ملکی برآمدات اور معاشیاتی ناخواندگی

گزشتہ دنوں انہی صفحات پر ایک معروف کالم نگارنے لکھا ''جب پیپلز پارٹی سے نواز شریف نے اقتدار لیا تھا تو اس وقت ہماری ایکسپورٹ چوبیس ارب ڈالر سالانہ تھی ، تین برس بعد بیس ارب ڈالر سالانہ رہ گئی ہے‘‘
قومی اسمبلی میں راقم الحروف نے جو جواب دیا تھا کالم نگار نے اس کا اہم حصہ اپنے قارئین تک پہنچانے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ موجودہ حکومت کے پہلے سال میںپاکستان نے اپنی تاریخ کی سب سے زیادہ برآمدات کیں اور پہلی بار 25ارب ڈالرز سالانہ کا سنگ میل عبور کیا ۔ ملکی برآمدات کو پچھلے تین نہیں بلکہ دو سال سے چیلنجز کا سامناہے اور ملک کی موجودہ برآمدات 21ارب ڈالرز کے قریب ہیں ،20ارب ڈالرز نہیں۔ٹی وی پر فتوے دیتے ہوئے ایک ارب ڈالرآسانی سے اوپر نیچے کئے جا سکتے ہیں۔ کالم نگار نے وزیر اعظم نواز شریف کی کالا شاہ کاکو میں تقریر کا بھی غلط حوالہ دیا،وزیر اعظم نے راقم الحروف کا نام کالا شاہ کاکو میں نہیں لیا تھا۔ 
کالم نگار نے قومی اسمبلی میں دیئے گئے جواب کو بنیاد بنا کر کہا کہ'' دنیا کے چوراسی ممالک پاکستان کے ساتھ کاروبار کر کے فائدے میں جبکہ ہم مسلسل گھاٹے میں جا رہے ہیں‘‘ اور چونکہ اس معاملے میں بھی کالم نگارنے تحقیق کی زحمت گوارا نہیںکی لہٰذا وہ اپنے قارئین کو نہ بتا سکے کہ دنیا کے 139ممالک ایسے ہیں جن کے ساتھ پاکستان کا تجارتی بیلنس مثبت ہے ان میں سرفہرست یورپی یونین اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ ہے۔یہ رائے سراسر معاشیاتی ناخواندگی کی مظہر ہے کہ تجارتی بیلنس فائدہ اور گھاٹا ہے اہم بات یہ ہے کہ ہم کس ملک سے کیا درآمد کرتے ہیں اگر تو درآمد خام مال ہے تو یہ کوئی خسارہ نہیں۔
کالم نگار لکھتے ہیں کہ '' ہمیں بتایا گیا تھا کہ جی ایس پی پلس سٹیٹس ملنے کے بعد دنیا ہمارا مال خریدنے کے لئے پاگل ہوجائے گی ،ہم یورپی مارکیٹوں پر چھا جائیں گے اور پاکستان ڈالروں سے بھر جائے گا کچھ عرصہ پہلے قومی اسمبلی کو بتایا گیا کہ پاکستانی تاجر جی ایس پی پلس سٹیٹس سے فائد ہ اٹھانے میں ناکام رہے ‘‘ ۔ جبکہ حکومت نے کبھی ایسا نہیں کہا،وزارت تجارت کے تخمینے کے مطابق جی ایس پی پلس سے ایک ارب ڈالر سے زیادہ کی برآمدات کا اضافہ متوقع تھا اور یہ اضافہ توقعات سے بڑھ کررہا،اس ایک ارب ڈالر اضافے کو کالم نگارنے ''صرف‘‘ لکھا ہے حالانکہ ایک ارب ڈالر ایک سو پانچ ارب روپے بنتے ہیں، جی ایس پی پلس سٹیٹس ملنے سے پہلے 2013ء میں پاکستان کی یورپی یونین کو برآمدات 4.45ارب یورو تھیںجو دسمبر2015ء تک 6.07ارب یورو تک بڑھ گئیں،یہ 2013 ء کے مقابلے میں33.72فیصد اضافہ ہے ۔
کالم نگار کا یہ لکھنا درست نہیںکہ ''پیپلز پارٹی کی حکومت جاتے وقت کہہ گئی تھی کہ جی ایس پی پلس کی تیس کے قریب شرائط ہم نے پوری کی تھیںنواز شریف کو بنا بنایا حلوہ ملا تھا ،اسی ضمن میں پھانسی کی سزا معطل کی گئی تھی جو یورپ کی سب سے بڑی شرط تھی ‘‘
حقائق یہ ہیں کہ جی ایس پی پلس سٹیٹس کے لئے پھانسی کی سزا کی معطلی کی کوئی شرط تھی نہ پاکستان پر کوئی ایسی ذمہ داری عائد ہوتی ہے ،جی ایس پی پلس سٹیٹس کی یورپی کمیشن ،یورپی کونسل ،اور یورپی پارلیمنٹ سے منظوری نواز شریف حکومت کی مستقل مزاج اور کامیاب سفارتکاری کی مظہر ہے ۔
صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ چین ،جنوبی کوریا ، ہندوستان ، ترکی ،تھائی لینڈ سمیت بے شمار ممالک برآمدات میں کمی کا سامنا کر رہے ہیں جس کی وجہ بین الاقوامی کساد بازاری اور اجناس کی بین الاقوامی قیمتوں میں کمی ہے ،پاکستانی برآمدات پر اثر چین کی معاشی نمو میںکمی اور عالمی منڈی میں کپاس کی قیمت میں صرف ایک سال میں دس فی صد کمی ہے ،مزید وضاحت کے لئے صرف ایک مثال کافی ہے کہ 2015-16ئمیں پاکستان نے 119769 ہزار درجن نٹ ویئر برآمد کیں جو کہ 2014-15ء کے 10385 ہزار درجن کے مقابلے میں 15.33فی صد زیادہ ہیں لیکن یہی مقدار ڈالرز میں 1.54فی صد کمی ظاہر کرتی ہے۔اسی طرح پچھلے سال پاکستان میں تولیئے کی برآمد کی مقدار میں3.36فی صد اضافہ ہوا لیکن ڈالرز میں 0.14فی صدکمی ہوئی ۔
ایک سال پہلے راقم الحروف کی سفارش پر وزیر اعظم محمد نواز شریف نے پاکستان کی 36ایکسپورٹ ایسوسی ایشنزسے( جن میں چاروں صوبوں کی نمائندگی موجود تھی) اپنی کابینہ کی معاشی ٹیم کے ہمراہ مسلسل پانچ گھنٹے گفتگو کی اور ایک لائحہ ء عمل ترتیب دیا جس پر اللہ کے فضل سے تقریباً عملدرآمد بھی ہو چکا ہے ۔
یکم جولائی سے2016ء سے ایکسپورٹ کے پانچ سیکٹرز پر سیلز ٹیکس کی زیرو ریٹنگ کر کے ایکسپورٹرز کے سب سے بڑے مطالبے پر عمل درآمد کر دیا گیا ہے،اکتوبر 2015ء سے پاکستان میں انڈسٹریل فیڈرز پر چلنے والی صنعتوں کو 24گھنٹے بجلی میسر ہے اور مارچ2016ء سے ملک بھر کی صنعت کو بلاتعطل گیس کی فراہمی بھی جاری ہے ،پچھلے ایک سال کے دوران پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کافائدہ ماہانہ بنیادوں پر صنعتوں کومنتقل کیا گیا ہے ، ایکپسورٹرز کو اس وقت پاکستان کی تاریخ کی کم ترین سطح پر ایکسپورٹ ری فنانس حاصل ہے ۔ 2015ء میں ایکسپورٹرز اور صنعتوں کے تجارتی تحفظ کے لئے نیشنل ٹیرف کمیشن اور تین متعلقہ قوانین کو از سر نو ترتیب دے کر پارلیمان سے منظور کرایا گیااور بجٹ 2016-17ء کے وقت کئے گئے وعدے کے مطابق0 3 اگست سے پہلے ایکسپورٹرز کو ان کے ری فنڈز جاری کر دیئے گئے ہیں ۔
یکم جو لائی2016ء سے ہی سٹریٹجک ٹریڈ پالیسی فریم ورک پر عملدرآمد کا آغاز کر دیا گیاتھاجس میں ملک کے تمام ایکسپورٹ سیکٹرز کو ویلیو ایڈیشن کے لئے مراعات دینے پر پوری توجہ مرکوز کی گئی ہے ۔اس کے لئے پارلیمان سے منظوری کے بعد6ارب روپے سٹیٹ بنک کو جاری کر دیئے گئے ہیں ۔ٹیکسٹائل پالیسی کی مد میں 6ارب رو پے علیحدٰہ بھی مختص کئے گئے ہیں ،رواں سال پشاور ایکسپو سنٹر کی بنیاد رکھی جائے گی جبکہ لاہور ایکسپو سنٹر کی گنجائش دگنی کر دی گئی ہے ،رواں سال ہی طورخم ،چمن اور واہگہ پر 21ویں صدی کے تقاضوں سے ہم آہنگ لینڈ پورٹس کی تعمیر کا بھی آغاز کر دیا جائے گا۔
پچھلے ماہ فیڈرل ٹیکسٹائل بورڈ کو بتایا گیا ہے کہ گذشتہ سال کپاس کی فصل میں کمی کے بعد اس سیزن میں ان شا اللہ کپاس کی فصل بہتر ہو گی ،حالیہ ہفتوں میں کپاس کی بہتر قیمت دیکھنے میں آ رہی ہے ، ساتھ ہی اس سال چاول کی قیمتوں میں بھی ایک خوش آئند اضافہ دیکھا گیا ہے ،جس کا براہ راست فائدہ بھی کاشتکاروں کو ملے گا، وفاقی کابینہ نے ایران کے ساتھ بینکنگ کا تعلق استوار کرنے کی منظوری دے دی ہے جس سے عنقریب دونوں ممالک کے درمیان باقاعدہ تجارت کا آغاز ہو جائے گا۔
اس کے باوجود سب اچھا نہیں، اس وقت پاکستانی برآمدات کو جو حقیقی چیلنج درپیش ہے وہ حالیہ مہینوں کی عارضی کمی نہیں بلکہ پورے ایکسپورٹ سیکٹر کو ویلیو ایڈیشن کی سمت لے کر جانا ہے ۔ اس کے علاوہ بھی بے شمار چیلنجز درپیش ہیں جن میں ویلیو ایڈیشن کے علاوہ بجلی و گیس کی قیمتوں میں کمی،خطے کی دیگر کرنسیوں کے مقابلے میں روپے کی قدر میں ایڈجسٹمنٹ اور ٹیکس وصولی کے نظام کی پیچیدگیاں بھی شامل ہیں ،ہم ان چیلنجز کو ہولناک نہیں سمجھتے بلکہ یہ چیلنجزہمیں مزید محنت کا ولولہ فراہم کرتے ہیں ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں