دہشت گردی کی جنگ اور چند سوال

عدمِ برداشت، دہشت گردی، ڈرون حملے، معاشی اور سماجی انحطاط جیسے گمبھیر مسائل نے وطن عزیز کو ایسے گھیر رکھا ہے کہ کوئی راستہ سجھائی نہیں دیتا۔ طالبان کے خلاف جانے والی ہر حقیقت کو بیان کرنے سے گریز کرنا اور ان کی معصومیت ثابت کرنے کیلئے کمزور سے کمزور دلیل کو بھی زور وشور سے بیان کرنے کی یہی تضاد بیانی ہماری الجھنوں اور کم عملی کی ایک بڑی وجہ ہے۔
بچپن سے رٹا لگانے کی عادت نے ہمیں کچھ عقائد بھی رٹا دئیے ہیں۔ ہمارے لئے حقیقت بے معنی اور خود ساختہ عقائد بہت اہم ہیں۔ حیف صد حیف کہ ہمارے ملک میں آج بھی ایک بڑی تعداد اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ ملالہ کو لگنے والی گولی محض ایک ڈرامہ ہے۔ جب اس واقعہ کو جھٹلانا ناممکن ہو گیا تو کہا گیا کہ ملالہ کو گولی تو لگی ہے لیکن یہ گولی طالبان نے نہیں امریکہ نے چلائی ہے۔ جب ہم نے یہ کہا کہ طالبان کے ترجمان نے اس واقعہ کی ذمہ داری قبول کی ہے تو جواب ملا کہ یہ طالبان اور ان کا ترجمان بھی امریکہ اور میڈیا کی ہی ایک ایجاد ہے۔ مضحکہ خیز بات یہ ہوئی کہ جب انہی ترجمان صاحب نے ریاست سے مذاکرات کا عندیہ دیا تو ''اہلِ علم‘‘ نے خوشی کے شادیانے بجانا شروع کر دئیے کہ ہم نہ کہتے تھے طالبان صلح کیلئے تیار ہیں۔ 
ہماری تضاد بیانی اور ذہنی الجھن اس بات سے بھی واضح ہوتی ہے کہ جب طالبان پشاور چرچ حملے سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہیں (ساتھ ہی وہ اس حملے کو شریعت کے مطابق قرار دیتے ہیں) تو ہم اس بیان کو ان کی معصومیت کی سند مان لیتے ہیںلیکن جب وہ دیدہ دلیری سے کسی بم دھماکے کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں تو ہم دعویٰ کرتے ہیں کہ طالبان کا ترجمان اور اس کا بیان میڈیا کی اختراع ہے کیونکہ ایک مسلمان اور پاکستانی کسی بھی طرح قتل و غارت میں ملوث نہیں ہو سکتا۔
ایک طرف تو ہم امریکہ کو دہشت گردی کا واحد ذمہ دار سمجھتے ہیں اور دوسری طرف طالبان سے مذاکرات پر زور دیتے ہیں۔ اگر طالبان دہشت گردی کے ذمہ دار نہیں تو دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ان سے مذاکرات کا کیا مطلب۔ اگر امریکہ، اسرائیل اور انڈیا ہی ہمارے ملک میں ہونے والی دہشت گردی کے ذمہ دار ہیں تو دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مذاکرات بھی ان سے ہونے چاہئیں۔آل پارٹیز کانفرنس کے بعد پے درپے دہشت گردی کے واقعات میں بے گناہوں کا خون بہا تو ایک ہی آواز آئی مذاکرات اور جلد از جلد مذاکرات؛بلکہ دہشت گردی کے ان واقعات کی ذمہ داری حکومت پر ڈال دی گئی کہ وہ طالبان سے مذاکرات میں تاخیر کر رہی ہے۔ اب ڈرون حملے نے سب دلائل کا رُخ موڑ دیا ہے۔ 
ہماری اس روش اور وتیرے نے نہ صرف ہماری فوج کو اپنے ہی ملک میں ایک نہ ختم ہونے والی جنگ میں پھنسا دیا ہے بلکہ ہمارے ملک کی گلیاں اور محلے بھی فرقہ واریت کی آگ میں جھلس رہے ہیں بجا ارشاد کہ حکومت اور اس کے ادارے عاشورہ کے روز اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے میں ناکام ہوئے لیکن کیا حکومتی نااہلی ہی اس المناک واقعے کی واحد وجہ ہے؟ اشتعال انگیز بیانات روکنے والے، زندگیوں اور املاک کی حفاظت کرنے والے اور آگ بجھانے والے ناکام ہو گئے لیکن اشتعال انگیز تقریریں کرنے والوں ، قاتلوں اور آگ لگانے والوں کو اپنی صفوں سے نکالنے کا اعلان کون کرے گا۔ اپنے فقہ سے تعلق رکھنے والے ساتھیوں کی شہادت پر غم اور الم بجا لیکن دوسرے فقہ سے تعلق رکھنے والوں کے قتل پر خاموشی کیا انصاف ہے؟ حکومتی اداروں اور دوسرے فقہ سے تعلق رکھنے والوں پر لعن طعن کرنے سے امن کی بجائے مزید تباہی ہو گی۔ امن کی طرف پہلا قدم تب اُٹھے گا جب ہم مسلک کی تفریق سے بالاتر ہو کر قاتل کے خلاف صف آراء ہوں گے اور کسی بھی فرقہ سے تعلق رکھنے والے مظلوم کی حمایت کریں گے۔ امن تب نصیب ہو گا جب سنی علماء ہزارہ برادری کے قتل کے خلاف سڑکوں پر دھرنا دیں گے اور شیعہ علماء لیاقت باغ میں شہداء کی نمازِ جنازہ ادا کریں گے۔ مگر ع
میری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
یہ بات شاید پھر بھی سمجھ آ جائے کہ ہماری زبان اپنے فقہ سے تعلق رکھنے والے قاتل کو قاتل کہنے سے لڑکھڑاتی ہے لیکن یہ انوکھی منطق ہے کہ ہزاروں پاکستانیوں کے قاتل حکیم اللہ محسود کو شہید قرار دینے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ جب شور ہوتا ہے تو سوال پوچھنے والے پراعتراض کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ بحث وقت کا ضیاع ہے اور شہادت کا فیصلہ روزِ قیامت ہی ہو گا لیکن کیا قاتل کے مقدر کا فیصلہ دنیا میں نہیں کیا جا سکتا۔ مانتا ہوں کہ آپ اس سوال کا جواب نہیں دینا چاہتے کہ حکیم اللہ محسود شہید ہے کہ نہیں لیکن کیا آپ اس سوال کا جواب دے سکتے ہیں کہ وہ بے گناہوں کا قاتل ہے یا نہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو، اکبر بگٹی اور بے نظیر بھٹو کو بہت لوگوں نے شہید سمجھا، کہا اور لکھا؛ جب کہ حکیم اللہ محسود کو شہید کہنے کا مطلب اس کے ملکِ عزیز میں اپنی مرضی کی شریعت نافذ کرنے کے پُرتشدد طریقے کی حمایت ہے۔ علماء کرام کی طرف سے آنے والی ایسی حمایت بہت سے نوجوانوں کوحکیم اللہ محسود کے راستے پر چلنے پر آمادہ کر سکتی ہے۔ شہادت کے بارے میں اُٹھایا گیا یہ سوال نہ تو بے معنی ہے اور نہ ہی اس پر ہونے والی بحث وقت کا ضیاع ہے اصل میں اسی سوال کے جواب میں اس جنگ کا مستقبل پوشیدہ ہے۔
یہ ایک نہایت المناک حقیقت ہے کہ ہم حمید گل اور ہمنواؤں کی 1980کی دہائی میں امریکہ کی حمایت سے افغانستان میں کی جانے والی لڑائی کو تو اپنی جنگ اور جہادِ اکبر گردانتے ہیں لیکن وہ جنگ جس کے شعلے ہمارے جسم و جاں کو جلا رہے ہیں اُسے لڑنے سے ہم اس لئے انکاری ہیں کہ یہ ہمارے خیال میں کسی اور کی جنگ ہے اگر یہ کسی اور کی جنگ بھی ہے تو اس کا آغاز 9/11کے واقعے کے بعد نہیں ہوا بلکہ 80کی دہائی میں افغانستان میں کی جانے والی جنگ سے ہوا۔ 
کیا ہمارے سیاسی اور مذہبی رہنما وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ امریکہ کے افغانستان سے چلے جانے کے بعد سب طالبان ہتھیار پھینک دیں گے اور ہمارے ملک میں امن ہو جائے گا؟ کیا ہم نہیں جانتے کہ طالبان کا ایجنڈا صرف امریکہ کو اس خطے سے نکالنے تک محدود نہیں بلکہ اُن کی مرضی کی شریعت کا نفاذ ہے؟ کیا طالبان کا دشمن صرف امریکہ ہے یا طالبان کی سرگرمیوں کا شکار چین جیسا دوست ملک بھی ہے؟ کیا ہم پوری دنیا سے کٹ کر زندہ رہ سکتے ہیں؟ صحیح معنوں میں ہماری رہنمائی کریں اور نہ صرف خود حقیقت کا سامنا کریں بلکہ پوری قوم کو اعتماد میں لیں اور اسے بتائیں کہ ہمارا دشمن کون ہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں