تہوار وں کی چھٹیوں کا حساب کتاب

کام سے آرام اور مصروفیت سے وقفہ کس کو نہیں درکار ہوتا اور ان خاص موقعوں کا‘جن میں تعطیلات کئی روز تک جاری رہیں‘سبھی کو انتظار ہوتا ہے۔ سکول کے دنوں میں تو میری پسندیدہ چھٹیاں نہ تو گرمیوں کی ہوتی تھیں نہ سردیوں کی‘ بلکہ سالانہ امتحانات کے بعد نتیجے کے آنے تک جو دس بارہ دن کا وقفہ ہوتا تھا‘ ان میں سب سے زیادہ مزا آتا‘ جی بھر کر اشتیاق احمدمرحوم کے جمع شدہ جاسوسی ناول اور تھوڑا بڑا ہونے پر ہر طرح کے میسر ڈائجسٹ چاٹ ڈالتے تھے۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں تو اتنا عجیب و غریب لا حاصل سا ہوم ورک لاد دیا جاتا تھا کہ سارا مزا کرکرا ہو جاتا۔ اس وقت ہمارے سرکاری سکولوں کا کیلنڈر مارچ میں امتحانات پر مکمل ہوتا اور عموماً مارچ کے آخری دس بارہ دن ہوم ورک فری چھٹیاں زیادہ لطف دیتیں۔ نتائج کی زیادہ پروا اسی لئے نہ تھی کہ کسی قسم کی پوزیشن لانے والے ہمارے حالات نہ تھے اور روپیٹ کر اتنا کچھ کر آتے کہ فیل ہونے کا بھی خدشہ نہیں ہوتا تھا۔اب بدلے ہوئے حالات میں ان وقتوں کے سرکاری سکولوں میں جانے والا طبقہ بھی پرائیویٹ اداروں کا رخ کر چکا ہے اورشاید نیا تعلیمی سال بھی اپریل کے بجائے اگست میں شروع ہونے لگا ہے۔کاش کہ اس دور میں بھی یہ معاملہ ہوتا تو گرمیوں کی چھٹیوں کا لطف دوبالا ہو جاتا۔بہرحال تعلیمی دور کے بعد جب روزی روٹی کی مشقت شروع ہوتی ہے تو چھٹیاں موسموں کے بجائے تہواروں اور خصوصی ایام کے گرد گھومتی ہیں اور اسی لئے ان دنوں کی سر گرمیاں اور منصوبہ بندی بڑی اہمیت اختیار کر جاتی ہے۔
کام سے وقفے کا انتظار چینی باشندوں کا بھی محبوب مشغلہ ہے کیونکہ یہاں ڈیوٹی بڑی سخت چلتی ہے اور اکثر لوگ روزگار کی خاطر اپنے اصل رہائشی مقامات سے دور ہی پائے جاتے ہیں۔یہاں کی سب سے مقبول اور پہلی طویل تعطیل چینی نئے سال کے موقع پر میسر آتی ہے اور کیونکہ ان چھٹیوں کا انحصار بھی چاند میاں پر ہوتا ہے اس لئے ہر برس چند روزکافرق پڑتا ہے جو جنوری کے آخری دنوں سے فروری کے وسط تک کچھ بھی ہو سکتا ہے۔اگر آپ کبھی چین میں سیر و تفریح کا منصوبہ بنائیں تو ان دنوں کو منتخب نہ ہی کریں تو بہتر ہوگا۔چینی نیا سال بنیادی طور پر ان کا ایک ثقافتی تہوار ہی ہے لیکن اس سے منسلک روایات اور تقریبات میں خاندانی‘ روحانی اور کاروباری سارے رنگ ہی گھل مل جاتے ہیں۔ اصل چھٹیاں تو محض تین روز کی ہوتی ہیں لیکن ان کو پورے ہفتے تک پھیلانے کے لئے بڑے جتن کئے جاتے ہیں اور یہ حساب کتاب یہاں کی اکثر تعطیلات میں دہرایا جاتا ہے۔مثال کے طور پر تین دن کی چھٹی اگر منگل ‘بدھ اور جمعرات کو پڑ رہی ہے تو اگلے جمعے اور پچھلے پیر کو شامل کرنے کے لئے اکثر ادارے ہفتے اور اتوار کے روز کھلتے ہیں تاکہ لوگ ایک تسلسل کے ساتھ پورے ویک کی چھٹیوں سے لطف اندوز ہو پائیں۔اگر یہ پڑھتے ہوئے آپ کا سر ذرا چکرا گیا ہو تو معذرت حالانکہ یہ بڑی سادہ سی کیلکولیشن تھی اگر دنوں کا مزید ہیر پھیر ہو تو معاملہ راکٹ سائنس جتنا پیچیدہ ہو جاتا ہے ‘ خوش قسمتی سے یہ درد سر حکومت اور ادارے از خود لے کر کافی پہلے ہی اعلان کر دیتے ہیں تاکہ لوگ اپنی سفری منصوبہ بندی بر وقت کر سکیں۔
ان چھٹیوں میں یہاں سارا زور ٹرانسپورٹ کے ذرائع پر پڑ جاتا ہے جس کا تفصیلی ذکر پہلے انہی کالموں میں ہو چکا ہے بس یاد دہانی کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ جہازوں ‘ ٹرینوں اور بسوں کے لاکھوں چکر لگنے کے باوجود بھی دنیا کا سب سے بڑا ٹرانسپورٹ نیٹ ورک کروڑوں لوگوں کو بمشکل ہی ان کی منزل تک بر وقت پہنچاتا ہے تاکہ وہ اپنے خاندانوں کے ہمراہ چند روز بتا سکیں۔نئے سال کی چھٹیوں کے بعد تین روز کی اگلی عام تعطیل کے لئے چینی باشندوں کو تقریباً آٹھ ماہ کا انتظار کرنا پڑتا ہے جب پوری قوم کویکم اکتوبر کے قومی دن پر مزید ایک ہفتے کے لئے کام سے وقفہ مل جاتا ہے۔ان تین چھٹیوں کو بھی کھینچ تان کر ہفتہ دس دن کرنے کے لئے بھی وہی ہفتے اور اتوار کو کام کرنے والا نسخہ کام میں لایا جاتا ہے ۔ چینی نئے سال کی چھٹیاں جہاں فیملی ری یونین اور روایتی طرز پر منائی جاتی ہیں وہاں قومی دن پر ملنے والا ہفتہ بھر لوگ سیر وتفریح کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ بڑے شہر جو چینی نئے سال کے موقعے پر خاموش اور رش سے خالی ہوتے ہیں اکتوبر کے پہلے ہفتے میں مقامی سیاحوں اور متجسس خاندانوں سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں ‘ دوبارہ ٹورسٹ الرٹ دے دیتا ہوں کہ اگر آپ اکتوبر کے پہلے دس دنوں میں یہاں کی سیاحت سے بہتر ہو گا کہ اسے ایک دو ہفتوں کے لئے موخر کر دیں کیونکہ تفریحی مقامات انسانوں کی اوٹ میں اوجھل ہی رہ جائیں گے ۔
چینی نئے سال کی تعطیلات کے بعد اگلا موقع اپریل کے شروع میں میسر آتا ہے جب ' چھنگ منگ‘ فیسٹیول کی ایک چھٹی ملتی ہے یہ موقع بھی چینی تقویم کے لحاظ سے طے پاتا ہے۔ ' چھنگ منگ‘ کی چھٹی روایتی طور پر مرحومین کی یاد کا دن ہوتا ہے ۔ اس موقع کی نوعیت سے قطع نظر عام طور پر چینی باشندے اسے کافی خوشگوار انداز میں مناتے ہیں‘ قبروں کے ارد گرد کی جھاڑ جھنکار صاف کرتے ہیں اور اسی لئے اس کو (Tomb Sweeping Day) کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ بہار کی آمد کے پیش نظر مخصوص پکوان بنائے جاتے ہیں اور کھلے مقامات پر پتنگ بازی کی مشق بھی کر لی جاتی ہے۔اس ایک دن کو بھی ہر ممکن کوشش کر کے دو تین دن میں تبدیل کرنے کی تگ و دو کی جاتی ہے اور فارمولا وہی چلتا ہے یعنی اگر مسلسل تین دن چاہئیں تو آستینیں چڑھا کر پچھلے ہفتے کے ساتوں دن کام کرتے نظر آئو۔دنیا کی شاید کوئی ہی دوسری قوم یکم مئی پر محنت کشوں والی تعطیل کی چینیوں سے زیادہ مستحق ہے اور اگر خوش قسمتی سے یکم مئی کا دن ہفتے یا اتوار کو آگیا تو کیا ہی بات ہے کیونکہ پھر یہ تعطیل پیر کے دن کی قرار پاتی ہے اور یوں لوگ لانگ ویک اینڈ کے مزے لوٹتے ہیں۔یہاں کی قدیم ثقافت کا سب سے نمایاں نشان ایک تصوراتی جانور ' ڈریگن‘ ہے‘ آسانی کے لئے آپ اس کو اڑنے والا' ڈائنو سار‘ سمجھ لیں۔ انہی مافوق الفطرت موصوف سے منسوب دو ہزار سال کی تاریخ رکھنے والا ' ڈریگن بوٹ فیسٹیول‘ بھی ایک دن کی چھٹی لوگوں کو عنایت کر جاتا ہے۔ اس دن سے جڑے قصے تو بہت ہیں لیکن اس تعطیل کا سب سے اہم ایونٹ ' بوٹ ریسنگ ‘ہوتی ہے۔ جہاں پانی اور مواقع میسر ہوں روایتی کشتیوں میں سوار رنگ برنگے کپڑوں سے مزین لوگ بوٹ ریس کے مقابلوں میں حصہ لیتے ہیں۔اس موقع کی روایتی ڈش پتوں میں بندھے ہوئے لیس دار میٹھے چاول جنہیں 'زونگ زی‘ کہا جاتا ہے ہوتے ہیں۔ جس طرح ہماری نئی نسل 'کھیر یا فیرنی‘ سے زیادہ آئس کریم اور ' پلائو کباب‘ کے بجائے پیٹزاوغیرہ کی متوالی ہے ‘ اسی طرح یہاں بھی ' زونگ زی‘ بڑے بزرگوں کے لئے زیادہ اہم رہ گیا ہے‘ چاولوں کو پتوں میں پان کے موٹے سے پیڑے کی طرح ڈوری کی مدد سے باندھ کر پکانا اور رکھنااسے ایک منفرد ڈش بنا دیتا ہے۔ 
ستمبر کے وسط سے اکتوبر کی ابتدا کے درمیانی عرصے میں ایک چھٹی ' مڈ اوٹم فیسٹول‘ کی بنتی ہے یعنی خراں کا وسط ‘بنیادی طور پر یہ چاول کی کٹائی کا سیزن ہوتا ہے ۔ اس فیسٹول کی قمری تاریخ پندرہ ٹھہرتی ہے جب چاند بہت روشن اور گولائی میں سب سے بڑا نظر آتا ہے۔اسی منا سبت سے یہاں بیسیوں اقسام کے گول 'مون کیکس‘ تیار کئے جاتے ہیں جو لوگ بہت شوق سے کھاتے ہیں۔ میں نے ہمیشہ یہ کیکس بڑے شوق سے کھائے ہیں اور خاصے مقوی ہونے کے باعث عموماً دو سے تین کپ نما کیکس سے پیٹ کافی مطمئن ہو جاتا ہے۔اگر یہ چھٹی کبھی چینی قومی دن کی تعطیل والے ہفتے میں آگئی تو پھر حساب کتاب مزید گمبھیر ہو سکتا ہے اس لئے اس بات کو یہیں چھوڑتے ہیں۔ چھٹیوں کا اصل مزا اسی وقت ہے جب کام کی کثرت نے آپ کی مت مار دی ہو اور اس لحاظ سے چینی ان کا بڑا مزا لوٹتے ہیں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں