آج کل میرے کچھ عزیز دوست مجھ سے یہ کہہ رہے ہیں کہ میںکالم کو کالم کی طرح کیوں نہیں لکھتا ، یعنی میرے کالم سے ایک سِکّہ بند کالم نگار کے قلم کی جھلک کیوں نہیں دکھائی دیتی۔ان کے خیال میں مجھے ایک ہی کالم میں بات مکمل کرنی چاہیے اور اس کا موضوع ایسا ہونا چاہیے کہ ایک نشست اس کو ختم کرنے کے علاوہ حالاتِ حاضرہ کے بارے میں بھی کچھ کہا گیا ہو۔میری ان سے گذارش ہے کہ میں نے ان کالموں کا سلسلہ ایک عزیز دوست کے مشورے پر اس لیے شروع کیا ہے تا کہ میں اپنے سیاسی نظریات اور معاشرتی احساسات لوگوں تک پہنچا سکوں۔میں جس سیاست پر یقین رکھتا ہوں اس کی بنیاد انسانی مساوات اور برابری پر ہے۔ مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان کی کوئی بھی سیاسی پارٹی ایسی نہیں جو انسانوں کو برابر سمجھتی ہو۔ جیسا کہ ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ یہ سب سٹیٹس کو کی پارٹیاں ہیں جو ہر حال میں انسانوں میں امیر اور غریب کی تفریق قائم رکھنا چاہتی ہیں۔ اصل میں وہ اس حقیقت کا فائدہ اٹھاتی ہیں کہ ملک کی زیادہ تر آبادی اس بات کا شعور ہی نہیں رکھتی کہ اس میں اور دوسرے انسانوں میں کوئی فرق نہیںہے اور یہ کہ اگر کوئی فرق نظر آتا ہے تو وہ صرف ان کے اپنے اپنے حالاتِ زندگی کا فرق ہے۔ وہ حالات جو ان کی قسمت کی نہیں بلکہ اس نظام کی پیداوار ہیں۔وہ یہ نہیں جان پاتے کہ اس فرق کو مٹانے کے لیے انہیں مل کرپاکستان کے تمام وسائل پر اپنے برابری کے حقوق اور حصے کے لیے جدوجہد کرنا ہوگی۔ میں صرف دل سے ہی نہیں بلکہ عقل اور شعور سے بھی یہ سمجھتا ہوں کہ دنیا میں پیدا ہونے والے تمام انسان برابر ہیں۔ان کے درمیان جو فرق ہمیں نظر آتے ہیں ان میںسے 99.99فیصد فرق صرف حالات اور کسی بھی انسان کے ایک مخصوص زمان و مکان ((Time & Space میں موجودہونے کی پیداوار ہوتے ہیںاورباقی 0.00----1 فیصدیعنی جوقابلِ نظر اندازفرق ہوتے ہیں صرف وہی قابلیت،صلاحیت اور اہلیت کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک خوشحال آبادی کے امیر گھر میں پیدا ہونے والا بچہ جوکسی مہنگے تعلیمی ادارے سے تعلیم حاصل کرے اورزندگی میں اپنے لیے اپنی مرضی اور پسند کا کوئی بھی کام ڈھونڈ سکے اور ایک ایسا بچہ جو مفلس آبادی کے غریب گھر میںپید ا ہو، پڑھ لکھ نہ سکے اوراپنی روزی روٹی کے لیے زندگی کا ہر دن ایک کڑی آزمائش کی طرح گذارتا ہو، کبھی برابر نہیں ہوسکتے۔ چاہے اس غریب بچے کے اندر اتنے ہی قابلیت کے جوہر چُھپے ہوں جتنے امیر بچے میں۔ لیکن حیرت اور دُکھ کی بات یہ ہے کہ پھر بھی انسانوں کی زندگی میںکامیابی کوان کے حالات کے بجائے ان کی محنت، صلاحیت ، قابلیت اور اہلیت کا ثمر قرار دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے کا میاب اور معززانسان پھولے نہیں سماتے،کبھی اور کہیں پر بھی اِترانے سے باز نہیں آتے، غریب لوگوں کو انسان نہیں سمجھتے اور اکثر آپے سے بھی باہر ہو جاتے ہیں۔ میں اپنے آپ کو ایک سیاسی انسان سمجھتا ہوں۔ میں یہاں اس نام نہاد پارلیمانی سیاست کی بات نہیں کر رہا جسے زیادہ تر لوگ روز بُرا بھلا کہتے ہیںبلکہ میں لوگوں کی زندگی کے اندر موجود روزمرہ کی سیاست کی بات کر رہا ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ شعور نہیں رکھتے ۔ وہ چاہیں یا نہ چاہیں‘ ان کی پوری زندگی سیاست کرنے میں ہی گذرتی ہے۔ ان کو معلوم نہیں کہ سیاست اصل میںزندگی کے مسائل کو حل کرنے کا نام ہے چاہے وہ ذاتی نوعیت کے ہوں یا اجتماعی نوعیت کے۔ بھوک کی سیاست ، تعلیم اور صحت کی سیاست ، روزی کی سیاست، چاہے وہ پارلیمان کا ممبر ہو یا نہ ہو ، زندگی کی ضروریات کا حصول اور ان کی فراہمی ہر انسان کو ایک مسلسل ذاتی سیاسی عمل میں مصروف رکھتی ہے۔ ہر زندہ رہنے والا ، کھانا کھانے والا، علاج کرانے والااور روزی کمانے والاانسان سیاست کر رہا ہوتا ہے۔ یہ سیاست اس کے سانس لینے سے ہی شروع ہو جاتی ہے کیونکہ سانس لینے کے لیے جسم میں جان ، جان کے لیے کھانا اور کھانے کے لیے پیسے درکار ہوتے ہیں ۔ یہ پیسے کسی روزگارکے ذریعے کمائے جاتے ہیںاور یہ روزی آپ کو کب،کیسے اور کہاں ملے گی اس کا تعلق براہِ راست ملکی معیشت اور سیاست سے ہوتا ہے۔اگر حکومت آپ کی روزی کی ضامن نہیں ہے تو پھر کوئی کارخانے دار ، کسی ادارے یا کسی جاگیر کا مالک وغیرہ یہ ذمہ داری سنبھالیں گے جن کو حکومت کی طرف سے کچھ مراعات یا سہولیات ملیں گی تو وہ اپنا کاروبار، آمدنی یا منافع اتنا بڑھا سکیں گے کہ آپ کو بھی تنخواہ دے سکیں۔یہ اور بات ہے کہ یہ تنخواہ سرمایہ دارانہ نظام کے اندر کام کی تقسیم کے مطابق اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے طبقات کے حوالے سے دی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک غیر تربیت یافتہ مزدور کو صرف اتنی ہی تنخواہ دی جاتی ہے جس سے وہ اور اُس کا خاندان زندہ رہ سکیں۔ اِسے کم از کم اُجرت (Minimum Wage) کہاجاتا ہے۔ اِس اُجرت کو پانے والے تمام عمر خطِ غربت سے نیچے زندگی گذارتے ہیں۔ویسے توحکومت کی متعین کردہ کم از کم اُجرت پر کام کرنے والے بھی خوش قسمت ہوتے ہیں کیونکہ پاکستان میں یہ اُجرت بھی اصل میں صرف کاغذوں تک ہی محدود رہتی ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر وقت بڑھتی ہوئی بے روزگاری کی وجہ سے ملک کی زیادہ تر آبادی حکومت کی متعین کردہ کم از کم اُجرت سے بھی کم اُجرت پر کام کرنے پر مجبور ہوتی ہے،لیکن یہ ایک اوروسیع موضوع ہے جس پر ہم پھر کبھی قلم اُٹھائیں گے۔ بہر حال جیسے جیسے تنخواہوںمیں فرق بڑھتا جاتا ہے،لوگوںکی زندگی کی ضروریات کے حصول، سہولیات اور خوشحالی میں بھی فرق اسی تناسب سے بڑھتا چلا جاتا ہے۔غرض تنخواہوں کے معیار پر ہی انسانوں کی زندگی کے معیار کا بھی تعین اور فیصلہ ہوتا ہے۔کیا اس سے بڑی زیادتی اور ظلم کوئی اور ہوسکتا ہے؟ آپ کو معلوم ہے کہ اس کا کیا مطلب ہے؟اس کا مطلب یہ ہے کہ غریب کے بچوں کو پوری زندگی ان تمام چیزوں سے محروم کر دیا جائے جو ان کو پسند ہوں یا بھلی لگتی ہوںاور امیرکے بچوں کو اپنی پسند اور مرضی کی تمام چیزیں میسر ہوں ۔ غریب کا بچہ ساری عمر ہر اس چیز کو ترسے جو امیر کے بچے کے لیے اضافی اور آسانی سے ضائع کر دینے والی چیز ہو۔ بازاروں اور دکانوں میں کھلونے، کپڑے، کھانے پینے کی چیزیںاور روزمرہ استعمال کی اشیاء اس کا منہ چڑا رہی ہوں اور اسے یہ کہہ کر بہلایا جائے کہ بیٹا یہ اچھی چیز نہیں ہے یا یہ کہہ کر اس کے دل کو دلاسا دیا جائے کہ بیٹا تم صبر کرو، یہی ہمارا مقدر ہے اور یہی خدا کی مرضی ہے کہ تم یہ نہ لے سکو۔یہ تمہاری آزمائش ہے اور تمہیں اس جہاں میں نہیں ، دوسرے جہان میں جا کر یہ سب کچھ ملے گا۔ حالانکہ سچ تو یہ ہے کہ: خدا کی ہے دولت، خدا کی زمیں ہے کچھ کو نہیں ، اُس نے سب کو یہ دی ہے بشر جو بھی دنیا میں پیدا ہوا ہے یہ اُس کی ہے دولت، یہ ُاس کی زمیں ہے غلط ہے ، یہ تقسیم خدا کی نہیں ہے یہ انساں کی اپنی بنائی ہوئی ہے سب کچھ جب اُس کا ہے، تو پھر یہ سب کا ہے کیوں کچھ نے اِس سب پر قبضہ کیا ہے یہ تیرا نہ میرا ہے سب کچھ خدا کا ہے پھر کیا لڑائی ہے ، پھر کیا تماشا ہے مجھے یاد ہے کہ تیرہ برس پہلے جب یہ اشعارمیں نے کہے تھے تو میری آنکھوں سے زارو قطار آنسو رواں تھے اور میرا بس نہیں چلتا تھا کہ میں کسی طرح اس ظلم اور نا انصافی کا گلا گھونٹ دوں مگر اس کے ساتھ ساتھ مجھے اس تاریخی حقیقت کا بھی ادراک تھا کہ یہ طبقاتی تفریق ختم کرنا فردِواحد نہیں بلکہ لوگوں کی اجتماعی جدوجہد سے ہی ممکن تھا۔ ان غریبوں، محکوموں،مظلوموں، محروموںاور مجبوروں کے شعور اور غیرت کو بیدار کرنااِس کا سب سے پہلا مرحلہ اور بنیادی شرط تھی۔ قارئین! میں انسانی مساوات اور برابری قائم کرنے والے انقلاب کا داعی ہوںاور میری موسیقی ، سماجی کام، کالم نویسی اور میری بقیہ زندگی اسی سلسلے کی ہی چند کڑیاں ہیں۔ پچھلے کالم میں ہم پاکستان پیپلز پارٹی کے منشور پر بات کر رہے تھے جو آئندہ کالم میں جاری رہے گی۔