چین کرکٹ ٹیم بنا کے نہیں دے سکتا!

ڈھاکہ میں ایشیا کپ کے دوران پاک بھارت میچ میں شاہد آفریدی کے چھکے نے پاکستان کو ایک یادگار فتح دلا دی تو جشن مناتی پاکستانی قوم اس بات کو بھول گئی کہ اس موقع پر ٹیم کو تین رنز تین ہی گیندوں پر چاہیے تھے اور صرف ایک وکٹ باقی تھی۔ اگر آفریدی کا وہ چھکا کیچ میں تبدیل ہو جاتا تو اس بات پر بہت شور مچنا تھا کہ جب تین گیندوں پر تین ہی رنز چاہیے تھے تو اتنا غیر ذمہ دارانہ شاٹ لگانے کی کیا ضرورت تھی اور ہیرو آفریدی نے زیرو بن جانا تھا لیکن وہ آفریدی ہی کیا جو بال کو بائونڈری کے باہر پھینکنے کے لئے بلا نہ گھمائے ۔ بس وہ بلا گھوما اور ویرات کوہلی کی کپتانی میں انڈیا یہ ون ڈے میچ کیا ہارا کہ سب کو پھر سے دھونی کی یاد نے ستایا۔ کہتے ہیں کہ کامیابی کے بہت سے سرپرست ہوتے ہیں جبکہ ناکامی ایک یتیم کی طر ح ہوتی ہے جس کے سر پر ہاتھ رکھنے والا کوئی نہیں ملتا۔ شاید اس تلخ یاد کا ہی اثر تھا کہ ورلڈ کپ کے حالیہ میچ کے آخر میں ویرات کوہلی نے نویں نمبر پر آنے والے سہیل خان پر شاید کوئی فقرہ کسا جس نے اس کو مشتعل کر دیا لیکن بازی پاکستان کے ہاتھ سے نکل چکی تھی۔ کوہلی نے دونوں ہاتھ بلند کر کے بھارتی کرائوڈ سے کامیابی کا نعرہ بلند کر وا کے شاید پچھلی شکست کا غم ہمیشہ کے لئے ختم کرنا چاہا۔ اس موقعے پر پاکستانیوں کے جذ بات کیا ہو سکتے تھے چند ایک نے ٹی وی توڑ ڈالے تو کچھ نے شاید بے چاری بیوی اوربچوںپر غصہ نکال دیا ہو۔ ہم نے شنگھائی کے وقت کے مطابق تقریباً رات آٹھ بجے یہ منا ظر دیکھے اور اپنی فرسٹریشن کم کرنے کے لئے سائیکل پر سوار ہو کرقریبی مارکیٹ سے انڈے خریدنے چلے گئے کہ سائیکل کی سواری بھی اسٹریس کم کرنے کا آزمودہ نسخہ ہے بشرطیکہ چین کی طرح ان کے علیحدہ بنے ہوئے ٹریکس مل جائیں۔ دوسرا ویک اینڈ جو چینی نئے سال کی چھٹیوں کی وجہ سے لانگ ویک اینڈ بنا ہوا تھا وہ ویسٹ انڈیز کے جوانوںنے برباد کر دیا کہ اب ہمارے پاس انڈے خریدنے کا بہانہ بھی نہ بچا سو تین دن سے پڑے کپڑے ہی استری کرنے لگے ۔ پاکستانی ٹیم کی اس کارکردگی پر بھانت بھانت کے تبصرے سننے اور فیس بک پر کمنٹس دیکھنے کے دوران اس بات پر بہت شکر ادا کیا کہ کافی عرصے سے اتوار کے روز ٹینس بال کرکٹ کھیلنے کا سلسلہ رکا ہوا ہے جہاں ہمارا گروپ دو تین پاکستانیوں اور آٹھ نو انڈینز پر مشتمل ہے۔ گو کہ انڈین دوست میری ناقص بالنگ کو بھی کافی تیز سمجھتے ہوئے ذرا عزت سے پیش آتے ہیں لیکن ان حالات میں ان کی دبی مسکراہٹوں اور جھوٹی موٹی تسلی نے زخموں پر نمک کا ہی کام کرنا تھا۔
ابھی ٹیم کا ورلڈ کپ ختم نہیں ہوا اور عین ممکن ہے کہ ہماری ٹیم کوئی معجزہ دکھا دے جو کہ وہ دکھا سکتی ہے لیکن یونہی خیال آیا کہ اب جبکہ پاکستان میں ہر دوسری چیز ہی ہم چینی بھائیوں سے بنوا رہے ہیں کیوں نہ وسیم اکرم‘ جاوید میانداد اورسعید انور وغیرہ کے نمونے (Samples) دے کر یہ درخواست کی جائے کہ کچھ اس طرح کا مال تیار کر دیںاور کاپی ایک نمبر ہونی چاہیے ۔ابھی یہ نایاب خیال آیا ہی تھا کہ یاد آیا کہ چین تو خود اپنی کرکٹ ٹیم بنانے پر تلا ہوا ہے اور انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کی کوئی چھوٹی موٹی ممبر شپ لے کر ہمارے سا بق ٹیسٹ کرکٹر راشد خان سے اپنی مردوں اور عورتوں دونوں ٹیموں کی کوچنگ کرواتا ہے۔ یعنی ایک چیز تو ہم بھی چین کو بنا کر دے رہے ہیں اس لئے کرکٹ ٹیم تو یہاں سے نہیں بنوا سکتے۔ ویسے بھی ہانگ کانگ میں جہاں پاکستانی اور ہندوستانی نژاد باشندوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے سابق برطانوی کالونی ہونے کے باعث کرکٹ ایک مقبول کھیل ہے۔ بڑے عرصے سے یہ خواہش تھی کہ چین کی کسی کمزوری پر لکھیں اور دیکھیں آخر یہاں کی کرکٹ ٹیم کا پتا چلا ہی لیا۔ چین کی کرکٹ ایسوسی ایشن نے انٹرنیشنل کرکٹ کونسل میں 2004ء سے رجسٹریشن کرا رکھی ہے اور اسے(Affiliated team) کا درجہ حاصل ہے اور ہلکے پھلکے میچ بھی کھیل لیتی ہے مثلاً چند برس قبل مالدیپ سے ایک میچ 315 رنز سے ہار بھی چکی ہے اور میانمار(برما) سے 118رنز سے جیت بھی چکی ہے جی ہاں ان ممالک کی بھی کرکٹ ٹیمیں ہیں۔ البتہ چین میں کسی سے ان کی کرکٹ ٹیم کے بارے میں پوچھنا ایسا ہی ہے جیسے ہم پاکستان کی رگبی ٹیم کے بارے میں لوگوں سے پوچھتے پھریں اور آگے سے جواب ملے ٹیم تو چھوڑیں پہلے یہ بتائیں کہ رگبی کیا ہوتی ہے۔
کرکٹ نہ سہی لیکن ہم چین سے دیگر چیزوں میں مدد مانگتے ہی ہیں تو کیوں نہ یہی دیکھ لیا جائے کے اسپورٹس کے جن شعبوں میں وہ کامیاب ہیں وہاں کیا کرتے ہیں مثلاً اولمپکس کے مقابلوں میں چالیس پچاس گولڈ میڈل اتنی سہولت سے کیسے جیت لیتے ہیں جبکہ ہمارے لئے تو ایک آدھ کانسی کا تمغہ بھی بہت ہوتا ہے یہاں تک کہ ایک ارب سے زیادہ آبادی والا بھارت بھی چند ایک میڈلز پر قناعت کر لیتا ہے ۔ چینیوں کی اولمپک گیمزمیں حیرت انگیز کامیابیوں کے پیچھے حقیقت معلوم کرنے کی کوشش کی تو پتا چلا کہ یہی کوئی چھ لاکھ سے زیادہ جمنازیمز اور اسپورٹس اسٹیڈیمز ملک میں موجود ہیں جہاں چینی کھلاڑی اور ایتھلیٹ جی بھر کر پریکٹس کرتے ہیں۔ بیجنگ اور شنگھائی کے عظیم الشان اسٹیڈیمز اور جمنازیمز تو میں خود دیکھ چکا ہوں ۔ اتنی اہم جگہوں پر اگر کسی پاکستانی پراپرٹی ڈویلپر کی نظر پڑ جائے تو چائنا کٹنگ کر کے پندرہ بیس ہزار رہائشی پلاٹ تو بن ہی جائیں گے۔ پاکستان میں چائنا کٹنگ کی بھی عجیب اصطلا ح ایجاد ہوئی ہے کراچی میں کھیل کے میدانوں کو اسی ٹیکنالوجی کی مدد سے رہائشی علاقوں میں بدلا گیا ہے۔ شاید اسی لئے کراچی میں اچھے کرکٹر پیدا ہونے بندہو رہے ہیں اب سب پراپرٹی ڈیلرز بن گئے ہیں ۔ویسے سنا ہے کہ لاہور کے اردگرد کی زرعی زمینیں بھی رہائشی پلاٹوں کی نذر ہوتی جا رہی ہیں یعنی سستی سبزیاں اور اچھے کھلاڑی دونوں ہی پلاٹوں کی نظر ہو گئے ہیں۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق چین کی 34 فیصد آبادی روزانہ کھیل کود کی جسمانی مشقت کرتی ہے اور 60 فیصد شہری آبادی روزانہ جمنازیمز جاکر اپنی فٹنس کا خیال رکھتی ہے۔ ابتدائی عمر سے مختلف کھیلوں کی جسمانی تربیت اسکول کی تعلیم کا لازمی حصہ ہوتی ہے اور کروڑوں لوگ کھیل کود اور جسمانی مشقت میں حصہ لیتے ہیں۔ سکولوں اور یونیورسٹیوں کی سطح پر قومی کھیلوں کا شاندار انعقاد ہوتا ہے جن میں عالمی معیار کے ایتھلیٹس تیار ہوتے ہیں۔ چند ماہ قبل نانجنگ شہر نے انٹرنیشنل یوتھ اولمپکس کا انعقاد کروایا۔ چین کی خاتون ٹینس پلئیر لی نا (Li Na) نے فرنچ اور آسٹریلین اوپن جیت کر پورے ملک میں ٹینس کے شوق کو ایک جنون کی شکل دے دی ہے ۔جب ایک ملک اتنے گراس روٹ لیول پر جا کر لوگوں کو تیار کرے گا تو کامیابی تو ملنی ہی ہے ۔ہمارا حال یہ ہے کہ اسی ملک کے نام پر پلاٹوں کی کٹنگ کر کے کھیل کے میدانوں کو برباد کر دیا اور معصومیت سے پوچھتے ہیں کہ آخر ہماری ٹیم ہار کیوں رہی ہے۔ اصل سوال تو یہ ہونا چاہیے کہ وہ جیت کیسے جاتی ہے اور کچھ پتا نہیں اس ورلڈ کپ میں بھی آگے کچھ کمال کر جائے لیکن یہ منصوبہ بندی سے زیادہ ہم لوگوں کی لعن طعن کا نتیجہ ہو گا۔ ہمارے انتہائی مہذب اور سمجھ دار نجم سیٹھی صاحب نے تو کہہ دیا ہے کہ ٹیم سے زیادہ توقعات نہ رکھیں کیونکہ اہم کھلاڑی تو جسمانی طور پر فٹ ہی نہیں۔ایک عمدہ ترین انگریزی رسالے کی ادارت کا تجربہ رکھنے والے سیٹھی صاحب پر جو نا جائز طنز اور تنقید ہو رہی ہے مجھے اس کا بے حد افسوس ہے۔ اب جب کھیل کے میدان ہی نہ رہیں تو وہ کیا کریں۔ ویسے آپس کی بات ہے کہ ہمیں اپنی کرکٹ ٹیم پر زیادہ غصہ کرنے کا حق نہیں ان کی کارکردگی ویسی ہی ہے جیسی ہماری بحیثیت قوم... سمجھیں حساب برابر۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں