اور اکڑنے کا معاملہ نہیں، ملکی مفاد کو کسی صورت انائوں کے پہاڑ تلے نہیں دبایا جا سکتا۔ پاک فوج بیک وقت کئی محاذوں پر لڑ رہی ہے، دہشت گردی کے خلاف اس نے جو کچھ کیا، افغانستان میں تیس ملکوں کی افواج مل کر بھی نہ کر پائیں، گزشتہ دنوں طالبان کی قید سے امریکی خاتون کیٹلن کولمین اور اس کے
کینیڈین شوہر جوشوا بوئل اور تین بچوں کی بازیابی اس کی واضح مثال ہے۔ امریکی صدر بھی تعریف کرنے پر مجبور ہو گئے مگر اتنی شاندار کامیابیوں اور بے مثال قربانیوں کے باوجود غیر ملکی الزامات کی بوچھاڑ ہے۔ پاک فوج کو بھارت اور اس کے زیر اثر افغان ایجنسیوں کے گٹھ جوڑ کے چیلنج کا سامنا بھی ہے۔ امریکا کی جانب سے بھارتی زبان میں سی پیک کے خلاف بیانات بھی ہم سن چکے۔ صدر ٹرمپ کی اس خطے کے لیے نئی سفارتی اور عسکری پالیسی کو نئی گریٹ گیم قرار دیا جا رہا ہے۔ اتنی پیچیدہ صورت حال میں عسکری ادارے سول معاملات کا بوجھ اٹھا سکتے ہیں نہ کسی ٹیکنوکریٹ نظام کا۔ حکومت کو بھی اب نواز شریف کی نااہلی کے صدمے سے باہر نکلنا ہو گا۔ وہ عدالتوں کے اندر قانونی لڑائی ضرور لڑیں، یہ ان کا آئینی حق بھی ہے، اس عمل کے دوران مگر معیشت اور دیگر شعبے متاثر نہیں ہونے چاہئیں۔ کاروباری برادری کا اعتماد بحال کرنے کے لیے حکومت کی جانب سے واضح پیغام آنا چاہیے، یہ کہ نواز شریف رخصت ہوئے ہیں لیکن حکومتی پالیسیوں کا تسلسل برقرار رہے گا۔ موجودہ غیر یقینی حالات معیشت کو نگل رہے ہیں، اس صورت حال کو ختم کرنے کی ذمہ داری تمام اداروں پر ہے۔ ادارے مل بیٹھ کر بھی کوئی واضح اور مثبت پیغام دے سکتے ہیں۔ دوسری جانب احتساب ریفرنسز کا معاملہ آئین کے مطابق آگے بڑھتا رہے، اس عمل پر مگر انتقام کا شائبہ نہیں ہونا چاہیے۔ یہ وقت ماضی کی تلخیوں اور انائوں کو دفن کرنے کا ہے، بار بار کریدنے سے زخم بھرتے نہیں، ہمیشہ ہرے رہتے ہیں، آخر ہماری انائیں کب تک ہمارے ملک کو لہولہان رکھیں گی۔