بلاشبہ ریاستی انتخابات میں کانگریس مخالف مُوڈ کی عکاسی ہوئی۔ چار ریاستوں...مدھیہ پردیش، راجستھان ، چھتیس گڑھ اور دہلی کے ووٹروں نے حکمران پارٹی کے لیے ناپسندیدگی ظاہر کردی ہے۔ چھتیس گڑھ میں کانگریس کی عزت کسی حد تک محفوظ رہی جہاں اس کے کامیاب امیدواروں کی تعداد دوسرے نمبر پر ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں مائو نواز جنگجوئوں کے مقابلے میں اس نے اپنے بتیس کارکنوں کی قربانی دی تھی۔
کانگریس کو مار پڑنے کی وجہ مرکز میں اس کی بری کارکردگی ہے جو کرپشن،مہنگائی اور عدم تحفظ کے احساس سے ظاہر ہوئی۔ کانگریس کی صدر سونیا گاندھی اور نائب صدر راہول گاندھی پارٹی کو نقصان سے نہ بچاسکے‘ اس لیے کہ سونیا لوگوں سے دور رہتی ہیں اور راہول ان کے دلوں میں گھر نہیں کرپائے۔ اچھا ہوا کہ اب پارٹی کو اپنے اندر جھانکنا پڑے گا۔ سب سے پہلے اسے اقتدار کے نشے سے باہر نکلنا ہوگا۔ میرا ذاتی احساس یہ ہے کہ خاندانی نام اور وجاہت زیادہ دیر کام نہیں آئے گی۔ راہول کی شخصیت میں جاذبیت نہیں جس کا مشاہدہ مختلف ریاستوں میں ان کی انتخابی مہم کے دوران ہوا۔ ان کی بہن پریانکا شاید ان سے بہتر کارکردگی دکھا سکتی ہیں۔سونیا گاندھی نے کہا ہے کہ پارٹی بہت جلد وزارت عظمیٰ کے لیے امیدوار نامزد کردے گی کیونکہ بھارتی جنتا پارٹی (بی جے پی) کی طرف سے اس منصب کے لیے نامزد ہونے والے امیدوار گجرات کے وزیراعلیٰ نریندر مودی توجہ کا مرکز بن گئے ہیں۔ سونیا کو مناسب امیدوار کے چنائو میں مشکل پیش آئے گی کیونکہ انہوں نے پرناب مکھرجی کو صدر بنوا دیا ہے۔چدم برم ایک ممتاز امیدوار ہیں لیکن وہ وزیراعظم من موہن سنگھ کی طرح اطاعت گزار ثابت نہیں ہوں گے۔
ان انتخابات میں بہترین کام '' عام آدمی پارٹی ‘‘ کے ابھر کر سامنے آنے کا ہوا‘ جس سے یک گونہ مثالیت (آئیڈیالزم) کا احساس بیدار ہوا اور اس نظریے کو تقویت ملی کہ مذہب، ذات پات یا زبان ایک عام آدمی کو متاثر نہیں کرتی۔ میری خواہش ہے کہ عام آدمی پارٹی اسی آئیڈیالوجی پر کاربند رہے۔ ملک کا مستقبل صرف کرپشن کے خاتمے سے ہی نہیں بلکہ اشیا کی خریداری کے جنون (Consumerism) کی حوصلہ شکنی سے بھی وابستہ ہے جو قوم کو اپنا اسیر بناتی چلی جارہی ہے۔ ہمیں جدوجہدِ آزادی کے وقت کا جذبہ ازسرنو بیدار کرنے کی ضرورت ہے جو جمہوریت، کثرالمدنیت (Pluralism) اور مساوات سے عبارت ہے۔
سب سے پہلے انتخابی اصلاحات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ پیسے کا کردار اہم ہوگیا ہے‘ اس کی اہمیت ہمیشہ رہی لیکن اس بار پچھلے تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے ہیں۔ پانچ ریاستوں میں کل 6454امیدوار تھے۔ مدھیہ پردیش میں ان کی تعداد سب سے زیادہ تھی ...321 نشستوں کے لیے 2586امیدوار۔ اس کے بعد راجستھان میں 200نشستوں کے لیے 2087امیدوار تھے۔ چھتیس گڑھ اور میزورام میں امیدواروں کی تعداد خاصی کم تھی جو بالترتیب 91نشستوں کے لیے 843اور40نشستوں کے لیے 142تھی،البتہ دہلی کی 70نشستوں کے لیے 796امیدوار مدمقابل تھے۔ امیدواروں کے انتخابی اخراجات کا تخمینہ ہزاروں کروڑ لگایاگیا ہے۔
مختلف سروے ظاہر کرتے ہیں کہ لوک سبھا کی ایک نشست کے انتخابی اخراجات تقریباً دس کروڑ روپے ہیں۔ لوک سبھا کی نشست سات سے آٹھ ریاستی اسمبلیوں پر مشتمل ہوتی ہے اور ہر نشست پر سوا کروڑ خرچ ہوتا ہے، لیکن کہا جاتا ہے کہ یہ اخراجات کم از کم دو کروڑ روپے ہوتے ہیں۔اس حساب سے مذکورہ انتخابات میں امیدواروں نے مجموعی طور پر 13908کروڑ روپے خرچ کیے۔ چیف الیکٹرورل آفیسر (سی ای او) کا کہنا ہے کہ '' ہم تمام وسائل اسی کام میں جھونکنا نہیں چاہتے‘‘۔
وزارت عظمیٰ کے لیے بی جے پی کے امیدوار نریندر مودی کی انتخابی مہم کے لیے کارپوریٹ سیکٹر سرمایہ فراہم کررہا ہے اور پارٹی عہدیدار اس پر خوش ہیں۔گزشتہ برس احمد آباد میں بڑے صنعتکاروں کے اجلاس نے وزارت عظمیٰ کے لیے مودی کے امیدوار ہونے کی حمایت کی تھی کیونکہ وہ (مودی) اپنی تقریروں میں کہہ چکے تھے کہ اقتدار میں آنے کی صورت میں وہ صنعتکاروں کو '' فری ہینڈ‘‘ دیں گے۔ صنعت کاروں کو اپنے اس فیصلے پر نظرثانی کرنی چاہیے تھی خصوصاً 2004ء میں ان کے ایک لڑکی میں دلچسپی لینے اور اس کی سکیورٹی فورسز سے نگرانی کرانے کے واقعے کے بعد۔ انہوں نے یہ کارروائی اس لڑکی کی حفاظت کے لیے نہیں بلکہ اس کی نقل و حرکت اور ملاقاتوں پر نظر رکھنے کی خاطر کی تھی۔ اس سلسلے میں قائم کی گئی انکوائری کمیٹی ایک ڈھونگ ہے۔ اس واقعے کی جوڈیشل انکوائری ہونی چاہیے۔ قرائن بتاتے ہیں کہ نگرانی کا تعلق مودی یا غالباً گجرات میں انتخابات سے تھا۔ شاید اس سے مجموعی صورت حال پر کوئی خاطر خواہ اثر نہیں پڑے گا‘ لیکن اس سے آزادانہ اور شفاف انتخابات کو یقینی بنانے کے لیے انتخابی اصلاحات کی ضرورت واضح ہوتی ہے۔
ان انتخابات کے نتیجے میں دو رجحانات ابھر کر سامنے آئے ہیں...ایک مثبت ، دوسرا منفی۔ مثبت پہلو یہ ہے کہ ووٹرز نے پہلے سے زیادہ پولنگ بوتھ کا رخ کیا، تقریباً 75فیصد نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بیلٹ باکس پر لوگوں کا اعتماد بڑھ رہا ہے جو جمہوری حکومت کا ایک لازمی جزو ہے۔ منفی پہلو مخالفین پر کیچڑ اچھالنا ہے۔ میں نے آزادی کے بعد تمام انتخابات کا مشاہدہ کیا ہے‘ کئی انتخابی معرکے بہت سخت تھے خصوصاً ساٹھ کی دہائی کے اواخر میں ، لیکن ان میں کسی پارٹی یا امیدوار نے اپنے حریف پر غیر اخلاقی الزامات نہیں لگائے۔
ایک سوشلسٹ لیڈر ڈاکٹررام منوہر لوہیا نے اپنی انتخابی حریف مسز اندرا گاندھی پر '' گونگی گڑیا‘‘ کی پھبتی کسی۔ اس سے کوئی تلخی نہیں ہوئی لیکن ان کی ذات کے بارے میں ان لفظوں کے استعمال کو اخلاقی نہیں کہا جا سکتا۔ تب سے اخلاقی اور غیر اخلاقی کے مابین نازک فرق ختم ہوکر رہ گیا ہے اور سب اسی ڈگر پر چل پڑے ہیں۔
حالیہ ریاستی انتخابات کو سیمی فائنل مقابلے قرار دیا جارہا ہے۔ میں تصور نہیں کرسکتا کہ مئی 2014ء میں لوک سبھا کے فائنل انتخابات کی سطح کتنی پست ہوگی۔ سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ ایک ضابطہ اخلاق طے کریں تاکہ یہ انتخابات غل غپاڑا اور امیدوار ایک دوسرے کے لیے خارپُشت (کانٹوں والا جانور) نہ بن جائیں۔
میرا خیال ہے کہ الیکشن کمیشن نے تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کیا ہے۔ میں نے ایسی رپورٹیں دیکھی ہیں جن میں نامناسب رویہ اختیار کرنے والے امیدواروں سے جواب طلبی کی گئی ہے لیکن ابھی تک ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ میرا احساس یہ ہے کہ طرفین نے آزادانہ انتخابات کی ضد پر باہمی سمجھوتہ کر لیا ہے۔ مجھے انتخابات کی صداقت پر کوئی شک نہیں لیکن ان کے لیے اختیار کیے گئے ذرائع ان کے نتائج سے کم اہم نہیں ہوتے۔
مجھے زیادہ تشویش معاشرے میں انتہا پسندانہ رجحان پیدا کرنے کی کوششوں پر ہے۔ ہو سکتا ہے کہ نریندر مودی نے ہندو کارڈ براہِ راست استعمال نہ کیا ہو لیکن ان کی تمام تقاریر کے بین السطور ہندو نیشنلزم کا تصور واضح طور پر نظر آتا ہے جو ہمارے ملک کے بنیادی نظریے یعنی کثیر نوعی معاشرے کی ضد ہے۔
راشٹریا سوایم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی طرف سے اعتدال پسند بھارتیہ جنتا پارٹی پر مُودی کو بطور امیدوار مسلط کرنا قابلِ فہم ہے‘ لیکن لوگ سشما سوراج اور ارون جیٹلی کو کیونکر پسند کر رہے ہیں جنہیں بی جے پی کی آئیڈیالوجی کے اعتبار سے بائیں بازو کے نظریات کا حامل تصور کیا جاتا ہے‘ لیکن وہ مودی کے ساتھ ایک ہی سٹیج سے اجتماعات سے تقاریر کر رہے ہیں۔ ایل کے ایڈوانی جو برس ہا برس سے دھیما لہجہ اختیار کیے ہوئے تھے‘ اپنے رویے سے واضح کردیا ہے کہ وہ مُودی اور ہندوتا پر مبنی سیاست سے کوئی تعلق نہیں رکھتے۔
(ترجمہ: ملک فیض بخش)