میڈیکل ایجوکیشن اور او‘اے لیول کے طلبا کے مسائل

آئے روز ینگ ڈاکٹرز ''دکھی انسانیت کی خدمت‘‘ چھوڑ کر سڑکوں اور چوراہوں پر اپنی کم تنخواہوں اور دوسرے مسائل کے حل کیلئے احتجاج کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ سب دیکھتے ہوئے بھی والدین کی اکثریت اپنے بچوں کو ڈاکٹر ہی بنانا چاہتی ہے۔ ڈاکٹری کے پیشے سے وابستہ تقدس و احترام نے اسے سب سے پسندیدہ ذریعہ روزگار بنا دیا۔ اس لئے بجاطور پر میڈیکل کالجز کے داخلوں کیلئے ہونے والے امتحانات میں شرکت کرنے والے ہزاروں طلباء و طالبات کے والدین سخت گرمی کے موسم میں امتحانی مراکز کے باہر تسبیح پڑھتے اور اپنے بچوں کی کامیابی کیلئے دعائیں مانگتے نظر آتے ہیں۔ لیکن میڈیکل کالجز میں داخلے کیلئے سخت مقابلے کی وجہ سے کچھ خوش نصیبوں کو ہی ڈاکٹر بننے کا موقع ملتا ہے۔
وطن عزیز میں نجی اداروں نے بہتر معیار کی دستیابی کے ذریعے تقریباً ہر شعبے میں سرکاری اداروں کو مات دے دی ہے لیکن میڈیکل کی تعلیم کو اس امر سے اس طرح استثنیٰ ہے کہ سرکاری میڈیکل کالجز میں تعلیم حاصل کرنے کا موقعہ ملنا نہ صرف طلباء کیلئے زیادہ قابلِ فخر ہے بلکہ ان کے بہتر مستقبل کا بھی ضامن ہے۔ اکا دُکا پرائیویٹ میڈیکل یونیورسٹیز کے علاوہ پرائیویٹ کالجز میں داخلہ بااَمرِ مجبوری ہی لیا جاتا ہے۔
او، اے لیول کی بڑھتی ہوئی مقبولیت نے ان طلباء کی تعداد میں بہت اضافہ کر دیا ہے جو اے لیول کے بعد میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے کے خواہش مند ہیں۔ چونکہ ایسے طلباء ایف ایس سی کرنے والے طلباء کا میڈیکل کالجز میں دستیاب محدود نشستوں کیلئے مقابلہ کرتے ہیں اس لئے ان کے حاصل کردہ گریڈز کو ایک خاص فارمولہ کے ذریعے نمبروں میں تبدیل کیا جاتا ہے۔یہ فارمولہ انٹربورڈ کمیٹی آف چیئرمین (IBCC) کا بنایا ہوا ہے اور زیرِ نظر مضمون میں اس فارمولہ کا جائزہ لینے کی کوشش کی جائے گی۔
IBCCکا یہ فارمولہ ہر اس طالب علم کیلئے اہم ہے جو اے لیول کے بعد پاکستان میں اپنی تعلیم میڈیکل سمیت کسی بھی شعبے میں جاری رکھنا چاہتا ہے۔ اس فارمولہ کے مطابق ہر طالب علم کو او لیول میں آٹھ اور اے لیول میں تین مضامین میں کامیابی درکار ہوتی ہے۔ سب سے بہتر گریڈ جو کہ اے سٹار ہے کو 90نمبر دئیے جاتے ہیں‘ اے گریڈ کو پچاسی جبکہ بی، سی، ڈی اور ای گریڈز کو بالترتیب پچھتر، پینسٹھ، پچپن اور پینتالیس نمبر دیئے جاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ او اور اے لیول کا طالب علم کسی بھی صورت میں کل دستیاب گیارہ سو میں سے نو سو نوے نمبروں سے زیادہ حاصل نہیں کر سکتا اور ایسا بھی تب ہی ممکن ہے جب کہ وہ طالب علم نہایت غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تمام گیارہ مضامین میں اے سٹار گریڈ حاصل کرے۔ اس وجہ سے اے لیول کے طلباء کیلئے ایف ایس سی کے طلباء سے مقابلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ ان کے زیادہ سے زیادہ 990نمبروں کے مقابلے میں ایف ایس سی کے طلباء کیلئے 1000سے بھی زیادہ نمبر لینا ممکن ہے۔یہ ایسے دو گھوڑوں کی ریس ہے جن میں سے ایک کی ٹانگ کو ریس شروع ہونے سے پہلے ہی باندھ دیا گیا ہے۔
اس فارمولہ کی ستم ظریفی یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ او لیول کے نسبتاً آسان مضامین کو بہت زیادہ اہمیت دے کر اور اے لیول کے بہت مشکل مضامین کو نہ ہونے کے برابر وزن دینے کی وجہ سے اس فارمولہ سے طلباء کی کارکردگی کا صحیح اندازہ نہیں ہوتا۔
میڈیکل کالجز میں داخلے کے خواہش مند طلباء کو ایک انٹری ٹیسٹ(MCAT) دینا ہوتا ہے۔ 100نمبروں میں سے پچاس نمبر اس ٹیسٹ کیلئے مختص ہیں جبکہ بقایا پچاس نمبروں میں سے چالیس ایف ایس سی کیلئے اور دس نمبر میٹرک میں حاصل کردہ نمبروں کیلئے ہیں۔ او لیول جو کہ عموماً میٹرک کے مترادف سمجھا جاتا ہے‘ کے حاصل کردہ گریڈز کو اوپر بیان کردہ فارمولہ کے مطابق 
میٹرک کے نمبروں میں تبدیل کیا جاتا ہے۔ چنانچہ میٹرک کے نمبروں کیلئے مختص دس نمبر او لیول کے گریڈز کو دئیے جاتے ہیں۔تاہم ایف ایس سی کے نمبر شمار کرتے ہوئے صرف اے لیول کے گریڈز مدِ نظر رکھنے کی بجائے اولیول اور اے لیول کے تمام گیارہ مضامین کے حاصل کردہ گریڈز کو بنیاد بنایا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے ایف ایس سی کے 40نمبروں میں سے تقریباً انتیس نمبر او لیول کے گریڈز کیلئے اور صرف گیارہ نمبر اے لیول کے گریڈز کیلئے دستیاب ہوتے ہیں۔ اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو او لیول کے گریڈز کو دس (میٹرک کیلئے مختص کردہ تمام نمبر) اور انتیس (ایف ایس سی کیلئے مختص نمبروں میں سے او لیول کیلئے دستیاب نمبر) یعنی کل انتالیس نمبر دیئے جاتے ہیں جبکہ کہیں زیادہ مشکل اور اہم اے لیول کے امتحان کیلئے صرف گیارہ نمبر رکھے گئے ہیں۔ IBCCکے اکابرین کا شاید یہ موقف ہے کہ چونکہ اے لیول میں طلباء اسلامیات اور مطالعہ پاکستان جیسے لازمی مضامین نہیں پڑھتے اس لئے او لیول کے گریڈز کو بھی ایف ایس سی کے نمبر شمار کرتے ہوئے مدِ نظر رکھا جاتا ہے۔ یہ مؤقف اس لیے درست نہیں کہ او لیول میں اِن مضامین کے گریڈزکو میٹرک کے نمبرشمار کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے اور انہی گریڈز کودوبارہ ایف ایس سی کیلئے استعمال کرنا درست اس لئے نہیں ہے کہ ایف ایس سی(جسے چالیس نمبر دئیے جاتے ہیں) کے برابر اہم ترین اے لیول کے امتحانات کیلئے صرف گیارہ نمبر باقی رہ جاتے ہیں۔
ہونا یہ چاہیے کہ ہمارے اکابرین ‘او اے لیول کے طلباء کو اپنے ہی ملک کے برابر کے شہری گردانتے ہوئے میڈیکل کالجز میں داخلے کی پالیسی کی اس طرح تشکیل نو کریں کہ تمام طلباء کو میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے کے برابر موا قع میسر ہوں۔چونکہ ایک جیسا گریڈ لینے والے تمام طلباء کے نمبرایک جیسے ہونا ضروری نہیں اس لئے گریڈز کے ساتھ ساتھ نمبروں کا اندراج طلباء کی کارکردگی کا زیادہ صحیح پیمانہ ہو گا۔ کچھ عرصہ پہلے تک کیمبرج یونیورسٹی او، اے لیول کی اسناد پر گریڈز کے ساتھ ساتھ پرسنٹیج یونیفارم مارکس(Percentage Uniform Marks) ظاہر کرتی تھی۔ یہ نمبر بہت حد تک طلباء کے اصل حاصل کردہ نمبروں کے عکاس تھے اور ایک ہی گریڈ لینے والے طلباء میں سے بہتر اور کم بہتر کے چناؤ میں بہت مدد گار تھے۔ کیمبرج یونیورسٹی سے گزارش کی جائے کہ وہ ان نمبروں کا طلباء کی اسناد پر دوبارہ سے اندراج کرے اور یہی نمبر IBCC‘میٹرک اور ایف ایس سی کے نمبروں کے شمار کے لیے استعمال کرے۔ اسی طرح میٹرک کے نمبروں کیلئے او لیول کے گریڈز اور ایف ایس سی کیلئے صرف اے لیول کے گریڈز مدِ نظر رکھے جائیں۔ علاوہ ازیں میڈیکل کالجز میں داخلے کا امتحان (MCAT)اس طرح مرتب کیا جائے کہ تمام طلباء کیلئے اس کے سوالات حل کرنا ایک جیسا آسان ہو۔ کیونکہ موجودہ ٹیسٹ کے بیشتر سوالات ایف ایس سی کے طلباء کی ضروریات،تیاری اور نصاب کے مطابق ہیں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں