پاکستان کی سیاسی پارٹیاں (قسط4)

مَیں عام طور پر اپنی تحریروںاور کالم میں اپنے لیے مَیں کا صیغہ استعمال نہیں کرتا۔ اس کی دو وجہیں ہیں ۔ایک تو یہ کہ مجھے’’ مَیں‘‘ کے لفظ سے غرور، اَنا اور خود پسندانفرادیت کا تاثر ملتا ہے اور ہر چند کہ یہ اُردو زبان کا ایک مستند لفظ ہے، لیکن عاجزی اور انکساری جیسے انسانی جذبات اس لفظ ’’مَیں ـ‘‘ کے اندر مفقود ہوتے ہیں۔دوسری وجہ یہ ہے کہ ’’مَیں‘‘ کی جگہ’’ ہم ‘‘جیسے الفاظ اجتماعی خوشی اور ترقی کے علمبردار ہوتے ہیں۔’’ہم‘‘ لوگوں کو آپس میں جوڑنے والا لفظ ہے جس میں ایک خاص رُوحانی طاقت ہوتی ہے، جو اس لفظ کو پڑھنے اور لکھنے والے کو بخوبی محسوس ہوتی ہے۔لیکن بہر حال کئی دفعہ زندگی میں ایسے لمحات یا موڑ آتے ہیں جب کوئی آپ کی ذات کے بارے سوال یا استفسار کرتا ہے ، تو پھر آپ کو اپنا آپ کریدنا پڑتا ہے، اور اپنے بارے میں بات کرنا پڑتی ہے۔ اس وقت اس کو بیان کرنے کے لیے ـ’’ مَیں‘‘ ایک موزوں ترین لفظ بن جاتا ہے۔ کافی دنوں سے میرے کالم پڑھنے والے قارئین مجھ سے یہ پوچھ رہے ہیں کہ میں خود پاکستان کی کون سی سیاسی پارٹی کو پسند کرتا ہوں اور کیا میں کہیں اپنی تحریروں میں کسی پارٹی کا ایجنڈا لے کر تو نہیں چل رہا؟ تو آج میں اس کالم میں اس بات کا جواب دینا ضروری سمجھتا ہوں۔ ویسے انسانی حوالے سے سوچُوںتو تمام پارٹیاں میرے لیے قابلِ احترام ہیںلیکن یہ بھی سچ ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ سب پارٹیاں ایک جیسی ہی ہیں اور اس حوالے سے ان سب میں کوئی فرق نہیں ہے، کہ ان میں سے کوئی بھی انسانی برابری اور مساوات کی بات نہیں کرتی ۔ اور سب اپنے اپنے طریقے سے اس طبقاتی سرمایہ دارانہ نظام کو طول دے رہی ہیں۔ یہ سب اس نظام کی محافظ ہیں اور چاہے ان کے منشور، دستوراور اقدامات ایک دوسرے سے قدرے مختلف ہوں، لیکن سب کے اندر ایک قدرِ مشترک ہے کہ وہ انسانوں کو امیر اور غریب طبقات میں بانٹ کر رکھنا چاہتے ہیںاور اس نظام کو تاریخی طور پر صحیح سمجھتے ہیں۔اپنے مؤقف کو واضح کرنے کے بعد اب ہم آگے چلتے ہیں۔ اپنے گذشتہ کالم میں ہم نے یہ واضح کیا تھا کہ کس طرح سیاست میں انسانی برابری اور مساوات کا سوال زیرِ بحث آتے ہی پاکستان کی سیاسی پارٹیاں اور ان کے لیڈران ڈر سے جاتے ہیں اور مزدوروں، کسانوں اور ملازموں پر ظلم اور لُوٹ کھسوٹ کے بل بوتے پر کمائی ہوئی اپنی جائیدادیں، دولت اور شان و شوکت بچانے کے لیے جھوٹے طریقے سے خدا کا نام استعمال کرتے ہیںاور لوگوں کو یہ باور کراتے ہیں کہ اصل میں خدا یہ نہیں چاہتا کہ انسان برابر ہوں۔وہ اپنی پوری سیاست میں کبھی بھی اور کہیں بھی غریب اور امیر کے فرق کو ختم کرنے کی بات نہیں کرتے۔اس بات سے ان کی جان نکلتی ہے کہ کہیں غریب عوام اس دنیا میں موجود اور پیدا ہونے والی ہر چیز پر اپنا برابر کا حق اور حصہ لینے کی جدوجہد شروع نہ کر دیں۔اسی لیے وہ ٹی وی، اشتہارات اور اخبارات میں ہر اس مسئلے پر بات کرتے نظر آتے ہیں جس کا براہِ راست پاکستان کے 80 فیصد غریب لوگوں کی زندگیوں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔وہ لوگوں کی بھوک، علاج،تعلیم، بے روزگاری ،عزت اورعوام کی خوشحالی جیسے مسائل پر بات کرنے کے بجائے عدلیہ اور مقننہ کی آپس کی لڑائی ،جمہوریت، آمریت، صوبائیت، علاقائیت، تنگ نظر قومیت، صنفیت ،مذہبیت اورفوج اوردیگر اداروں کے مابین کشمکش کو ہوا دیتے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ غریب عوام حیرت سے ان کا منہ تکتے ہیں اوربجائے اس کے کہ وہ اصل مسائل سے آگہی حاصل کرکے اپنے مساوی حقوق کے لیے کھڑے ہوں ، اُلٹا سیاسی ٹاک شوز اور اخبارات میںان خود غرض، کم علم اور کم عقل لوگوں کے گمراہ کُن پراپیگنڈے کی وجہ سے اپنی زندگی میں روز بہ روز بڑھنے والی بے چینی، نا امیدی اور غربت کے بوجھ تلے دبتے چلے جاتے ہیں۔ ہم نے اپنے پچھلے کالم کے آخر میں یہ سوال اُٹھایا تھا کہ کیا انسانی مساوات اور برابری کو نہ ماننے والے یہ لوگ واقعی اس لائق ہیں کہ عوام ان کے ہاتھوں میں اپنی تقدیر تھما دیں؟ اس پر ہم، آپ سب کو سوچنا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان میں ایک ایسی نئی سیاسی جماعت اُبھرے جوانسانی مساوات اور برابری کے حوالے سے نظام بنانے اور چلانے کی بات کرے،جو طبقات پر مبنی اس استحصالی سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کے ساتھ ساتھ لوگوں کی ایک دوسرے پر فوقیت کو نہ صرف مادی بلکہ اخلاقی طور پر ختم کرے ،جس کے نتیجے میںایک ایسا نظام وجود میں آئے جہاں ہر کوئی ایک دوسرے کی بِلا کسی لالچ یا خوف کے عزت کر سکے ،جس میں تمام انسانی صلاحیتوں (Talents) کی اہمیت ہواور منڈی میں بکنے والی اور نہ بکنے والی صلاحیتوں میں تفریق نہ ہو۔ جہاں روزقلم، علم ،جذبات اور احساسات کی بولی نہ لگتی ہو،جہاں کوئی ایسا بازار نہ ہوجس میں انسان بکتے ہوں، ان کی صلاحیتیں اور ان کی محنت بکتی ہو،جہاں محبت بکتی ہو، خلوص بکتا ہو،جہاں ادب، فن اور حسِ لطیف بکتی ہو، جہاں ساحر لدھیانوی کو یہ نہ کہنا پڑے کہ؛ میں نے جو گیت تیرے پیار کی خاطر لکھے آج اُن گیتوں کو بازار میں لے آیا ہوں غرض مل کر ایک ایسی دنیا قائم کی جائے جہاں انسان برابر ہوںاوراونچ نیچ اور طبقات میں بٹے نہ ہوں:جہاں ہرانسان کو اس دنیا میں اُگنے والی اوربننے والی ہر چیز مساوی طور پر میسر ہو،جہاں انسان اپنے پیشوں ، سماجی رتبوںاور دولت سے نہیں بلکہ اپنے ذاتی خلوص، وفاداری اور پیار سے پہچانے جائیں، جہاں کوئی بھی اپنے سرمائے کو بڑھانے کے لیے کسی سے بیگارنہ لے سکے، جہاں حکومتیں عوام کی ہوں اور وہ جو بھی فیصلہ کریں تمام لوگوں کی برابری کی عزت، صحت، تعلیم ،روزگار اور دیگر انسانی ضروریات اور سہولیات کو سامنے رکھ کر کریں،جہاں پڑھائی کے دوران طالب علم کوہر وقت یہ ڈر نہ ہو کہ اسے نوکری ملے گی یا نہیں،جہاں تعلیم ملازمت، نوکری یا تنخواہ کے لیے نہ ہوبلکہ علم حاصل کرنے اور انسان کی تمام صلاحیتوں کی نشوونما کے لیے ہو، جہاں مزدور اور کسان اس خوف سے ہر وقت سہمے سہمے نہ ہوں کہ کل ان کے بچوں کو روٹی بھی ملے گی یا نہیں، جہاں پیسے نہ ہونے کی وجہ سے علاج کے بغیر غریب آدمی ایڑیاں رگڑ رگڑ کر نہ مر جائے۔ میرے دوستو! یہ دنیا اسی لیے نہیں بدلتی کیونکہ لوگ اپنے آپ کو دوسروں کے برابر نہیں سمجھتے۔جس دن یہ ہو گیا اس دن اس دنیا کو انسانی برابری اور مساوات پر قائم ہونے سے کوئی نہیں روک سکے گااور یہ کام ہم سب کو مل کر کرنا ہو گا۔ اب ہم پاکستان پیپلز پارٹی،مسلم لیگ (ن)، تحریکِ انصاف،متحدہ قومی موومنٹ،پاکستان مسلم لیگ)ق)،عوامی نیشنل پارٹی،جمعیت علماء اسلام (ف)،جماعتِ اسلامی اورآل پاکستان مسلم لیگ کے منشور، دستور اور اقدامات پر روشنی ڈالیں گے اور ان کا جائزہ لیں گے کہ کن بنیادوں پر یہ پارٹیاں تشکیل دی گئیں اور کس منشور پر انہوں نے عوام سے ووٹ مانگے اور حاصل کیے اور اس کے بعد ان کے منشوراور عملی اقدامات کا تجزیہ کرتے ہوئے ان میں موجود تضادات کو اجاگر کریں گے۔ہم پہلے ہی ایک بات واضح کر دیں کہ مذکورہ پارٹیوں کے منشور جن پر ہم بات چیت کر رہے ہیں، یہ ان کے اپنے لکھے ہوئے ہیں اور ہم نے ان میں کوئی تبدیلی یا اضافہ نہیں کیا۔ آئیے اب ہم ایک ایسی پارٹی کے منشور سے بات کو آگے بڑھاتے ہیں جس پارٹی کے قیام کا بنیادی مقصد ہی ایک غیر طبقاتی معاشرے کا قیام بتایا گیا تھا۔ 1۔پاکستان پیپلز پارٹی ( پاکستان پیپلز پارٹی کی 3 0نومبر 1967ء کو پیش کی جانے والی تاسیسی دستاویز میں سے چند اقتباسات کا جائزہ ؛ (دستاویز نمبر ۵ تاسیسی اجلاس) بنیادی اصول -1 مقاصد پارٹی کا مقصد پاکستان کو عوام کی خواہشات کے عین مطابق ایک سوشلسٹ معاشرے میں ڈھالنا ہے۔ -2 راہنما اصول پارٹی اپنی پالیسی اور سرگرمیوں کے لئے مندرجہ ذیل راہنما اصول اختیار کرتی ہے۔ -1مساواتی جمہوریت یعنی غیر طبقاتی معاشرہ قارئین ! کالم میں جگہ کی قلت کے باعث ہم یہیں سے اپنے اگلے کالم میں بات شروع کریں گے۔(جاری )

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں