تمام لوگوں کو میری طرف سے برابری کی عزت، محبت اور خوشی کا سلام۔یہ تحریر صرف نوجوانوں کے لیے ہے اور میرے نزدیک نوجوان وہ سب لوگ ہیں جو بلا امتیاز عُمراورجنس اس دنیا کو تبدیل کرنے کاجذبہ اور ہمت رکھتے ہیں‘کیونکہ وہ یہ جانتے ہیں کہ موجودہ دُنیا اور اس کا نظام انسانوں کی اکثریت کے لیے انتہائی ظلم اور ناانصافی پر مبنی ہے۔یہ تحریر ایسے لوگوں کے لیے بالکل نہیں ہے جو اس دُنیا کے موجودہ نظام کو ہی درست سمجھتے ہیں۔ میری گزارشات شاید کچھ لوگوں کو نا گوار گزریں کیونکہ یہ چیلنج کرسکتی ہیں‘ ہماری روایتی سوچ کو‘ اُن خیالات اور نظریات کو جو صدیوں سے ہم پڑھتے اور سیکھتے چلے آرہے ہیںاور ان تعلیمات کو جن کی بنیاد ہماری اپنی اپنی مخصوص ثقافت پر ہے۔ایسے عقیدے جو ہمیںہمارے خاندانوں ، ہمارے سکولوں اور ہمارے معاشروں سے ورثے میں ملے ہیں اورجن کا عقل،شعور،غور و فکر اور سائنسی تحقیق کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں۔ اگر اس سے ہم میں سے کچھ کے جذبات کو ٹھیس پہنچے تو اس کے لیے مجھے افسوس ہے۔ میرا نام جواد احمد ہے اور میں پاکستان میں رہتا ہوں۔ رسمی تعلیم کے حوالے سے میں مکینیکل انجینئر ہوں جبکہ پیشے کے اعتبار سے گلوکار، موسیقار اور فلم ساز ہوں۔ یہ تحریر لکھنے کا میرا ایک ہی مقصد ہے کہ جو کچھ میرے ذہن میں ہے‘ پاکستان اور دنیا بھر کے انقلابی نوجوانوں تک پہنچائوں۔ اپنی سیاسی سوچ، فلسفے اور نظریے کی رُوسے میں بین الاقوامیت پسند ہوں اور میری یہ دلی خواہش ہے کہ آپ بھی بین الاقوامیت پسند بنیں، کیو نکہ میں محسوس کرتا ہوں کہ دنیا کے مصائب، محرومیوں، بُرائیوں اور جھگڑوں کا علاج صرف بین الاقوامیت کے نظریے میں ہی ہے،اور اسی کی وجہ سے مجھے اس دُنیا کوبہتر طور پر سمجھنے، جاننے اوراسے تبدیل کرنے کا حوصلہ اور رہنمائی ملتی ہے۔ اگر آپ بغور اس دنیا کا مشاہدہ کریںتو آ پ بھی یقینا اس نتیجے پر پہنچیںگے کہ آپس میں جڑی ہوئی اس گلوبلائزڈ دنیا میں تمام مُلک ایک دوسرے پر انحصار کرنے پر مجبور ہیں۔ عالمی معیشت‘ ذرائع پیداوار اوروسائل کی کھپت اور مستقبل میں اُن کی ترقی اور نشوونما اور مختلف الانواع مسائل کے ہوتے ہوئے اپنی اپنی تنگ نظر قومیت کا ڈھنڈورا پیٹنا اورایک یا چند لوگوںیا چند ملکوں کی ترقی کی بات کرنا محض ایک ڈھکوسلا اور خام خیالی ہے۔ اگراب بھی آنے والے وقت میں ان تمام مسائل اور اُن کے حل کو بین الاقوامیت کے حوالے سے نہ دیکھا گیاتو مقابلہ بازی اور منافع خوری کی بنیاد پر بنا ہوا یہ ظالم سرمایہ دارانہ نظام ، جس کی وجہ سے جنگیں اس دنیا کا مقدر بن چکی ہیں،آنے والے وقت میں دنیا بھرکے لوگوں اور خاص طور پر نوجوانوں کونا اُمیدی ،مایوسی اورمعاشی و سماجی پریشانیوں کے ایک اور بھی بڑے ،گہرے اوراندھے گڑھے میں دھکیل دے گا۔ جب میں سٹیج پر پرفارم کر رہا ہوتا ہوںاور میں حاضرین کے چہروں کو دیکھتا ہوں تو بہت سے چہرے چمک رہے ہوتے ہیں۔ ان کے چمک اٹھنے کی کئی وجوہات ہوتی ہیں۔ان میں سے کچھ گانے کی لَے اور اِن لمحات سے لُطف اندوز ہورہے ہوتے ہیں،جبکہ کچھ اُس کی دُھن اور روح کو سمجھ کر اسے اپنے اندر جذب کرتے ہیں، اور کچھ کو مجمع میںاکٹھا ہونے کا گرم جوش احساس محظوظ کرتا ہے۔مگر بہت سے لوگ ایک چیزضرورمحسوس کرتے ہیں کہ شاید وہ کبھی بھی اپنے آپ کو سٹیج پر نہ دیکھ سکیں۔لوگ آپ کو بتائیں گے کہ اس کا تعلق قابلیت اور مواقع سے ہے،لیکن جب میں اردگرد نظر دوڑاتا ہوں اور اپنے آپ کو اور اپنی طرح کے دوسرے درمیانے درجے کے فنکاروں کو دیکھتا ہوں جو بڑی کامیابیاں حاصل کرکے بہت بڑے اور مشہور ہو جاتے ہیں،تو میں یہ بات اچھی طرح جان جاتا ہوں کہ اس کامیابی کا تعلق صرف قابلیت سے نہیں ہے اور اگر تھوڑا بہت ہے بھی تو قابلیت اس کامیابی کا ایک بہت چھوٹا سا حصہ ہے۔ تو پھر کیا کامیابی کا تعلق مواقع حاصل ہونے سے ہے؟اس کو سمجھنے کے لیے ہمیں موقع ملنے کی وضاحت کرنا ہوگی۔ موقع ملنا کیاہے؟ دنیا کے موجودہ اور باطل سرمایہ دارانہ نظام میںموقع ملنا اصل میں صرف درُست وقت پر د رُست جگہ موجود ہونے کا نام ہے جو یا تو تگ ودو اور محنت کے ساتھ حاصل ہوتا ہے یا پھر خوش قسمتی سے اور یا دونوں کے امتزاج سے۔ لیکن اگر ہم غور کریںتو تگ ودو یا محنت سے صحیح وقت پر صحیح جگہ پہنچ جانا بھی خوش قسمتی ہی سے ممکن ہوتا ہے ورنہ ہم نے اکثر یہ دیکھا ہے کہ بہت سے قابل لوگ کسی چیز میں بہت زیادہ محنت کرتے ہیں لیکن وہ کبھی درُست وقت پر د رُست جگہ نہیں پہنچ پاتے یعنی اُنہیں کبھی موقع نہیں مل پاتا اور وہ کبھی کامیاب نہیں ہو پاتے۔ تو اسکا مطلب یہ ہوا کہ اس دنیا کے موجودہ سرمایہ دارانہ نظام میں موقع ملنا یا کامیاب ہوناآخر میں صرف خوش قسمتی سے ہی ممکن ہوتا ہے ۔ اس حیران کن حقیقت کو جاننے کے بعد آیئے اب ہم آگے چلتے ہیں۔ اب اگر ہم اپنے ارد گرد کاپھر جائزہ لیں تو ہم پرایک اور دلچسپ حقیقت آشکار ہو گی کہ اس نظام میں صحیح وقت پر صحیح جگہ ہونا‘ موقع ملنا یا کامیابی صرف چند لوگوں کو ہی نصیب ہو پاتی ہے‘ لیکن کیا یہ عوام الناس یا اکثریت کیلئے بھی ہے؟ اس کا جواب نفی میں ہے!کیونکہ اکثر صحیح وقت اور صحیح جگہیں مالداروں ، دولتمندوں، مراعات یافتہ اور طاقتور لوگوں اور ان کے بچوںکے لیے مختص ہوتی ہیں۔ بلکہ ان میں سے زیادہ تر لوگ خوش قسمتی کو اپنے لئے پیدا بھی کرسکتے ہیں۔ چنانچہ معلوم ہواکہ دونوں قسم کے لوگ یعنی ایک میری طرح کے چند لوگ جن کو زندگی میںموقع مل گیا اور دوسرے وہ جو خوش قسمتی اپنے لئے پیدا کر سکتے ہیں ، دونوں کامیاب کہلاتے ہیں۔ اور یہ دونوں قسم کے لوگ اس بات کو بھی بے حدپسند کرتے ہیں اگر یہ کہا جائے کہ اُن پر خدا کا کرم ہے۔ آبادی کا زیادہ تر حصّہ ان لوگوں کے مطابق خدا کے کرم سے محروم رہتا ہے۔ کیا یہ سب کچھ دُرست ہے اور انصاف پر مبنی ہے ؟ کوئی بھی سمجھدار اور عقل مند شخص اس سے اتفاق نہیں کرے گا۔ مواقع کا انحصار خوش قسمتی پر نہیں ہونا چاہیے۔کچھ بھی کرنے کے مواقع ہرانسان کے لیے یکساں ہونے چاہئیں۔ انسان کو اس قابل ہونا چاہیے کہ وہ ہاتھ بڑھا کر ان کو چھُو سکے، ان سے فائدہ حاصل کرسکے، ان سے محظوظ ہو سکے اور انہیں اس طرح استعمال کرسکے کہ جس سے صرف اسے ہی نہیںبلکہ ساری دنیا کو فائدہ ہو۔تب ہی ایسا ہو پائے گا کہ ایک فرد کی انفرادی خوشی اور معاشرے کی اجتماعی بہتری مل کر ایک حقیقت اور ایک اکائی بن جائے گی، یعنی بنی نوع انسان کی اجتماعی تعمیرو ترقی۔لیکن آج تک طبقات میں بٹی ہوئی اس دنیا میںیہ ممکن نہیں ہوسکاجہاں کسی انسان کی کامیابی کا دارومدار مواقع اور خوش قسمتی پر ہے ا ور ہم دیکھتے ہیں کہ غریب ، امیر، ترقی اور غیر ترقی یافتہ لوگوں ، قوموں اور ملکوں کا فرق دن بہ دن بڑھتا ہی چلا جارہا ہے۔ دنیا میں کسی موقع کے سرے سے موجود نہ ہونے کو موقع نہ ملنے کی واحد شرط ہونا چاہیے اور کسی کو مو قع نہ ملنا صرف اسی صورت میں ممکن ہونا چاہیے۔ دوسرے الفاظ میں اگر اس دنیا میں کسی موقع کا کوئی وجود ہے تووہ ہر کسی کو ملنا چاہیے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ انسانوں کو موقع ملنے یا ان کی کامیابی کا انحصار خوش قسمتی ،نصیب اور مقدر جیسے لفظوں پر نہیں ہونا چاہیے ورنہ کسی انسانی معاشرے یا سماج کا قائم ہونا نہ ہونا برابر ہے اور ایسانظام لازمی طور پر نا انصافی اور ظلم پر مبنی ہوتا ہے۔پھر آخر ایسا کیوں ہے کہ بنی نوع انسان آج تک ظلم اور نا انصافی پر مبنی ایسے سماج ،معاشرے اوراُونچ نِیچ کے طبقاتی نظام میں رہنے پر مجبور ہے؟اس سوال کے جواب کیلئے ہمیں صدیوں سے انسانوں پر حکمران طبقے اور اُس کے بنائے ہوئے باطل نظام کی تاریخ کو کھنگا لنا ہوگا۔