یہ ستر کی دہائی کا زمانہ تھا۔ ریاست کے کچے راستوں پر اونٹوں اور گدھوں پر سواری ہوتی تھی، پتھروں اور مٹی سے تعمیر شدہ کوٹھوں میں لوگ رہائش پذیر تھے، لیکن آج ان کچے راستوں پر جدید برقی روشنیوں سے جگمگاتی چوڑی شاہراہوں کا جال بچھا ہوا ہے، ٹیڑھے میڑھے اور بنیادی سہولیات سے محروم گھروں کی جگہ آسمان سے باتیں کرتی بلندوبالا اور وسیع و عریض عمارات کی بھرمار ہے، اونٹوں اور گدھوں کی جگہ چم چم کرتی جدید اور سبک رفتار گاڑیوں کا سیلِ رواں ہر سڑک پر نظر آتا ہے۔یہاں کے باسیوں کے دمکتے چہروں پر خوشی ان کی ذہنی ومالی آسودگی کا پیغام دیتی ہے۔ یہ سب کچھ چند سالوں میں کیسے ہوگیا؟ اس کا سہرا اس شخص کے سر ہے جس نے چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں بٹی اپنی قوم کو نہ صرف متحد کیا بلکہ غربت اور پسماندگی کی دلدل سے نکال کر اسے ترقی اور خوشحالی کی ان منزلوں سے ہمکنار کردیا جہاں دنیا بھر کے لوگ اس قوم کی خوشحالی اور ترقی پر رشک کرتے ہیں۔
اگرچہ اس میں کوئی شک نہیں کہ خطّہ عرب کی ترقی میں تیل جیسی قدرتی دولت کو بنیادی اہمیت حاصل ہے لیکن اس دولت سے موزوں استفادہ کی جو مثال متحدہ عرب امارات کی قیادت نے قائم کی، اسکی کوئی نظیر نہیں ملتی، اس سارے کمال کا سبب وہ شخص ہے جسے دنیا شیخ زید بن سلطان النہیان کے نام سے جانتی ہے۔بنی یاس قبیلہ سے تعلق رکھنے والے اس عرب نے جب 1966ء میں ابوظہبی کی حکمرانی سنبھالی تو اس وقت حالات دگرگوں تھے، معاشی خوشحالی نام کو نہیں تھی۔ یہاں سے نکلنے والا تیل اونے پونے غیرملکی کمپنیوں کو دے دیا جاتا تھا۔ غیر اس تیل سے خوب پھل پھول رہے تھے جبکہ عرب باشندے غربت اور پسماندگی کی دلدل میں دھنسے ہوئے تھے ۔
شیخ زید بن سلطان النہیان نے تدبر اور دانش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حالات کا مکمل جائزہ لیا اور اپنی حکمت عملی وضع کی۔انہوں نے اس خطہ میں پائے جانے والے قدرتی وسائل کی اہمیت اور آنے والے وقتوں میں اس خطے کی افادیت کو بھانپتے ہوئے غیر ملکی طاقتوں کی گرفت سے نہ صرف اپنے آپ کو چھڑایا بلکہ اپنے اردگرد کی چھوٹی ریاستوں کو بھی اپنے ساتھ ملایا اور ایک نئی علاقائی طاقت کے طور پر 2 دسمبر 1971ء کو متحدہ عرب امارات کے نام سے نئی مملکت کی بنیاد ڈالی۔ان امارات میں دبئی، شارجہ، عجمان، ام الکونین، راس الخیمہ اور فجریہ کی ریاستیں شامل تھیں۔نئی مملکت کے قیام میں ان چھوٹی ریاستوں کی اندرونی خودمختاری کو نہ صرف برقرار رکھا گیا بلکہ ترقی اور خوشحالی کے نئے سفر میں انہیں مکمل طور پر ساتھ شامل کیاگیا۔ان ریاستوں کے حکمرانوں نے شیخ زید بن سلطان النہیان کو متحدہ عرب امارات کا صدر اور دبئی کے حکمران شیخ راشد المکتوم کو نائب صدر اور وزیراعظم چن لیا جبکہ تمام سات ریاستوں کے حکمرانوں پر مشتمل وفاقی سپریم کونسل قائم کردی گئی جو امارات سے متعلق تمام فیصلوں کا مجاز ادارہ قرار دیدی گئی۔شیخ زید بن سلطان النہیان نے ان سات ریاستوں کو ایک ایسی مضبوط اکائی میں پرو دیا کہ وہ اس خطہ کی اہم معاشی طاقت بن کر ابھریں۔انہوں نے تیل کی تلاش اور فروخت کے کاروبار پر غیرملکی کمپنیوں کی اجارہ داری ختم کی۔تیل کی آمدن کے ساتھ ساتھ متبادل ذرائع آمدن کو بھی ترقی دی، متحدہ عرب امارات کی ترقی کیلئے ٹھوس منصوبہ بندی کی۔دنیا بھر سے بہترین دماغ لاکر جمع کئے، انہیں بہترین مراعات اور سہولیات دے کر اس ریاست کی ترقی اور فلاح وبہبود کے لیے ان سے کام لیا۔ریاست میں قانون کی حکمرانی قائم کی، انصاف اور میرٹ کو اولیت دی۔ان کے طرزِ حکمرانی کا کمال ہے کہ اس سرزمین پر 200 ممالک سے تعلق رکھنے والے لاکھوں تارکین وطن سالہا سال سے آباد ہیں۔ان میں امریکہ، برطانیہ، جرمنی، فرانس کے اعلیٰ ہنرمند اور تعلیم یافتہ افراد سے لے کر جنوبی ایشیاء اور افریقہ کے پسماندہ ممالک کے محنت کش مرد اور خواتین تک شامل ہیں لیکن مختلف تہذیب، ثقافت اور سماجی ومعاشی پس منظر رکھنے کے باوجود ان میں کوئی تصادم یا کشیدگی نہیں، ان کا مقامی باشندوں کے ساتھ بھی کوئی ٹکرائو نہیں۔ یہ سب لوگ شیروشکر ہو کر اس سرزمین کی تعمیروترقی میں مصروف ہیں۔ 'ریاست ماں جیسی‘ اور 'قانون کی بالادستی‘ اس قسم کی اصطلاحیں اور نعرے ہم پاکستان میں بہت سنتے رہتے ہیں لیکن حقیقی معنوں میں اس کی تصویر متحدہ عرب امارات میں ہی نظر آتی ہے۔
قانون کی عمل داری کا یہ عالم ہے کہ تمام تر امارت، خوشحالی اور دولت کی ریل پیل کے باوجود کسی کو سرمستی کی جرأت نہیں، قانون سب کے لیے یکساں ہے۔ملکی یا غیر ملکی کی کوئی تخصیص نہیں، جرم جو بھی کرے‘ سزا پاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہر شخص محفوظ اور پُرسکون زندگی گزار رہا ہے۔ریاست اپنے عوام کے حقوق کا مکمل تحفظ کرتی ہے۔ روزگار، تعلیم، علاج معالجہ غرض ہر بنیادی سہولت ہر شہری کو حاصل ہے۔غیر ملکی تارکین وطن کے لیے معاوضوں اور سہولیات کا پیشگی تعین کیا جاتا ہے، فریقین باہمی رضامندی سے اسے قبول کرتے ہیں اور ریاست اس پر عمل درآمد کی ذمہ داری لیتی ہے۔نتیجتاً نہ معاوضوں میں اضافہ کے لیے ہڑتالیں ہوتی ہیں اور نہ کام چوری کی شکایت، غرض ہر شخص کو اس کے دائرے میں رہ کر اپنے فرائض انجام دینا ہوتے ہیں۔یہاں کے موجودہ حکمران شیخ خلیفہ بن زید النہیان نے اپنے والد شیخ زیدبن سلطان النہیان کے انتقال کے بعد جب عنان اقتدار سنبھالی تو انہوں نے قومی ترقی اور خوشحالی کے اس مشن کو اسی جذبہ سے آگے بڑھایا جس کا آغاز ان کے عظیم المرتبت والد شیخ زید بن سلطان النہیان نے کیا تھا، اسی طرح دبئی کے موجودہ حکمران شیخ محمد بن راشد المکتوم بھی امارات کی ترقی کیلئے دن رات کوشاں ہیں۔آج متحدہ عرب امارات کی آبادی 83 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے، جی ڈی پی 360بلین ڈالر ہے۔کُل برآمدات 282 ملین ڈالر ہیں، تیل سے حاصل آمدن 91 بلین ڈالر ہے۔ 1971ء سے اب تک ملک نے 200 گنا معاشی ترقی کی ہے، سعودی عرب کے بعد عرب دنیا کی دوسری بڑی اکانومی ہے۔
توانائی کی ضروریات کی تکمیل کے لئے تیل پر انحصار کم کرنے کے لئے شمسی توانائی اور نیوکلیئر انرجی سمیت متبادل ذرائع پر بھی تیز رفتاری سے کام جاری ہے۔ 16 ارب ڈالر کی لاگت سے مصدار نامی شہر آباد کیا گیا ہے جو شمسی توانائی پر چلنے والا ایک ایسا عجوبہ ہے جسے دیکھنے کے لئے دنیا بھر کے سیاستدان اور سیاح اس کا رُخ کرتے ہیں۔ یہ شہر مستقبل میں شمسی توانائی کے حوالے سے دنیا بھر کا ماڈل کہلائے گا۔اسی طرح ایٹمی توانائی کے حصول کے لئے کوریا کے تعاون سے نیوکلیئر ری ایکٹر لگائے جارہے ہیں جو متحدہ عرب امارات کی توانائی کی ضروریات کا 25 فیصد پورا کریں گے۔ تاہم ایٹمی توانائی کے حصول کے اس مشن کا قابل ذکر پہلو یہ ہے کہ اسے اتنی سفارتی مہارت اور تدبر کے ساتھ سرانجام دیا جا رہا ہے کہ دنیا میں اس کا کوئی واویلا نہیں، نہ تو امارات کے سائنسدانوں نے لمبے چوڑے انٹرویوز دیئے اور نہ ہی حکومتی عمائدین نے ایٹمی توانائی کے اس پروگرام کو اپنی عوامی مقبولیت چمکانے کے لئے استعمال کیا۔ توانائی کی ضروریات 2020ء میں اُس وقت اپنی انتہا کو چھو رہی ہوں گی جب یہاں ورلڈ ایکسپو کا انعقاد ہو گا۔اس ایکسپو کا انعقاد بھی یو اے ای کی کامیاب سفارتکاری کی روشن مثال ہے۔اس بارے میں امارات کے وزارتِ خارجہ کے ذمہ دار ذرائع نے بتایا کہ ایکسپو کی تاریخ میں کسی ملک کو اتنے ووٹ نہیں پڑے جتنے متحدہ عرب امارات کے حصے میں اس سال آئے۔ اس حوالے سے دبئی کے حکمران شیخ محمد نے تو انتہا کر دی، وہ دن ہو یا رات‘ سفر میں ہوں یا کسی اجلاس میں، ان کی انگلیاں موبائل فون پر دنیا بھر میں پھیلے ہوئے امارات کے سفارتکاروں اور امارات میں مقیم غیر ملکی سفیروں سے رابطے میں مصروف رہیں۔انہوں نے اپنی وزارت خارجہ کو یہ واضح ہدف دے رکھا تھا کہ ایکسپو کی ووٹنگ میں حصہ لینے والے تمام ممالک میں تعینات امارات کے سفیروں کی کارکردگی کا تعین متعلقہ ملک کے ووٹ حاصل کئے جانے کی بناء پر کیا جائے گا۔ اس طرح ہر امارتی سفیر اپنے ملک کی کامیابی کے لئے سر دھڑ کی بازی لگا کر جُت گیا اور بالآخر ایکسپو کے انعقاد کا میدان امارات نے مار لیا۔
تیل کے ساتھ ساتھ دیگر شعبوں میں بھی ترقی کا سفر جاری ہے، یہ ملک سیاحت کی ترقی کے حوالے سے دنیا میں 31ویں نمبر پر ہے۔قومی آمدن میں سیاحت کا 14 فیصد حصہ ہے،اس کا اظہار امارات کے ہوائی اڈوں پر اُترنے والی اُن غیر ملکی پروازوں کو دیکھ کر ہوتا ہے جن سے سیاحوں کے غول کے غول برآمد ہو رہے ہوتے ہیں۔ ہوٹلوں، ریستورانوں، بازاروں اور شاپنگ سنٹروں میں تِل دھرنے کی جگہ نہیں ملتی۔ ٹرانسپورٹ اور لاجسٹک کے شعبے کو بھی فروغ دیا جارہا ہے۔متحدہ عرب امارات کی 20 بندرگاہیں ہیں، جو اس انڈسٹری کے فروغ میں کلیدی کردار ادا کررہی ہیں۔سٹیٹ آف دی آرٹ آئل ٹرمینلز اور عالمی معیار کی بندرگاہیں اور ان پر کارگو کا بہترین نظام متحدہ عرب امارات کو اس خطے میں چھٹا اہم ترین کارگو مرکز بنا چکا ہے۔
اسی طرح رئیل سٹیٹ اور کنسٹرکشن انڈسٹری کے حوالے سے بھی متحدہ عرب امارات نے شاندار ترقی کی ہے۔قومی آمدن میں اس کا حصہ دس فیصد ہے ۔اس خطہ میں پائے جانے والے سیاسی اور معاشی استحکام کی بدولت دنیا بھر سے سرمایہ کار یہاں کا رُخ کررہے ہیں۔اسی طرح یہاں کا بینکاری نظام دنیا کے تیزی سے ترقی پانے والے مالیاتی شعبہ کا درجہ حاصل کر چکا ہے، قومی آمدن میں اس کا حصہ 7 فیصد ہے۔ دنیا کا شاید ہی کوئی بڑا بینک یا مالیاتی ادارہ ہو جس کی برانچیں امارات میں نہ ہوں۔ اسی طرح امارات کے بینکوں اور مالیاتی اداروں کا نیٹ ورک دنیا بھر کے معاشی مراکز میں موجود ہے۔ بینکنگ سیکٹر کی اس ترقی کی وجہ سے عالمی مالیاتی ادارے اپنی تمام اہم کانفرنسیں اور اجلاس اس سرزمین پر منعقد کرتے ہیں۔ معاشی ترقی کے اس سفر میں امارات کی قیادت اُن غریب اور ترقی پذیر ممالک کو نہیں بھولی جو اِس کے پڑوس میں بستے ہیں۔اِن ممالک میں انفراسٹرکچر کی تعمیر اور بنیادی سہولیات کی فراہمی کے لئے فراخدلی سے سرمایہ کاری کی جا رہی ہے۔ بالخصوص مسلمان افریقی ممالک کی پسماندگی کے خاتمے کو ترجیح دی جا رہی ہے،اِس حکمت عملی کی وجہ سے امارات کی سفارتی اور سیاسی طاقت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ ابوظہبی اور دبئی کی دونوں حکمران شخصیات شیخ خلیفہ بن زیدالنیہان اور شیخ محمد بن راشد المکتوم کو اپنی رعایا سے جو محبت اور لگائو ہے، اس کا اظہار امارات کے گوشے گوشے میں پھیلی ہوئی ان سہولیات سے ہوتا ہے، جو اپنے لوگوں کیلئے جابجا فراہم کی گئی ہیں۔صاف ستھری آبادیاں، سرسبز اور شاداب باغات، جدید طرز تعمیر کے حامل سکول، کالج، یونیورسٹیاں، سٹیٹ آف آرٹ، ہسپتال اور مراکز صحت، آرام دہ بسیں اور ٹرانسپورٹ کی دیگر سہولیات، ان سب سے بڑھ کر محفوظ اور پُرامن ماحول جس میں مرد، عورتیں اور بچے سکون کے ساتھ زندگی سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک پُرہجوم شاپنگ سنٹر میں ایک شہری کو دل کا دورہ پڑا، اسے فوری طور پر ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں اس کی جان بچا لی گئی لیکن اس واقعہ کا حکمرانوں نے اس طرح نوٹس لیا کہ انہوں نے شہر کے تمام بڑے بڑے تجارتی کاروباری مراکز اور عوامی مقامات پر ایسی جدید مشینیں نصب کرنے کی ہدایت کر دی جو دل کے مریضوں کو فوری طور پر طبی امداد فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ اس طرح کوئی شہری محض اس لئے زندگی کی بازی نہیں ہار سکے گا کہ اسے بروقت ہسپتال نہیں پہنچایا جاسکا۔ یہ ہے وہ احساس جو اس ریاست کے حکمرانوں کے دل میں اپنے عوام کے لئے موجزن ہے۔ جواباً امارتی عوام نے بھی اپنے ان حکمرانوں سے محبت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، ان حکمرانوں کی زبان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ ان کیلئے حرمت کا حامل ہے۔وہ دل وجان سے ان احکامات کی پابندی کرتے ہیں اور ان پر جان نچھاور کرتے ہیں۔ عوام کی آنکھوں میں اپنی قیادت کے لئے عقیدت اور محبت کی چمک اُس وقت دیکھنے کو ملی جب بیالیسویں قومی دن کے موقع پر بُرج الخلیفہ کی پُرشکوہ عمارت سے دبئی کے حکمران اور وزیراعظم شیخ محمد پرچم کُشائی کی تقریب کے لئے نکلے تو راستے میں کھڑے ہزاروں ملکی و غیر ملکی شہری مردوں، عورتوں اور بچوں نے والہانہ انداز میں ان کا استقبال کیا۔ اس تقریب کے دوران نہ تو شہریوں کی جامہ تلاشی لی جا رہی تھی نہ ہی آہنی رکاوٹیں کھڑی کرکے ٹریفک کو مسدود کیا گیا تھا۔ یہ شہری پُرجوش مگر منظم انداز میں اپنے لیڈر کے سنگ اپنا قومی دن منا رہے تھے۔ ساری فضا روشنیوں اور قمقموں سے دمک رہی تھی۔دنیا کے کونے کونے سے آنے والا ہر شخص اس سرزمین پر شاداں دکھائی دیتا تھا۔ شاید یہی وہ ماحول تھا جسے دیکھ کر مجھے اپنے قانون دان سیاستدان اعتزاز احسن کی نظم کا مصرعہ بے اختیار یاد آگیا ع
ریاست ہو تو ماں جیسی
کیا ہم اہلِ پاکستان کو کبھی ایسی ریاست اور قیادت نصیب ہو گی؟