ہمارے ملک میں خواندگی کی شرح بلا شبہ بہت کم ہے، لیکن ایک شعبے میں ہم خود کفیل ہیں اور وہ ہے ہرطرح کا نظامِ تعلیم۔ ہمارے ہاں ایک طرف مدارسِ ِنظامی ہیں جن میں دینی تعلیم دی جاتی ہے، اس کے ساتھ ساتھ سرکاری اور نجی شعبے کے سکول ہیں جن کے نصاب، کتابوں،اساتذہ اورطالب علموں کو دیکھ کر بعض اوقات احتمال ہوتا ہے کہ ان کا پاکستان سے کوئی تعلق نہیں۔ ا س رنگا رنگی میں یکساں نظامِ تعلیم کا نعرہ محض ایک دلفریب خواب ہے۔اس پہلو سے جو ایک علیحدہ بحث کا متقاضی ہے، صرفِ نظر کرتے ہوئے زیر نظر کالم میں ہمارے ہاں روز بروز مقبول ہوتے ہوئے اولیول اور اے لیول کا جائزہ لینے کی کوشش کی جائے گی۔
چند برس پہلے تک یہ سمجھا جاتا تھا کہ صرف امیر گھرانوں کے بچے جو اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرونِ ملک جانا چاہتے ہیں اولیول اور اے لیول کے امتحان دیتے ہیں،مگر آج درمیانی آمدنی والے والدین بھی اپنے بچوں کو او اور اے لیول کی تعلیم دلوا رہے ہیں۔پہلے یہ تعلیم کراچی، لاہور اور اسلام آباد کے مخصوص سکولوں میں دستیاب تھی، اب اس کا دائرہ چھوٹے شہروں تک پھیل چکا ہے۔ اس طریقہ تعلیم کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے اسباب جاننے سے پہلے ہم اس نظام کی تاریخ کا ایک جائزہ لیتے ہیں۔
یہ نظام پہلی بار 1951ء میں متعارف کرایا گیا۔ اس سے قبل او لیول کی جگہ سینئر کیمبرج (میٹرک کے برابر) اور اے لیول کی جگہ ہائر سینئر کیمبرج(ایف ایس سی یا ایف اے کے برابر)رائج تھا۔ 1980ء کی دہائی کے آخر میں انگلینڈ میں او لیول کی جگہ جنرل سرٹیفکیٹ آف سیکنڈری ایجوکیشن( جی سی ایس ای) اور دوسرے ممالک میں انٹرنیشنل جنرل سرٹیفکیٹ آف سیکنڈری ایجوکیشن(آئی جی سی ایس ای) متعارف کرایا گیا۔ اب پاکستان کے کچھ سکولوں میں اور باقی ممالک خصوصاً خلیجی ریاستوں کے اکثر سکولوں میں او لیول کے بجائے آئی جی سی ایس ای ہی پڑھایا جارہا ہے؛ تاہم اکثر پاکستانی سکولوں میں او لیول کروایا جا رہا ہے۔ انگلینڈ میں تقریباً تمام سکول اب جی سی ایس ای ہی پڑھا رہے ہیں۔او لیول میں طالب علموں کی کارکردگی کا مکمل جائزہ خارجی طور پر یعنی ایک ایکسٹرنل ایگزامینر لیتا ہے جبکہ آئی جی سی ایس ای میں کل نمبروں کا ایک حصہ کورس ورک اور سکول میں دورانِ تعلیم ادا کی جانے والی کارکردگی کے لیے مختص کیا جاتا ہے۔ او لیول کے برعکس آئی جی سی ایس ای کے امتحانات اکٹھا لینے کے بجائے مختلف حصوں میں تقسیم کرکے لیے جا سکتے ہیں۔ موڈولر ایگزیمز (Modular Exams) کی یہ سہولت کمزور طلباء کو اپنا گریڈ بہتر کرنے میں مدد گار ہوتی ہے۔ دنیا کی بیشتر یونیورسٹیاں او لیول اور آئی جی سی ایس ای کو برابر سمجھتی ہیں لیکن آئی جی سی ایس ای کے انگلش کے امتحان میں سی گریڈ یا اس سے بہتر گریڈ لینے والے کو IELTS سے جو انگلش زبان کی صلاحیت کا ایک امتحان ہے اور انگلینڈ میں کسی بھی یونیورسٹی میں داخلے کی شرط ہے، مستثنیٰ قرار دیا جاتا ہے جبکہ او لیول کے انگلش کے مضمون میں کامیاب ہونے والوں کو یہ سہولت میسر نہیں ہے۔ انگلینڈ کی تقریباً تمام بڑی یونیورسٹیاں بشمول کیمبرج ، لندن اور آکسفورڈ اپنے اپنے تعلیمی بورڈز کے تحت او اور اے لیول کے امتحان منعقد کرتے تھے، لیکن اب ان تعلیمی بورڈز کا نمبر کم ہو کر صرف پانچ رہ گیا ہے۔ کیمبرج انٹرنیشنل ایگزامینیشنز (سی ای آئی) بین الاقوامی سطح پر او اور اے لیول کے امتحان منعقد کرنے والا سب سے بڑا برطانوی ادارہ ہے۔ پاکستان کے سکولوں کی واضح اکثریت اسی بورڈ سے وابستہ ہے۔
ہمارے میٹرک ، ایف اے اور ایف ایس سی کے برعکس جس میں طلباء کو ان کی کارکردگی کی بنیاد پر نمبر دیے جاتے ہیں، او لیول اور اے لیول کے طلباء کی کارکردگی کا پیمانہ Eگریڈ سے لے کر+ A تک کے گریڈ ہیں۔ ناکام ہونے والے طلباء کو کوئی گریڈ نہیں دیا جاتااور ان کے ابتدائی سرٹیفکیٹ پر یو گریڈ(اَن گریڈڈ) لکھا آتا ہے، جبکہ فائنل سر ٹیفکیٹ پر فیل ہونے والے مضمون کا کوئی ذکر نہیں ہوتا۔ چونکہ او اور اے لیول کے طلبا پاکستانی کالجز میں داخلے کے لیے میٹرک اور ایف ایس سی کے بچوں سے مقابلہ کرتے ہیں‘ اس لیے انٹربورڈ کمیٹی آف چیئر مین (IBCC) ان کے حاصل کردہ گریڈز کو ایک فارمولے کے تحت میٹرک اور ایف ایس سی کے نمبروں میں تبدیل کرتے ہیں (اس فارمولے کے بارے میں ایک علیحدہ مضمون لکھا جائے گا۔)اس فارمولے کی وجہ سے پاکستانی طلباء کو او لیول میں آٹھ اور اے لیول میں تین مضمون پڑھنا ہوتے ہیں؛ تاہم کئی طلباء زیادہ مضامین پڑھنے کا انتخاب بھی کرتے ہیں۔ اے لیول امتحانات کو اکثر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے کہ طالب علم صرف تین مضامین کو پڑھنے کی وجہ سے محدود ذہنی استعداد کے حامل ہوتے ہیں۔ یہ تنقید مزید اہم ہو جاتی ہے جب یہ دیکھا جاتا ہے کہ طالب علم اکثر یہ تین مضامین بھی ایک دوسرے سے ملتے جلتے منتخب کرتے ہیں جیسے فزکس ، کیمسٹری اور بیالوجی یا اکنامکس، اکاؤنٹنگ اور بزنس سٹڈیز۔ اس بڑھتی ہوئی تنقید کے پیش نظر برطانیہ میں ماہرین تعلیم او اور اے لیول کے نظام میں ضروری تبدیلیاں کر رہے ہیں۔
جدید تقاضوں سے ہم آہنگ او اور اے لیول کا نصاب، بااعتماد امتحانی نظام، پوری دنیا میں قابل قبول اسناد اور اس کے ساتھ ساتھ مقامی نظامِ تعلیم کی خامیاں او اور اے لیول کی بڑھتی مقبولیت کی بنیادی وجوہ ہیں۔ یہ مقبولیت اس لحاظ سے بھی حیران کن ہے کہ ان امتحانات کے لیے تیاری کروانے والے سکول اور اساتذہ (خصوصاً چھوٹے شہروں میں) یا تو آسانی سے دستیاب نہیں ہیں یا بہت مہنگے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ سائنسز پڑھنے والے لائق بچوں کی اکثریت بوجوہ اے لیول کے مقابلے میں ایف ایس سی کو ترجیح دیتی ہے۔ ہمارے ملک میں او اور اے لیول کی مقبولیت اپنی جگہ مگر یہاں تعلیمی انقلاب اور تعلیمی خوشحالی تب آئے گی جب معیاری تعلیم ملک عزیز میں رہنے والوں کی اکثریت کی پہنچ میں ہو۔ سستی اور معیاری تعلیم کی فراہمی میں ریاست کا کردار بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ بد قسمتی سے تعلیم کی فراہمی ہماری حکومتوں کی ترجیح میں کبھی جائز مقام حاصل نہ کرسکی۔ ویسے بھی معاشی ترقی کا کوئی بھی خواب تعلیمی ترقی کے بغیر شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔