پاکستان میں کسی بھی سیاسی پارٹی سے پوچھا جائے کہ وہ انسانوں کے لیے کیا کرنا چاہتی ہے تو سب کا ایک ہی جواب ہوتا ہے کہ وہ انسانوں کی بہتری اور ان کے حقوق لیے کام کرنا چاہتی ہیں۔ جب ان سے پوچھا جائے کہ انسانوں کی بہتری اور حقوق کیا ہوتے ہیں تو وہ آپ کو کوئی بھی خاطر خواہ یا واضح جواب دینے سے قاصر ہوتے ہیں۔ عموماًوہ انسانوں کو ان کی تنخواہ یا آمدنی کے حوالے سے تولتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ ان کا جواب یہ ہوتا ہے کہ حکومت میں آکر وہ ایسے اقدامات کریں گے کہ جن کے نتیجے میں9000تنخواہ لینے والے کی تنخواہ,10,000 30,000والے کی 35,000 اور 60,000والے کی 70,000 ہوجائے گی۔اگر کوئی سیاسی پارٹی کچھ زیادہ ہی اصلاحات پسند ہو اور بظاہر تبدیلی ، تبدیلی کے نعرے بھی لگا رہی ہو تو وہ شاید بچوں کو مفت تعلیم دینے اور کسی حد تک صحت کی مفت سہولیات فراہم کرنے کی بات کرے گی۔ اب اگر آپ یہی سوال اس نظام میں جکڑے ہوئے کسی انسان سے پوچھیں کہ انسانوں کی بہتری اور حقوق کیا ہوتے ہیں تو وہ آپ کو اپنے مخصوص حالاتِ زندگی کے حوالے سے ایک چھوٹی یا لمبی فہرست تھما دے گا جو اس بات پر منحصر ہوگی کہ وہ کس معاشی طبقے یاسماجی درجے سے تعلق رکھتا ہے ، مثلاًاس بے رحمانہ نظام کا ستایا ہوا ایک غریب مزدور یا کسان کبھی آپ سے یہ نہیں کہے گا کہ وہ امریکہ کے ڈزنی لینڈ یا سوئٹزرلینڈ کے باغات کی سیر کرنا چاہتاہے۔ بلکہ وہ اپنے روزگار یا برُاوقت پڑنے پر اپنے اوراپنے خاندان کے مناسب علاج کی خواہش کرے گا۔اسی طرح ایک امیر آدمی کبھی آپ سے اپنے بچوں کے لئے اچھی تعلیم کی ڈیمانڈ نہیں کرے گا، بلکہ شاید اپنا ایک ذاتی ہوائی جہاز خریدنے کی خواہش کرے گا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ نظام انسانوں کوغریب اور امیر طبقات میں بانٹ کر رکھتا ہے جہاں ہر انسان اپنی حیثیت کو خوب پہچانتا ہے اور وہ اتنی ہی خواہش کرتا ہے جتنی اپنی نظر میں اس کی معاشی اور معاشرتی اوقات ہوتی ہے۔ اس کے باوجود کہ ایک جیتے جاگتے انسان کی حیثیت سے ایک غریب آدمی اور اس کے بچوں کی ضروریات اور پسند وہی ہوتی ہیں جو ایک امیر آدمی اور اس کے بچوں کی ۔لیکن وہ ڈرا ہوا اوراپنی ہی نظر میں حقیر آدمی کبھی ریاست یا حکومت سے اپنے لیے ان تمام اشیائے ضرورت یا سہولیات کا تقاضا نہیں کرتا جو اس دنیا میں اس کے ارد گرد وافر سے بھی زیادہ مقدار میںموجود ہوتی ہیں۔وہ اور اس کے بچے ساری عمر ان چیزوں کو ترستے ہیںجن کو امراء کسی بھی وقت آسانی سے حاصل کر سکتے ہیں۔ اسے بتایا جاتا ہے کہ یہ خدا کا نظام ہے جس میں غریب اور امیردونوں کا ہونا لازمی ہے اور اس لیے وہ اپنی غربت اور اپنے بچوں کی محرومیوں پر صبر کرے ۔وہ اپنے آپ کو اس قابل ہی نہیں سمجھتا کہ اپنے اور اپنے خاندان کے لیے برابر کے حقوق، وسائل اور سہولیات کی خواہش کر سکے ۔غرض اس کے خواب بھی اتنے ہی حقیر ہوتے ہیں جتنا کہ اپنی نظر میںوہ خود۔ میرے دوستو!در حقیقت معاشرے میں غریب پر مسلّط اسی سوچ کا تمام سیاسی پارٹیاںاور حکمران طبقات فائدہ اٹھاتے ہیں۔ یہ سب پارٹیاں اور ان کے لیڈرز یہ سمجھتے ہیں کہ انسان برابر نہیں ہوتے ،اس لیے نہ تو انہیں برابر کی اشیائے ضرورت، وسائل اور سہولیات چاہیے ہوتی ہیںاور نہ ہی ا نہیں یہ سب دینے کی بات کرنی چاہیے۔اصل میں یہ سب لوگ اپنی خود غرضی، لالچ اور کم علمی کی بنیاد پربنائے گئے اس اصول پر کام کرتے ہیں کہ ہمارا فرض صرف یہ ہے کہ ہم لوگوں کی حالت تھوڑی سی بہتر بنا دیں۔ مثال کے طور پر غریب کو دو روٹیاں زیادہ کھانے کو مل جائیں ، جو آدمی بس پر سواری کرتا ہے وہ سائیکل خرید سکے اور جو سائیکل چلا چلا کر اور غذائی قلت کی وجہ سے اپنے جسم کا ضرورت سے زیادہ خراج ادا کر چکا ہو، وہ شاید کبھی ایک پرانی سی سیکنڈ ہینڈ موٹر سائیکل خرید سکے۔ جبکہ اسی وقت معاشرے کا ایک چھوٹا سا طبقہ دنیا کی بہترین گاڑیوںاور جہازوں میںسفر کر رہا ہوتا ہے اور دنیا میں موجود کسی بھی قسم کی خوراک کو اپنی مرضی اور پسند سے کھانے یا نہ کھانے کی استطاعت رکھتا ہے۔ ٹی بی جیسی ایک معمولی سی بیماری کے علاج کے لیے ایک سستی سی دوائی بھی خرید نہ سکنے کی وجہ سے ایک غریب آدمی مر جاتا ہے، جبکہ امیروں کو اس دنیا میں موجود ہر قسم کے علاج معالجے کی سہولیات میسر ہوتی ہیں۔ یہ سب لوگ ڈھٹائی سے کہتے ہیں کہ یہ تو صاف ظاہر اور ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ہم ہر انسان کوہر چیز مہیا نہیں کر سکتے۔ان میں سے زیادہ تر لوگ اتنے کم علم ہیں کہ ان کو اتنا بھی معلوم نہیں ہے کہ دنیا میں اتنی کثرتِ مقدار میں سہولیات اور ضروریات زندگی موجود ہیں کہ صرف اگر ظالم، غاصب اور جابر سرمایہ دارانہ نظام کو ختم کر دیا جائے تو دنیا میں موجود تمام انسانوں کو ان کی پسند اور ضرورت کی ہرچیز مہیا کی جاسکتی ہے۔’’اوکسفیم انٹرنیشنل ‘‘کے حال ہی میں شائع ہونے والے ایک سروے کے مطابق دنیا کے صرف 100 امیر ترین لوگوں کے پاس اتنی دولت ہے کہ وہ ایک نہیں بلکہ 4 بار اس دنیا سے غربت کا مکمل خاتمہ کر سکتے ہیں۔ اس کے باوجود ان تنگ نظر لیڈر ان اور ان کی پارٹیوں کے بنائے ہوئے منشورچیخ چیخ کر یہ اعلان کر رہے ہوتے ہیں کہ ہم انسانی مساوات کو نہیں مانتے اور اس لیے ہم معا شرے میں غریب اور امیر دونوں رکھیں گے ، بلکہ اصل میں تو ہم امیر کو امیر اور غریب کو غریب رکھیں گے، چاہے اس کے لیے ہمیں کسی بھی حد تک کیوں نہ جانا پڑے۔ چاہے اس کے لیے ہمیں ایک مضحکہ خیز بجٹ ہی کیوں نہ بنانا پڑے، چاہے ہمیںغربت سے ستائے ہوئے عوام کے احتجاجی مظاہروں پر لاٹھی چارج ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ چاہے مذہب اور قومیت کے نام پر ابھرنے والی لڑائیوں کی ہمیں ،بڑے غم انگیز انداز میں،بار بار پُر زور مذمت ہی کیوں نہ کرنی پڑے، جن کے ہونے کی اصل وجہ درحقیقت لوگوں کو برابری کی بنیاد پر اُن کے حقوق اور خوشحالی نہ دے سکنا،غربت اور سماج میں قائم طبقاتی نظام ہو۔ پاکستان کی کوئی بھی سیاسی پارٹی یااس کے لیڈران انسانی مساوات اور برابری کی بات نہیں کرتے اور اگر آپ ان سے اس کی وجہ پوچھیں گے تووہ حکمران طبقے کے نمائندے کی حیثیت سے یہی کہیں گے کہ یہ خدا کی مرضی ہے اور اس کا نظام ہے کہ لوگ برابرنہ ہوں اور اسی لیے ہم انسانی برابری اور مساوات قائم کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ یہ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر تمام انسان برابر ہو جائیں گے تو پھر دنیا میں کام کون کرے گا۔ اس لیے دنیا میں لوگوں کو امیر اور غریب، خوشحال اور محروم طبقات میں بانٹ کر رکھا جانا ضروری ہے۔ امیر اور غریب طبقے ہمیشہ رہیں گے اور ہم اس حقیقت کو کبھی بدل نہیں سکتے،اور غریبوں کو چاہیے کہ وہ صبر و شکر سے کام لیں۔ یہ اور بات ہے کہ وہ خوداپنی زندگیوں میں نہ تو صبر اور نہ شکر ہی کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کی یہ باتیں سن کر ان پڑھ اور لاعلم غریب لوگ چکرا جاتے ہیںاور سمجھتے ہیں کہ شاید ان کی یہ غربت اور پسماندہ حالات ِزندگی خدا کی طرف سے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ وہ اپنے حقوق کے لیے نہ تو آواز اٹھاتے ہیں اور نہ اس کے لیے جدوجہد ہی کرتے ہیں۔ کیا سینکڑوں کنال کے گھروں میں رہنے والے اور شاہانہ طرز سے زندگی گذارنے والے بے تحاشا دولت اور طاقت کے مالک یہ لوگ واقعی سچ کہتے ہیں؟ کیا یہ واقعی غریبوں اور ملازم پیشہ سفید پوشوں کے درد کو سمجھتے ہیں؟ کیا ان کی پارٹیوں کے منشور اور دستور انسانی مساوات کے حوالے سے بھی کوئی بات کرتے ہیں؟ آپ سے التماس ہے کہ آپ میرے ساتھ رہیے ، ہم مل کر اپنے اگلے کالم میں اس حقیقت سے پردہ اٹھانے کی کوشش کریں گے۔