آئیے اب ہم پاکستان پیپلز پارٹی کے تین مختلف ادوار کے منشوروں کا جائزہ لیتے ہیں اور ان کا آپس میں موازنہ کرتے ہیں۔ ہم ان تضادات کو بھی واضح کریں گے جو ان منشوروں اور ان کی بنیاد پر قائم ہونے والی حکومتوں کے عملی اقدامات کے درمیان بہت بڑے تضاد سے صاف ظاہر ہوتے ہیں۔1970ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی کوایک انقلابی پارٹی کے طور پر اُس وقت عوام میں پذیرائی ملی تھی جب پاکستان شدیدمعاشی اور سیاسی بحران کا شکار تھا۔ ایوب خان اور ان کے بعد یحییٰ خان کی ناقص حکومتی پالیسیوں کے خلاف عوام کاایک سیلاب اُمڈ آیا تھا۔ جگہ جگہ ریاستی مشینری کے خلاف لو گوںکی بھرپور مزاحمتی تحریک زور پکڑ رہی تھی۔ معلوم ہوتا تھا کہ اگر الیکشن نہ ہوئے تو عوام کا یہ انقلابی ریلا حکومت کو ہی نہیں بلکہ پورے ریاستی نظام کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے جائے گا۔ ایسے وقت میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ اقتدار سیاسی جماعتوں کے حوالے کر دے۔ یوں اس انقلاب کا گلا گھونٹا گیا جس کی خاطر کروڑوں مزدوروں، کسانوں اور سفید پوش ملازموں نے طویل عرصہ جدوجہد کی تھی۔اس عوامی انقلاب کے اثرات کو سیاسی عمل کے ذریعے زائل کرنے کا سہرا پیپلز پارٹی کے ماتھے پر سجا۔ بھٹو صاحب کو اقتدار تو مل گیا لیکن انہوں نے عوام سے جو وعدے اپنے منشور میں کیے تھے ، بہت سی حکومتی مصلحتوں کا شکار ہو کر انہیں پورا نہ کر سکے۔ ان کے منشور اور پارٹی پروگرام کے یہ چار بنیادی نعرے تھے: 1۔ اسلام ہمارا دین ہے۔2۔ جمہوریت ہماری سیاست ہے۔3۔ سوشلزم ہماری معیشت ہے۔4۔ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں۔ ان میں سے پہلا نعرہ تو ایک مسلمہ حقیقت تھا کیونکہ پاکستانی عوام کی 95فیصد اکثریت مسلمان تھی، لہٰذا اِس پر نہ تو اُس وقت کوئی بحث ہوئی اور نہ ہی آج۔ دوسرے نعرے ’’جمہوریت ہماری سیاست ہے‘‘ کے آگے ہمیں بہت سے سوالیہ نشان نظر آتے ہیں‘ لیکن پاکستان پیپلز پارٹی جس سرمایہ دارانہ جمہوریت کے تحت انتخاب لڑ رہی تھی،وہ اس کے کچھ تقاضے پورے کرنے میں کامیاب رہی۔ اس ضمن میںسب سے بڑا تنقیدی پہلو ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ باوجود واضح اکثریت کے شیخ مجیب الرحمٰن کو اقتدار منتقل نہ کیا گیا۔ اس ایک امر کے حق میں اور اس کے خلاف آج تک اتنی کتابیں لکھی جا چکی ہیں اور یہ پورا واقعہ تاریخی طور پر اتنا متنازع ہے کہ ہم یہاں اسے اپنا موضوع نہیں بنانا چاہتے اوراس کا فیصلہ قارئین پر چھوڑتے ہیں۔ تیسرا نعرہ ’’سوشلزم ہماری معیشت ہے ‘‘وہ اصل نعرہ ہے جو پاکستان پیپلز پارٹی کو دوسری پارٹیوں سے یکسر علیحدہ کر گیا تھا۔ کیا پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنے اس نعرے کے ساتھ انصاف کیا؟ اس کا جواب نفی میں ہے۔ سوشلزم کا فلسفہ یہ کہتا ہے کہ ذرائع پیداوار کسی ایک انسان یاچند انسانوں کے گروہ یعنی جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور اداروں کی ملکیت نہیں ہوسکتے بلکہ خود عوام اس کے مالک ہوتے ہیں ۔ سوشلزم میں سرمائے کا ارتکاز تھوڑے سے لوگوں کے ہاتھوں میں ہونا ممکن نہیں ہوتا بلکہ ملک میں پیدا ہونے والی ہر قسم کی قدرِ زائدسماج کی اجتماعی ملکیت ہوتی ہے۔ سوشلزم میں افسر شاہی اور نوکر شاہی کا کردار نہایت ثانوی ہوتا ہے‘ طاقتور اور بااثر عہدوں پر تعیناتی گردش میں رہتی ہے اور مسلسل تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ اس کے نتیجے میں ریاست کا کردارصرف انتظامی رہ جاتا ہے۔اس سب کے نتیجے میں آخر کار ایک ایسا غیر طبقاتی معاشرہ تشکیل پاتا ہے جہاں تمام انسانوں کو بلا تفریق رنگ، نسل، مذہب، صنف، قومیت، علاقائیت اور زبان کے برابر سمجھا جاتا ہے۔ ان تمام انسانوں کو ملک میں پیدا ہونے والے، ملنے والے اور اُگنے والے تمام وسائل پر نہ صرف رسائی بلکہ برابر کی دسترس حاصل ہوتی ہے۔تمام بڑی صنعتیں اور جاگیریں عوام کی اجتماعی ملکیت ہوتی ہیں اور کوئی بھی فرد یا ادارہ اپنے سرمائے کی بڑھوتی کے لیے کسی مزدور، کسان یا ملازم سے بیگار نہیں لے سکتا۔ غرض انسان کے ہاتھوں انسان کا استحصال ہوناصرف مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہو جاتا ہے۔ یہ سب کرنے کے لیے ضروری تھا کہ بھٹو صاحب کی پیپلز پارٹی سب سے پہلے تمام بیرونی قرضوں کی ادائیگی سے انکار کر دیتی جن کا سود پہلے ہی ان عالمی سرمایہ دار طاقتوں سے لیے گئے اصل قرض سے بھی کہیں زیادہ ادا کیا جا چکا تھا۔یہ نہ کیا گیا اور اس طرح ابتدا سے ہی سوشلزم کے عوامی نعرے اور وعدے سے انحراف کیا گیا۔ سوشلزم قائم کرنے کے لیے دوسری اہم بات یہ تھی کہ پاکستان میں قائم بین الاقوامی اور ملکی صنعتوں کو قومی اور عوامی تحویل میں لیا جاتا،مگر بھٹو صاحب کی پاکستان پیپلز پارٹی نے عالمی اجارہ دار کمپنیوں کے سرمائے اوربینکوںکو قومیانے کی بجائے صرف ملکی صنعتوں کو قومی تحویل میں لیا۔ تیسری اہم بات انگریزوں کے دور سے قائم جاگیر دارانہ نظام کا خاتمہ تھا جو پاکستان پیپلز پارٹی کے منشور کا ایک بنیادی حصہ تھا۔ اس سے بھی انحراف کیا گیا۔ بے شک زرعی اصلاحات شروع توکی گئیں لیکن انہیں پایہ تکمیل تک پہنچانے کے بجائے درمیان میں ہی چھوڑ دیا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج تک پاکستانی سماج نہ صرف یہ کہ جاگیرداری نظام کے معاشی تسلط سے باہر نہیں نکل سکا بلکہ اس نظام کے بدصورت، بے ہودہ اورــ غیر اخلاقی اثرات عوام کے ذہنوں میں سرا یت کر چکے ہیں۔ ’’جس کی لاٹھی اُس کی بھینس‘‘، ’’کمزور پر ظلم‘ طاقتور کو سلام‘‘، ’’لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتیـ‘‘ وغیرہ جیسے جملے پاکستانی سماج پر غالب اور طاقت پر قائم اسی جاگیر دارانہ نظام کی عکاسی کرتے ہیں۔ قارئین! مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں آپ خود دیکھ سکتے ہیں کہ ’’سوشلزم ہماری معیشت ہے‘‘ کا نعرہ یکسر بودا ثابت ہو ا اور بھٹو صاحب کی پاکستان پیپلز پارٹی اپنے اس نعرے کے مطابق ایک سوشلسٹ معیشت کو قائم کرنے کے بنیادی تقاضوں میں سے ایک کو بھی پورا نہ کر سکی۔ہر چند کہ بھٹو صاحب ایک بہادر اور درد مند انسان تھے اور غریب عوام کے ساتھ بے پناہ محبت رکھتے تھے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اُن کی طرف سے کیے گئے وعدے پورے نہ ہونے کی وجہ سے آخر کار عوام ان کا ساتھ چھوڑ گئے اور ایک مصالحتی طرزِ سیاست اور مصلحت اور سمجھوتے پر مبنی ان کی حکومت کی ناکامی کی پاداش میں بالآخر تختہ دار ان کا مقدر بنا۔ غرض 1789ء میں رونما ہونے والے فرانسیسی انقلاب کے ایک لیڈر لوئی ڈی سینٹ جسٹ کا یہ مقولہ تاریخ میں ایک بار پھر سچ ثابت ہوا: ’’وہ جو انقلاب کو نامکمل اورادھورا چھوڑتے ہیں وہ اپنی قبر خود ہی کھودتے ہیں‘‘ اب ہم ایک نہایت حیرت انگیز حقیقت عوام کے سامنے لانا چاہیں گے کہ اس ایک ہی پاکستان پیپلز پارٹی کے منشور ذوالفقار علی بھٹو صاحب 1970ء ، بے نظیر بھٹو صاحبہ 1988ء اور آصف علی زرداری صاحب 2013ء کے زمانوں میں ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہیں اور بتدریج عوام اور محنت کشوں سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں۔ بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ان تین منشوروں میں زمین آسمان کا فرق ہے جسے ہم اپنے اگلے کالم میں واضح کریں گے۔بھٹو صاحب کی قائم کی گئی پاکستان پیپلز پارٹی ایک انقلابی پارٹی کے طور پر عوام کے سامنے آئی تھی جبکہ بے نظیر بھٹوصاحبہ سیاسی مفاہمت کی پالیسی پر گامزن تھیں جو آج تک اس پارٹی کا ایک بے معنی نعرہ بنا ہوا ہے۔ بھٹو صاحب کی پارٹی غریب لوگوں سے ایک غیر طبقاتی معاشرے اور برابری کے نظام کی بات کر رہی تھی جبکہ بے نظیر بھٹو صاحبہ اور زرداری صاحب کی پیپلز پارٹی کا انقلاب تو کیا غریب عوام سے بھی دُور دُور کا کوئی تعلق واسطہ نہیں ہے۔یہ لوگ غریب اور غربت کوایک ایسی نا گزیر حقیقت سمجھتے ہیں جو ہمیشہ قائم رہے گی اور جس کی وجہ سے غریبوں کی تھوڑی بہت مدد کرنا ہی کافی ہوتا ہے۔ وہ دھوکہ دہی سے اس حقیقت کو عوام سے چھپاتے ہیں کہ غریب اور ان کے حالات اسی معاشرے کے اُس بوسیدہ سرمایہ دارانہ نظام کی پیداوار ہیں جِس کو ختم کیے بغیر غربت ختم نہیں ہو سکتی، اور یہ کہ اِن کی بد حالی اور محرومی کی ذمہ داری اصل میںحکمران طبقات اور طبقاتی نظام پرہی عائد ہوتی ہے۔