پاکستان کی سیاسی پارٹیاں (قسط1)

14,11,7اور 16جون 2013ء کو روزنامہ دنیا میں شائع ہونے والے میرے چار کالم انقلابی نوجوانوں کے نام تھے۔ ایسے نوجوان جو یہ دیکھتے ہیں کہ اس دنیامیں کتنی غربت ،محرومی ، ناانصافی اور ظلم ہے۔ اور یہ کس قدر بے ہنگم، غلط اور بُرے طریقے سے چل رہی ہے۔ایسے نوجوان جو اسے تبدیل کرنے کا حوصلہ ، ہمت اور اہلیت رکھتے ہیں۔ ہاں! اگر کچھ کمی ہے بھی تو یہ کہ ان کو اپنے اندر موجو داُن گہری قوتوں کا ادراک ہو جائے جن کے ذریعے اگر وہ چاہیں تو اس دنیا کو پل بھر میں بدل سکتے ہیں۔ آج میں جس موضوع پر قلم اٹھا رہا ہوں اس کا تعلق ملک میں موجود تمام انسانوں بالخصوص نوجوانوں کے ساتھ بالواسطہ بنتا ہے۔ایک اور بات جو میں پہلے بھی اختصارکے ساتھ اپنے گذشتہ کالم میں لکھ چکا ہوں ، یہ ہے کہ نوجوان صرف عمر کے حوالے سے ہی نہیں ہوتے‘ ہر وہ انسان نوجوان ہوتا ہے جو دنیا میں موجود جلتے ہوئے مسائل کو نہ صرف سمجھتا اورمحسوس کرتا ہے بلکہ اس باطل نظام کے خلاف جدو جہدکرنے اور ایک نئی دنیاتعمیر کرنے کا جذبہ بھی رکھتا ہے۔ میں نے بہت سے کم عمر نوجوان اندر سے بوڑھے اور بہت سے بوڑھے اندر سے جوان دیکھے ہیں۔ پہلی قسم میں خود کو بدلنے کی صلاحیت(Potential)ہوتی ہے۔ کم عمر نوجوان کسی بھی وقت اپنے اندر وہ انقلابی تحریک پیدا کر سکتے ہیں جو ان کی عمر کا خاصہ ہوتی ہے۔ لیکن دوسری قسم یعنی بڑی عمر کے باہمت لوگوں میں یہ عظیم وصف ان کے اس دنیا سے لوٹ جانے تک بدرجہ اتم موجود رہتا ہے۔ میں یہاں ایک اعتراف کرنا چاہتا ہوں کہ جتنا جوش، جذبہ اور ولولہ میں نے بڑی اور ادھیڑ عمر کے نوجوانوں میں دیکھا ہے، وہ اپنی مثال آپ ہے۔میںنے خود ان عظیم لوگوں سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ ان کا جذبہ‘ ان کی سمجھ بوجھ تجربے کے ساتھ مل کر ان کی استادانہ اہلیت اور اثر انگیز شخصیت کو دو آتشہ بنا ڈالتا ہے۔یہ نوجوان بزرگ لوگ معاشرے کے ہر طبقے اور شعبے سے تعلق رکھتے ہیں۔ میں یہاں پڑھے لکھے سفید پوش لوگوں، مزدوروں، کسانوں، اساتذہ اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے نوجوان بزرگوں کی بات کر رہاہوں۔دنیا بھر کے انقلابی نوجوانوںکو میرا محبت بھرا سلام! دنیا میں قائم سرمایہ دارانہ نظام کے اندر ہر انسان جانتا ہے کہ اس کی روزی صرف اس کے اپنے ذمے ہے۔ اور کوئی ریاست ، نظام یا انسانی معاشرہ اس کے معاش کا ضامن نہیں ہے۔ اپنے لئے اورپنے بچوں کے لئے اُسے جو کچھ بھی کرنا ہے وہ خود ہی کرنا ہے ورنہ اُسے بھوکا مرنا پڑ سکتا ہے۔ یہ چیز اس کے اندر ایک ڈر، خوف اور بے بسی کا احساس پیدا کرتی ہے۔ منڈی کی قوتوں پر اس کی روز ی روٹی کا انحصار اُسے کمزور اور بزدل بنا دیتا ہے۔ اسے معلوم ہوتا ہے کہ بازار میں اس کی محنت پر لگنے والی قیمت پر اس کی اور اس کے خاندان کی زندگی کا دارومدار ہے ۔وہ ایک ایسا انسان بن جاتا ہے جو ہر حال میں اپنی جاب یا ذریعہ معاش کی حفاظت اور دفاع کرتاہے چاہے اس کے لیے اسے کسی بھی درجے کی منافقت یا مصلحت پسندی کیوں نہ کرنی پڑے۔غرض اس کی روزی اس کی زندگی کی سب سے بڑی کمزوری اور مجبوری بن جاتی ہے ۔ معاشرے میں رہنے اور اپنی روزی کمانے اور بچانے کے لیے اسے با اثر اور طاقت ور لوگوں سے تعلقات بنانے پڑتے ہیں چاہے اسے اپنے ضمیر کو مار کر خوشامد، سازش، رشوت اور سفارش ہی سے کام کیوں نہ لینا پڑے۔ وہ اپنے مالکان اور افسران کی چاپلوسی کرتا ہے، چاہے اصل میں وہ انہیںاس قابل ہی نہ سمجھتا ہو کہ وہ ان کی عزت کرے۔ اگر آپ اپنی آنکھوں سے یہ سب کچھ ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں تو دفتروں، کارخانوں، اداروں، کھیتوں، جاگیروں، تھانوں، کچہریوں اور ہسپتالوں میں غریبوں، ملازموں، ماتحتوں اور سفید پوشوں کا حال دیکھ لیں۔ان میں بہت سے غیرت مند اورعزت دار لوگ نہ چاہتے ہوئے بھی ساری عمر صبر کاکڑوا گھونٹ پی کر زندگی گزارتے ہیں۔ وہ گُھٹ گُھٹ کر اور مجبوری میں ان سب باتوں اور حالات کو سہتے ہیں جو ان کے کام کے حوالے سے انہیں برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ روز جیتا ہوں روز مرتا ہوں جب تیرے شہر سے گزرتا ہوں اگر دیکھا جائے تو اس سے یہی پتہ لگتا ہے کہ ہر انسان کی اس سرمایہ دارانہ نظام کے بازار میں قیمت لگتی ہے جو پوری زندگی اُسے قسطوں میں اُ س کی تنخواہ، معاوضہ یا آمدنی کی صورت میں ادا کی جاتی ہے۔غرض یہ بات ایک مسلمہ اصول بن جاتی ہے کہ جس کی آمدنی زیادہ ہو وہ معاشرے کے لیے زیادہ فائدہ مند اور بڑا آدمی ہے اور جس کی آمدنی کم ہے اس کی حیثیت اس نظام کی مشینری میں ایک چھوٹے آدمی اور ایک حقیر پُرزے کی طرح ہوتی ہے‘ جس کو کسی بھی وقت اسی طرح کے ہزاروں، لاکھوں اورکروڑوں پُرزوں کے ساتھ تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ اقبالؔ نے کہا: ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت احساس مروّت کو کچل دیتے ہیں آلات اس نظام میںلوگوں کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ کوئی جتنا غریب ہو وہ اتنا ہی بے مصرف ہوتا ہے اور کوئی جتنا امیر ہو اس کی معاشرے کو اتنی ہی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔میرے دوستو! یہ سب تاریخ کا سب سے بڑا جھوٹ ہے ، حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا کو صرف غلاموں، مزدوروں ، کسانوں اور تنخواہ دار ملازموں یا اُجرت لینے والوں نے چلایا ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو اپنے خون اور پسینے سے دنیا میں ہونے والی تمام ترقی کی آج تک آبیاری کر رہے ہیں۔یہی وہ لوگ ہیں جو اس دنیا میں بسنے والے تمام انسانوں کے لیے خوراک، مصنوعات ،دیگر ضروریات زندگی اور سہولیات فراہم کرتے ہیں۔ قلیل اُجرتوں میں زمین کا سینہ چیرنے والے کسان، نہایت کم معاوضوں کے عوض دہکتی بھٹیوں اور مشینوں کے آگے شدید ذہنی اور جسمانی مشقت کرنے والے مزدور، دفتروںاور اداروں میں انتہائی لمبے اوقات محنت کا سامنا کرنے والے سفید پوش تنخواہ دار ملازم ہی اصل میں اس نظام کا پہیہ گھمانے والے ہیں۔ پوری انسانی تاریخ میں یہی لوگ بادشاہوں، غلام داروں،جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو سرمایہ بنا کر دینے اور مہیا کرنے والے ہیں۔ انسانی سماجوں میں سرمائے اور طاقت کا اصل منبع یہی ہیں۔ یہی اس دنیا میں موجود ہر چیز کو اپنے ہاتھوں سے بنانے اور چلانے والے ہیں۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ان کو خود بھی یہ نہیں معلوم کہ وہ کون ہیں۔ ان کو اس نظام میں یہ پتہ ہی نہیں لگنے دیا جاتا کہ معاشرے میں پیدا ہونے والی دولت اور طاقت کے اصل مالک وہی ہیں نہ کہ ان کے مالکان ، جاگیردار اور سرمایہ دار۔ اُن کو اس ازلی حقیقت سے لا علم اور دور رکھنے کے لیے اس نظام کے چلانے والے تعلیم اور ذرائع ابلاغ کا استعمال کرتے ہیںجس کی وجہ سے انہیں اس چیز کا ادراک ہی نہیں ہو پاتا کہ معاشرے میں موجود اصل طاقت وہ خود ہیں۔ وہی اس نظام کی پیداواری قوت ہیں اور اس لیے اس نظام کو چلانے کا حق بھی صرف انہیں ہوناچاہیے نہ کہ ان کی محنت کی بدولت بنے ہوئے امیروں ،جاگیرداروں، سرمایہ داروں، بااثر حکمران طبقات اور طاقتور ریاستی نمائندوں کو۔ مزدور، کسان ،اجرتی اور تنخواہ دار ملازم یہ نہیں جان پاتے کہ اگر وہ نہ ہوں تو کسی بھی نظام کی ساری حرکت رک جائے اور نظام مفلوج ہو کر کچھ بھی کرنے سے قاصر ہوجائے ۔اپنی اس بے پناہ قوت سے لا علم اوربے خبر ان محنت کشوں کے لیے کوئی آواز نہیں اٹھاتا،اسی لیے ان پر ظلم اور استحصال جاری رہتا ہے۔ کیا نوازشریف صاحب، زرداری صاحب، عمران خان صاحب، الطاف حسین صاحب، چوہدری شجاعت صاحب، اسفند یار ولی صاحب، فضل الرحمٰن صاحب،منور حسن صاحب اور ان کی پارٹیاں مندرجہ بالا ان تمام لوگوں کے ساتھ کھڑی ہیں؟ کیا یہ سب انسانی مساوات اور برابری پر یقین رکھتے ہیں؟ اس سوال کا جواب جو نہایت غور طلب ،حیران کن اور دکھ انگیز ہے ، ہم اگلے کالم میں دیں گے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں