’’برادر ِعزیز! السلامُ علیکم ورحمۃاﷲ امید ہے آپ بخیریت ہوں گے اور رمضان ا لمبارک کی برکتوں سے حسب ِتوفیق استفادہ کر رہے ہوں گے۔عرض مدعا سے پہلے ایک وضاحت ۔ میں نے آپ کو برادرِ عزیز لکھا ہے تو یہ گمان کرتے ہوئے کہ آپ میرے مسلمان بھائی اور عمر میں مجھ سے چھوٹے ہیں۔چوری چکاری جیسے پُرخطر کام بالعموم جواں سال لوگوں ہی کو زیبا ہیں۔تاہم نیکی اور بدی کے لیے چونکہ عمر کی کوئی قید نہیںاس لیے آپ مجھ سے بڑے بھی ہو سکتے ہیں۔اگر ایسا ہے تو ازراہ کرم ’’برادرِ عزیز‘‘ کو ’’برادرِ محترم‘‘ پڑھیے۔ میں ہر گز آپ کو زحمت نہ دیتا اگر پولیس میری معاونت کرتی۔میری گاڑی اکتوبر 2012ء میں راولپنڈی کے با رونق اور آباد علاقے سیٹلائٹ ٹاؤن سے چوری ہوئی۔یہ بات آپ کے لیے تحصیلِ حاصل ہے۔آپ سے بہتر کون جانتا ہے کہ گاڑی کب اور کہاں سے چوری ہوئی۔میں یہ بات احتیاطاً لکھ رہا ہوں۔ اخباری اطلاعات کے مطابق شہر سے ہر روز لاتعداد گاڑیاں چوری ہوتی ہیں۔اس سے آپ کی مصروفیت کا اندازہ ہوتا ہے ۔اس عالم میں یہ مشکل ہو تا ہے کہ ہر واردات وقت اور تاریخ کے تعین کے ساتھ یاد رکھی جائے۔پھر آپ کو اس زحمت میں پڑنے کی ضرورت بھی کیا ہے؟ ایک قانون پسند شہری ہوتے ہوئے، میں نے متعلقہ تھانے میں رپورٹ درج کرا دی اور ایس ایچ او صاحب کو فون بھی کیا۔ انہوں نے کمال محبت سے اور اپنے ادارے کی صلاحیت پربھروسہ کرتے ہوئے پہلے مجھے یہ مشورہ دیا کہ میں ایک دن انتظار کر لوں، کیا خبر گاڑی مل جائے اور مجھے مقدمہ درج کرانے کی ضرورت ہی نہ رہے۔ان کے اس مشورے سے میرے اندر امید کا چراغ جل اٹھا۔میں نے سوچاہماری پولیس کو اپنی صلاحیت پر اگر اتنا اعتماد ہے تو کس چور کی مجال کہ وہ چھپتا پھرے۔آپ کو میری سادگی پر ہنسی آرہی ہو گی لیکن آپ اسے میری خوش گمانی سمجھیے۔تاہم یہ چراغ جلد ہی بجھ گیا۔کئی دن گزر گئے اور کوئی خبر نہ ملی۔ایک سیانے نے مجھے مشورہ دیا تو میں ایس پی سٹی کے پاس پہنچ گیا۔بہت نیک آدمی تھے ۔بہت احترام سے پیش آئے ۔چائے بھی پلائی۔متعلقہ تھانے دار کو فون کیا اور اسے جلد رپورٹ کرنے کو کہا۔اس میزبانی کے تاثرمیں کئی دن گزر گئے لیکن گاڑی نہ ملی۔پھر ایک اور سیانے نے کہا کہ میں اپنے حلقے کے رکن قومی اسمبلی سے بات کروں۔میں نے فون کیا تو انہوں نے بھی بہت محبت کا اظہار کیا۔مجھ سے کہا کہ گاڑی اور ایف آئی آر وغیرہ کی تفصیلات انہیں ایس ایم ایس کر دوں۔میں نے ایساہی کیا۔پھر اس کے بعد انہوں نے ایس ایم ایس کا جواب دیا نہ میرا فون سنا۔لوگ کہتے ہیں کہ وہ اکثر لوگوں کے ساتھ یہی کیا کرتے تھے۔اس لیے لوگوں نے انتخابات میں بدلہ لے لیا۔خیر یہ وہ جانیں اور لوگ، میری سوئی تو اپنی گاڑی پہ اٹکی ہوئی ہے جو چوری ہو گئی۔ دن رات اس طرح گزرتے رہے،حکومت ختم ہو گئی۔انتخا بات کے بعد پنجاب میں پُرانی پارٹی کی حکومت پھر قائم ہو گئی۔ اس کو بھی دو ماہ ہونے کو ہیں۔حالات میں رتی برابر فرق نہیں آیا۔گاڑیاں اسی طرح چوری ہو رہی ہیں اور شہر پہلے کی طرح بے اماں ہے۔آپ اگراخبارپڑھتے ہیں تو آپ کو معلوم ہو گیا ہوگا کہ کس طرح ملتان،لاہور اور راولپنڈی جیسے شہروں میں طالبان کی طرف سے بھتے کی پر چیاں تقسیم ہو رہی ہیں اورعوام پوری طرح ان کے رحم و کرم پر ہیں۔میں نے یہ بات اس لیے لکھ دی ہے کہ تخصص (specialization) کے اس دور میں ممکن ہے آپ صرف اپنے شعبے کا علم رکھتے اور جرائم کے دوسرے شعبوں سے بے خبر ہوں۔ میں نے جب اپنی یہ کہانی ایک دوست کو سنائی تو اُس نے بھی میری سادگی پر کئی حرف بھیجے اور پھر نکتے کی ایک بات بتائی۔اس کا کہنا تھا کہ اس ملک اور صوبے میں اصل حکومت چوروں کی ہے جو سدا بہار ہے۔تم براہ راست اُن سے معاملہ کیوں نہیں کرتے۔ پولیس اور حکومت بے بس ہیں یا پھرمجرموں کے ساتھی۔ مجھے اپنے دوست کی بات میں وزن محسوس ہوا۔ میں اس سے پہلے کئی واقعات سن چکا تھا کہ کسی کی گاڑی چوری ہو ئی اور چوروں نے اس سے رابطہ کیا۔اگر پانچ چھ لاکھ کی گاڑی تھی تو ڈیڑھ دو لاکھ میں معاملہ ہو گیا۔یوں دونوں فریق خوش ہو گئے۔اسی وجہ سے اب میں بھی آپ کو براہ راست مخاطب کر رہا ہوں اور پر امید ہوںکہ آپ میری دست گیری فرمائیں گے ۔اس زحمت پہ معذرت خواہ ہوں لیکن جیسا کہ میں نے عرض کیا، یہ سب پولیس کے باعث ہوا۔ اگر وہ میری گاڑی برآمد کرا دیتے تومیں آپ کو یہ تکلیف نہ دیتا۔ یہ میری غلطی ہے کہ گاڑی میں،میرا رابطہ نمبر یا گاڑی کے کاغذات موجود نہیں تھے۔ورنہ ممکن تھا کہ آپ مجھ سے رابطہ کر لیتے۔اب میں اس مکتوب کے ذریعے اس غلطی کی تلافی کرنا چاہتا ہوں۔اگر میری گاڑی ابھی تک سلامت ہے اور اس کے حصے بخرے سلطان کے کھوہ (چاہ سلطان) کی مارکیٹ میں بک نہیں چکے تو آپ ازراہ کرم میری گاڑی واپس کر دیجیے۔اس گاڑی کی مارکٹ ویلیو آپ سے بہتر کون جانتا ہے۔مجھے آپ کی دیانت پر پورا بھروسہ ہے۔ آپ لوگوں سے اکثرمعاملہ کرتے رہتے ہیں۔ میرے ساتھ بھی کر لیجیے۔مجھے یہ گاڑی مل جائے اور آپ کو آپ کی محنت کا صلہ۔ خط کی طوالت کے لیے معذرت خواہ ہوں۔ میں جانتا ہوں‘ رمضان میں آپ کی مصروفیت بڑھ جاتی ہے۔بھوک پیاس اور پھر نماز تراویح کی مشقت اس پر مستزاد ہے جو آپ چوری کے لیے اٹھاتے ہیں۔میں آپ کو کبھی زحمت نہ دیتا لیکن میری مجبوری ہے۔میرے جیسے لوگ ایک آدھ گاڑی ہی رکھ سکتے ہیں۔ اگر میرے پاس زیادہ گاڑیاں ہوتیں تو میں آپ کو پریشان نہ کرتا۔میں نے ایسے تیسے ایک اور گاڑی خریدی ہے لیکن اگر پرانی گاڑی مجھے مل جائے تو میں اسے بیچ کے اپنی معیشت کو کچھ سہارا دے سکوں گا۔میں آپ کی صحت اور درازی عمر کے لیے دعا گو ہوں۔والسلام آپ مجھ سے روزنامہ ’’دنیا‘‘ راولپنڈی کے ذریعے رابطہ کر سکتے ہیں۔ (پسِ نوشت: مجھے آپ کے علم و فضل پر بھروسہ ہے لیکن اگر خط میں کوئی لفظ مشکل لگے تو مجھے معاف کیجیے گا۔اسے میری عادت کی مجبوری سمجھیے۔میں برسوں سے کالم لکھ رہا ہوں۔ میرے الفاظ حکومت اور مذہبی وسیاسی رہنماؤں کی سمجھ میں بھی کم ہی آتے ہیں۔یہاںآپ کے اور ان کے علم کا موازنہ مقصود نہیں، صرف اپنی مجبوری بیان کر رہا ہوں)